صبیح احمد
یوکرین میں جنگ ایک نئے، زیادہ مہلک اور تباہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ایک شخص جو اسے روک سکتا ہے، وہ ہے ولادیمیر پوتن لیکن انہوں نے ایسا کوئی اشارہنہیں دیا ہے کہ وہ ایسا کریں گے۔ 11 مہینوں کے بعد بھی جس دوران یوکرین نے روسی افواج کے خلاف بار بار اور فیصلہ کن فتوحات حاصل کیں، اپنی کچھ زمینوں اور شہروں کو واپس لیا اور اپنے بنیادی ڈھانچے پر مہلک حملوں کا مقابلہ کیا، جنگ تعطل کا شکار ہے۔ ابھی تک لڑائی جاری ہے، جس میں مشرقی ڈونیتسک علاقہ میں باخموت شہر پر قبضہ کے لیے زبردست لڑائی بھی شامل ہے۔ شہری اہداف پر ظالمانہ، اور بظاہر بے ترتیب ہولناک روسی میزائل حملے ایک معمول کی بات بن چکے ہیں۔ اسی طرز پر 14 جنوری کو ایک روسی میزائل نے وسطی یوکرین کے ڈنیپرو میں ایک اپارٹمنٹ کی عمارت کو نشانہ بنایا۔اس حملے میں کم از کم 40 افراد کی موت ہو گئی۔ مرنے والوں میں چھوٹے بچے، ایک حاملہ خاتون اور ایک 15 سالہ رقاصہ شامل ہیں۔
دونوں فریقین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سردیوں یا موسم بہار کے اواخر میں جارحیت کے نئے دور کی تیاری کر رہے ہیں۔ روس نے 300,000 نئے جوانوں کو میدان میں اتارنے کے لیے متحرک کیا ہے، اور کچھ اسلحہ ساز فیکٹریاں 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں۔ ادھر یوکرین کے مغربی اسلحہ سپلائرس، اس دوران آرمر اور فضائی دفاعی نظام کے ساتھ کیف کے ہتھیاروں کو مضبوط بنا رہے ہیں جبکہ اب تک وہ اس تنازع کے مشرق-مغرب کی جنگ میں تبدیل ہونے کے خوف سے ان ہتھیاروں کو روس کے خلاف تعینات کرنے سے گریزاں تھے۔ پچھلے 2 مہینوں کے دوران امریکہ نے اربوں کے نئے ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کا وعدہ کیا ہے، جس میں تقریباً 2.5 بلین ڈالر کا پیکیج بھی شامل ہے جس کا اس ہفتہ اعلان کیا گیا ہے۔ ان ہتھیاروں میں پہلی بار اسٹرائیکر بکتر بند جنگی گاڑیاں شامل ہیں۔ یوکرین بھیجے جانے والے دیگر امریکی ہتھیاروں میں پیٹریاٹ، سب سے جدید امریکی زمینی فضائی دفاعی نظام، بریڈلی جنگی گاڑیاں؛ بکتر بند فوجی اہلکار بردار گاڑیاں اور توپ خانے کے نظام بھی شامل ہیں۔ ناٹو کے اتحادیوں نے بھی اپنے اپنے حصے کے ہتھیار ڈالے ہیں جن میں برطانیہ کا چیلنجر 2 بھاری ٹینک بھی شامل ہے۔ جرمنی تاریخی طور پر اپنے ٹینکوں کو روس کے خلاف استعمال کرنے سے گریزاں رہا ہے، لیکن اب وہ بھی اپنے اتحادیوں کو اپنے بہترین قسم کے لیوپرڈ ٹینک یوکرین کو برآمد کرنے کی اجازت دینے کے لیے شدید دباؤ میں ہے۔ بہرحال جرمنی نے گزشتہ جمعہ کو یوکرین کے اتحادیوں کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جس میں اتحادیوں نے یوکرین کو مزید جدید ہتھیار بھیجنے کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا جنہوں نے اجتماع کی قیادت کی، کہنا تھا کہ یہ ’سست روی کا لمحہ نہیں‘ بلکہ ’سنجیدگی کے مظاہرہ‘ کا لمحہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یوکرین کے وسیع، کیچڑ والے میدان جلد ہی ایک بار پھر بھرپور طریقے سے ٹینک اور خندق کی جنگ کا مشاہدہ کریں گے، وہ اس بار روس کے خلاف مغربی ہتھیاروں کا جلوہ دیکھیں گے۔ پچھلی جنگ عظیم کے بعد یوروپ میں ایسے نظارے کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ یوکرین اور اس کے حامیوں کو امید ہے کہ مغربی ہتھیار فیصلہ کن ثابت ہوں گے، جس سے یوکرین کو ایک بہتر موقع ملے گا کہ وہ روسی جارحیت کو ناکام بنائے اور روسیوں کو پیچھے ہٹائے۔ کتنا پیچھے؟ یہ ایک اور سوال ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی روس کو یوکرین سے مکمل طور پر باہر نکالنے کی بات کرتے ہیں، جس میںکریمیا اور مشرقی یوکرین کے وہ علاقے بھی شامل ہیں جن پر روس کی طرف سے 2014 میں قبضہ کیا گیا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کم اولوالعزم نتائج کو ترجیح دے سکتے ہیں، حالانکہ امریکی حکام مبینہ طور پر اس طرح کے نتائج کے امکانات پر غور کر رہے ہیں لیکن جب تک پوتن بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوجاتے، سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ فی الحال بنیادی کام روس کو اس بات کے لیے قائل کرنا ہے کہ مذاکرات کے ذریعہ امن ہی واحد متبادل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہونے والی لڑائی کافی اہم ہے، لیکن جیسا کہ پوتن اپنے فریب و وہم کی کھائی کو مزید گہری کرتے جا رہے ہیں، یہ بھی ضروری ہے کہ روسی عوام اس بات سے آگاہ رہیں کہ ان کے نام پر کیا کیا جا رہا ہے، اور کس طرح ان کے مستقبل کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ بالآخر سوال یہ ہے کہ کیا تاریخ پرپوتن کا کوئی بھی لیکچر واقعی اس موت اور تباہی کا کوئی جواز فراہم کرتا ہے جس کا انہوں نے حکم دیا ہے۔ روسی شہری ہمہ گیر جنگ کی ہولناکیوں کو جانتے ہیں۔ اگر یوکرین پہلے دشمن نہیں تھا تو پوتن نے یقینی بنا دیا ہے کہ وہ اب ایک دشمن ہے۔ حملہ آور سے لڑنا قومی شناخت بنانے کے سب سے زیادہ طاقتور طریقوں میں سے ایک ہے، اور یوکرین کے لیے روس اس کے دشمن اور مغرب اس کے مستقبل کے طور پر انمٹ عناصر بن چکے ہیں۔ اور اگر مغرب اس سے قبل واقعی اس بات پر منقسم اور غیر فیصلہ کن تھا کہ روس یا یوکرین سے کیسے نمٹا جائے، ماسکو کے حملے نے امریکہ اور یوروپ کے بیشتر حصوں کو اس بات پر متحد کر دیا ہے کہ وہ روس کو ایک خطرہ اور اخراج شدہ کے طور پر مسترد کرے اور بہادری سے لڑنے والے یوکرین کو ایک دوست اور اتحادی کے طور پر تسلیم کرے۔
روسی عظمت کی علمبرداری کا دعویٰ کرنے والے پوتن نے دنیا کے کئی حصوں میں روس کو ایک الگ تھلگ ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ روس کے پاس جنگ کی قیمت اور پابندیوں کو برداشت کرنے کے لیے درکار ہر چیز موجود ہے۔ لیکن ایک تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کو کئی دہائیوں کے معاشی جمود اور رجعت کا سامنا ہے، خواہ جنگ جلد ہی ختم کیوں نہ ہو جائے۔ صنعتی پیداوار یہاں تک کہ فوجی پیداوار، میں بھی مغرب کی ہائی ٹیک اشیا پر انحصار کی وجہ سے کمی آتی رہے گی کیونکہ یہ ہائی ٹیک اشیا اسے مزید حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بہت سی مغربی کمپنیاں چلی گئی ہیں، مغرب کے ساتھ تجارت کم ہو گئی ہے، اور جنگ کی مالی اعانت بجٹ کو متاثر کر رہی ہے۔ متعدد غیر ملکی ایئر لائنس نے روس کے لیے سروس بند کر دی ہے۔ اس کے ساتھ روس کے لاکھوں بہترین اور روشن دماغ راہ فرار اختیار کر چکے ہیں اور اب مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک اے ملی نے نومبر میں کہا تھا کہ ’100,000 روسی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔‘ یہ ممکن ہے کہ پوتن آخرکار مذاکرات کے ذریعہ حل تلاش کرنے کو تیار ہو جائیں لیکن مذاکرات کا امکان فی الحال معدوم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ یوکرینیوں کو زیادہ تباہی اور نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اپنے ملک کا ایک انچ بھی نہ چھوڑنے کا ان کا عزم مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ فوری طور پر پوتن کو اب بھی یقین ہے کہ وہ یوکرین کو گھٹنوں کے بل لا سکتے ہیں اور اس کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے ہیں، لیکن اس کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
[email protected]