امجد حسین حافظ کرناٹکی: ادبِ اطفال مفاہیم، مقاصد اور تناظر

0

امجد حسین حافظ کرناٹکی

ادب اطفال کی تعریف دو اور دو چار کی طرح نہیں کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ یہ ایسا سادہ عمل نہیں ہے، ویسے آسانی کے لیے کم سے کم الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ تقریر و تحریر اور تصویر وتصوّرکا وہ مرقع اور تفاعل جو سادہ دلکش اور سبق آموز ہو اور جسے بچے پسند کرتے ہوں ادب اطفال ہے۔
دوسرے لفظوں میں ادب اطفال حیرت زائی اور مسرت خیزی اور پاکیزہ خیالی و بلند کرداری کی تربیت کا وہ ذریعہ ہے جو ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک ہوتا ہے اور دلچسپی کے اعتبار سے آپ اپنی مثال ہوتا ہے۔ اس کے باوجودیہ فیصلہ کرنا اور حتمی حکم لگانا کہ کونسا ادب بچوں کا ادب ہے اور کونسا ادب بچوں کا ادب نہیں ہے، بہت مشکل ہے، اس سے بھی زیادہ مشکل کام بچوں کے ادب کی تخلیق کا تعین کرنا ہے، البتہ آسانی کے لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب سے بچوں کا وجود ہے تب سے بچوں کا ادب ہے۔



اس کی توضیح اس طرح کی جاسکتی ہے کہ والدین کو بچوں سے جو محبت ہوتی ہے وہ ازلی ہے۔ اس لئے جب بھی کسی کے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہوگا تو ماں نے اسے لوری ضرور سنائی ہوگی، بھلے سے اس کی زبان کچھ بھی رہی ہو۔ اس طرح دیکھا جائے تو بچوں کے ادب کے آغاز کو دنیا کے آغاز سے جوڑا جاسکتا ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب سے دنیا کا آغاز ہوا تب سے بچوں کے ادب کا بھی آغاز ہوگیا۔
جس طرح تہذیب و تمدن کے مظاہر او رتخلیقی اظہار کے پیرائے کا ڈھانچہ بعد میں تیار ہوا اور اسے مدوّن کرکے ایک علم یا ایک فلسفہ کی شکل بعد میںدی گئی بالکل اسی طرح ادب اطفال کوادب کی ایک باضابطہ شاخ کی شکل بہت بعد میں ملی۔
بشپ ایلڈہم کو بچوں کا پہلا ادیب مانا جاتا ہے۔ ویسے بچوں کے عالمی ادب کے تناظر میں سنسکرت کی مشہور کتاب پنچ تنتر کو خاص مقبولیت حاصل ہے یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ بچوں کے لئے لکھی جانے والی ساری کتابیں بچوں کے ادب کا حصہ نہیں ہیں، دراصل بچوں کے ادب میں وہی کتابیں جگہ پانے کی مستحق ہوتی ہیں، جنہیں بچے قبول کرلیتے ہیں، جن کتابوں کو بچے قبول نہ کریں انہیں دلچسپی سے نہ پڑھیں وہ بچوں کے ادب میں شامل نہیں کی جاسکتی ہیں۔ بھلے سے وہ کتابیں بچوں ہی کے لئے کیوں نہ لکھی گئی ہوں۔ یہی بات ان کتابوں کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے، جو لکھی تو گئی ہوں بڑوں کے لئے مگر انہیں بچوں نے قبول کرلیا ہو۔



خوشحال زیدی صاحب نے اپنی کتاب ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘ میں رابندرناتھ ٹیگور کا ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ: ’’ٹھیک سے دیکھنے پر بچّہ جیسا پرانا اور کوئی چیز نہیں ہے‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’ملک، زمانہ، تعلیم ، رسم و رواج، تہذیب و تمدن اور نفسیات کے اعتبار سے انسان میں بے پناہ تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن بچّہ ہزاروں سال پہلے جیسا تھا آج بھی ویسا ہی ہے، وہی لگاتار پرانے زمانے سے چلے آنے والے طور طریقے پر انسان کے گھر میں بچہ کی شکل لے کر پیدا ہوتا ہے،اگر چہ جب سے دنیا بنی ہے تب ہی سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، مگر پھر بھی بچہ یوم ازل سے جتنا خوبصورت، بھولابھالا اور پیارا تھا آج بھی ویسا ہی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ خدا کی دین ہے اور اس کی فطرت میں کوئی کھوٹ شامل نہیں ہے، جب کہ بڑا آدمی کئی اعتبار سے معاشرت اور انسان کے ہاتھ کی تخلیق بن جاتاہے۔ ‘‘
فطرت کی تخلیق کردہ تمام چیزوں میں سے شاید بچہ ہی وہ چیز ہے جو آج بھی اپنی فطرت پر قائم ہے، یہی وجہ ہے کہ بچوں میں جو فطری محبت اللّٰہ نے ودیعت کی تھی وہ بھی آج تک اسی طرح قائم ہے۔



چونکہ بچہ درحقیقت ماں کی تخلیق ہوتاہے اور وہی اس کی تخلیق کا کرب جھیلتی ہے، اس لئے ماں کو بچوں سے بے اندازہ محبت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ماں گونگی بہری بھی ہو تو اس کے منہ سے لوری کی گنگناہٹ ضرور نکلتی ہے، سو یہی بچوں کے ادب کی بنیاد ہے اور یہی بچوں کا حقیقی ادب ہے۔ ادب کا مقصد عموماً جو بیان کیا جاتاہے، وہ تفریح ہے، لیکن بچوں کا ادب محض تفریحی ادب نہیں ہے، اگر ہے بھی تو کم ازکم مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کے لئے کچھ بھی لکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک واضح مقصدہوتا ہے، ایسا اس لئے ہے کہ میرایہ ایمان ہے جو بھی علمی تخلیق مقصد سے خالی ہوگی وہ محض جگالی ہوگی۔
بہر حال بچوں کا ادب یکساں نہیں ہوتا ہے، ہر عمر کے بچے کی الگ الگ پسند ہوتی ہے، اس لئے بچوں کے ادب کو بھی دو تین واضح خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے، اگر ہم بچوں کے لئے چند کتابیں لکھ کر انہیں زبردستی بچوں پر تھوپ دیں تو یہ بچوں پر بڑا ظلم ہوگا اور ادب جس کا مقصدتفریح کے ساتھ ساتھ تعمیر بھی ہوتاہے، فوت ہوجائے گا اور بچے یہاں سے بھی راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، جس سے بڑا بھاری نقصان ہوگا، سو بچوں کو ان کی عمر اور سمجھ کے مطابق ان کی پسند کی چیزیں پڑھنے کو دینی چاہئیں تاکہ ان کا شوق جِلا پائے اور وہ ذہنی وفکری طور پر مالامال ہوسکیں، نیز فرحت و تازگی کے احساس کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ آدمی اور بچہ میں جتنا فرق ہے، اتنا ہی فرق ادب اور ادبِ اطفال میں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بچہ قدرت کی ایک نرالی اور خالص تخلیق ہے اور آدمی بننے تک وہ ماحول اور معاشرے کا ایک خاص حصہ ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ آدمی ماحول سے آلودہ ہوجاتا ہے، جبکہ بچہ صاف و شفاف ہوتاہے، اسی لیے ادب اطفال کو زندگی کی صفائی ، معصومیت اور حیرت زائی کا خوگر ہونا چاہیے۔ ادب اطفال کا مقصدی پہلو پوری طرح نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ادب گرچہ دائرہ زدگی سے ماورا ہوتاہے، مگر اس کا بھی ایک دائرہ ہوتاہے، بالکل اسی طرح ادب اطفال کو بھی غیرنامیاتی دائرۂ کار کا ضرور خیال رکھناچاہیے۔ یعنی ایسی چیزوں کی اشاعت سے گریز کرنا چاہیے جن سے بچوں کی حوصلہ شکنی ہو، ان کے افعال و کردار پربرا اثر پڑے، اخلاقی اقدار کے بگڑنے کا خوف پیدا ہو، یا جذبہ انسانیت پرضرب پڑے۔ یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ بچے کے ذہن پر ایک بار جو چیز نقش ہوجاتی ہے وہ زندگی بھر قائم رہتی ہے، اس لئے ادب اطفال کو ادب کی فیشن پرستی سے یقینا آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ نئی نسل کی روحانی، ذہنی، جسمانی اورتعلیمی نشو ونما میں مثبت کردار ادا کرسکے۔ انہیں اس طرح کی چیزیں پڑھنے کے لئے دی جانی چاہئیں جن سے ان کی قوت ارادی میں اضافہ ہو، نیز شرپر خیر کی جیت کا خاکہ ان کے ذہن میں پوری طرح واضح ہوجائے۔



ادب اطفال کو بچوں کی خواہش ، ان کی پسند، ان کی اختراعی صلاحیت اور ان کے تخیل کی پرواز کو مہمیز کرنے والا ہونا چاہیے۔ زبان و بیان کی سادگی و سلاست کے ساتھ ساتھ اظہار مطالب کی خوبیوں اور دلکشی پر بھی تھوڑی توجہ دینی چاہیے، نیز اس قسم کی کہانیاں، نظمیں، ڈرامے اور ناول وغیرہ لکھنا چاہیے جو بچوں کو اپنی ثقافت سے جڑے رہنے کے احساس کے ساتھ فعال بنائے۔
یاد رہنا چاہیے کہ دراصل بچے ہی کائنات کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں کل دنیا کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں ہوگی، اس لئے انہیں اس قسم کا ادب پڑھنے کو ملنا چاہیے جو ان کے حوصلوں کو بلند رکھے، ان میں جوش وامنگ پیدا کرے نیز خیر وشر کی خوبی و خرابی سے آگاہ کرے، تاکہ آئندہ زندگی کی تعمیر میں تخریب کاری کی نموکاری نہ ہوسکے، جہاں تک ممکن ہو زندگی کی مثبت قدروں کی بحالی ہی ادب اطفال کا مقصد ہو۔ یہاں مقصدی ادب کی بات نہیں کی جارہی ہے۔ ہاں ادبی مقاصد کی صالحیت پر اصرار ضرور کیا جارہا ہے کہ ہر ادب کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتاہے۔ بھلے سے وہ تفریح ہی کیوں نہ ہو، اس لئے یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ اگر ادب اطفال محض تفریح کے لئے ہی لکھا جائے تو بھی تفریحی صحت مندی کا خیال رکھا جائے، ایسی تفریح جو زندگی کو توانائی بخشے اور مسرت وبصیرت کو مہمیز کرے، ایسی تفریح نہیں جو وقت اور افراد کو ضائع کردے۔



چونکہ بچوں کا ذہن بڑا متجسس ہوتاہے اس لئے وہ تخیلی کہانی زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ بچوں کے لئے جو تخیلی یا خیالی کہانی لکھی جائے اس کا تعلق کسی نہ کسی سطح پر سماج و معاشرہ سے ضرور ہو، تاکہ روز مرّہ زندگی سے بچوں کا تعلق گہرا ہوسکے، یہ عمر دراصل بچوں کے فکری پرواز کی عمر ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بچے دادا، دادی، یا دوسرے رشتہ داروں سے کہانی سننے میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، بعض بچوں کا تجسس تو اس قدر بڑھا ہوا ہوتاہے کہ بغیر کہانی سنے انہیں نیند ہی نہیں آتی ہے۔ اس طرح بعض بچے کہانی کے کسی کردار سے یا واقعات کے کسی ڈرامائی منظر سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ اس کیفیت کو زندگی بھر یاد رکھتے ہیں اور لطف حاصل کرتے ہیں۔ بہرحال اس عمر میں بچوں کو چھوٹی بحر کی نظمیں، لوک گیت، داستانی کہانیاں اور تصاویری کہانیاں،جسے کارٹون کہانی، یا کومکس بھی کہاجاتاہے، سے بہت زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ تخیل کی پرواز اس عمر میں اتنی بلند ہوتی ہے کہ عموماً بچوں کو اپنی ماں اور اپنا باپ بھی فرضی کردار معلوم ہوتاہے، وہ اپنے والدین میں بھی اپنے تخیل کا رنگ بھرکر دیکھنے لگتے ہیں، یا پھر سنی ہوئی کہانی کے کسی کردار کو والدین پر منضبط کرکے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہوجاتاہے کہ سات آٹھ سال کے بچوں کے لئے اس طرح کی چیزیں لکھی جائیں جو ان کے تخیل کی پرواز کو پر عطا کرے ، مگر اس خوبی کے ساتھ کہ سماجی سروکار سے اس کا رشتہ منقطع نہ ہو۔



بچپن کا دوربڑا طوفانی دور ہوتاہے، ہمہ دم تبدیلی بچپن سے لے کر نوجوانی تک کا خاصہ ہے، چونکہ یہ عمر انسانی زندگی کی تعمیر کا بنیادی حصہ ہوتاہے، اس لئے اس دور میں آدمی کی پسند و ناپسند بھی تیزی سے بدلتی رہتی ہے۔ بچوں کے لئے چونکہ یہ دنیا بالکل انوکھی اور نئی ہوتی ہے نیز وہ خود کو کمزور اور بچہ بھی سمجھتا ہے اس لئے وہ بڑی تیزی سے طاقتور اور بڑا ہونے کی کوشش کرتاہے۔ ساتھ ہی وہ تمام چیزوں کو جاننے کا بھی متمنی ہوتاہے۔ اسی لئے وہ بڑی تیزی سے تبدیل ہوتا رہتاہے۔ ابھی آپ نے دیکھا کہ سات ،آٹھ سال کے بچے تخیلات کی دنیا میں مگن رہنا چاہتے ہیں، جب کہ یہی بچے جب نو سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کی پسند یکسر بدل جاتی ہے۔ یعنی اس عمر میں داخل ہوتے ہی بچے تخیل کی دنیا سے نکل کر فطرت کی وادی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اب انہیں تخیلاتی کہانیوں سے زیادہ فطرت کے حسین نظارے زیادہ دلکش نظر آنے لگتے ہیں، فطرت کی عطا کردہ چیزیں انہیں زیادہ پر کشش معلوم ہونے لگتی ہیں۔



اس لئے بچوں کے ادیبوں کو چاہیے کہ وہ ان بچوں کے لئے ایسی چیزیں تخلیق کریں جو حقیقت سے قریب ہوں۔عوامی اور سماجی زندگی کا رس لئے ہوئے قصے کہانیوں کو ذرا مبالغہ آمیز انداز میں بھی پیش کیا جائے تو غلط نہیں ہے، مگر عام زندگی اور کسی حدتک تاریخ سے ایسے واقعات کو لے کر بیان کرنا زیادہ سودمند ہوتاہے جو زندگی کی اچھی، سچی اور حقیقی قدروں کو پیش کرتی ہے۔ یادرہے کہ اس طرح کی چیزیں بھی بچے بہت دنوں تک پسند نہیں کرتے ہیں، کیونکہ تیرہ چودہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچوں کی پسند پھر تبدیل ہوجاتی ہے۔ آپ سوچتے ہوںگے کہ یہ بچے بھی کیا بَلا ہیں کہ بار بار ان کی پسند بدلتی رہتی ہے۔ جی ہاں! بچے دراصل فطرت کا اصول ہیں ہر پل تبدیلی زندگی کا اصول ہے، چونکہ بچوں کو بہت کچھ جاننا ہوتاہے اس لئے وہ عمر کے مختلف مدارج میں مختلف چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں، جب ان چیزوں کا علم ہوجاتاہے تو پھر دوسری چیزوں میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ یعنی بچے زندگی کے اصلی روپ ہیں، جو بتدریج آگے کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ چودہویں سال میں قدم رکھتے ہی بچے کو ایسا محسوس ہوتاہے گویا ان کی نظروں کے سامنے سے ایک پردہ سا سرک گیا ہے۔ اب وہ زندگی کو زیادہ اورروشن آنکھوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ وہ گھر خاندان، سماج اور معاشرہ کی اہمیت سے بھی بہت حدتک واقف ہوجاتے ہیں۔ ان کی ضرورتوں اور افادیت کو سمجھنے لگتے ہیں، ان میں پہلے سے زیادہ خوداعتمادی پیدا ہوجاتی ہے، وہ اچھے برے کی تمیز کے قابل ہوجاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ زندگی کا وہ پڑائو ہوتا ہے جہاں بچے سب سے زیادہ خوش، فعال اور متحرک ہوتے ہیں، یہ عمر زندگی کی معراج کی طرح اہمیت رکھتی ہے۔ چودہ سال سے اٹھارہ سال بلکہ بیس سال تک کی عمرمیں بچوں کو دنیا کا کوئی بھی کام مشکل نہیں لگتا ہے، وہ خود کو تمام کام اور صلاحیت سے متصف ہونے کے قابل سمجھتاہے۔



یہی وجہ ہے کہ عموماً تیرہ چودہ سال کی عمر کے بچوں کے لئے جو ادب مناسب سمجھا جاتاہے، اس میں جوش وولولہ کی حامل تحریر و تقریر کو سب سے زیادہ دخل ہوتاہے۔ یعنی ایسی کہانیاں جس میں جو ش ہو، امنگ ہو، منزل سر کرنے کا جذبہ ہو، ایسی نظمیں اور تقریریں جو جوشیلی ہوں، جو زندگی کی توانائی سے دہکتی معلوم ہوتی ہوں۔ اس طرح کی چیزیں اس عمر کے بچوں کو بہت پسند آتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکثر اس عمر کے بچوں کے نصاب میں تاریخ سے ، تاریخی واقعات اور اخلاقی اقدار کی حامل کہانیاں شامل نصاب کی جاتی ہیں، تاکہ بچوں کی اخلاقی نشوونما اس طرح ہوجائے کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن کا خوگر بن جائیں۔
لیکن ایک بات جو بار بار کہنی پڑتی ہے وہ یہ کہ بچوں کے لئے جو کچھ بھی لکھا جائے وہ کہانی کے انداز میں لکھا جائے۔ وہ تفریح طبع کے انداز میں لکھا جائے۔ یعنی مقصد بناکر نہیں لکھا جائے۔ بچوں کو یہ نہ محسوس ہو کہ انہیں نصیحت کی جارہی ہے۔ یا یہ کہ انہیں کچھ پڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ جیسے ہی انہیں یہ محسوس ہوگا کہ انہیں نصیحت پلائی جارہی ہے، وہ وہاں سے اٹھ بھاگیں گے۔ ہاں کھیل کھیل میں اسے کیسی بھی نصیحت کی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں۔ اس لئے ادب اطفال کے قلمکاروں کو چاہیے کہ وہ مقصد کو ادب کی چاشنی میں ڈبو کر پیش کریں۔


سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS