عبد الغفار صدیقی
گزشتہ دنوں لڑکیوں کی تعلیم کو لے کر خاص طور پر مخلوط نظام تعلیم پر کافی سوال کھڑے کیے گئے اور ضرورت بتائی گئی کہ لڑکیوں کے لیے عمدہ تعلیمی ادارے قائم کیے جانے چاہئیں۔ لیکن یہ کام کون کرے گا ؟کیا وہ لوگ جو ہماری بہنوں کے سر سے حجاب نوچ کر پھینک دینا چاہتے ہیں ،ہماری بچیوں کے لیے الگ اسکول اور کالج بنائیں گی ؟کچھ طاقتیں تو ان اداروں کو بھی بند کرنا چاہتی ہیں جو چل رہے ہیں ۔کسی زمانے میں جی جی آئی سی(گورنمنٹ گرلز انٹر کالج) قائم ہوا کرتے تھے ۔شاید وہ زمانہ آزادی سے پہلے کا تھا یا فورا بعد کا ۔اس کے بعداول تو سرکاری اسکول ہی کم تعداد میں قائم ہوئے ،اور اگر کہیں قائم بھی ہوئے تو وہ مخلوط تعلیم کے ہی تھے ۔البتہ مسلم امت نے اپنے طور پر یہ کام کیا تھا ۔لیکن اس کی حیثیت اونٹ کے منھ میں زیرے کی تھی ۔امت کے تعلیمی ادارے آپسی جھگڑوں کی نذر ہوکر اپنی افادیت کھوچکے ہیں ۔لیکن یہ بات کہ مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے مسلم لڑکیاں ارتداد کا شکار ہورہی ہیں ،کچھ ہضم نہیں ہورہی ہے ۔
ایک زمانہ تھا کہ مسلمان لڑکیوں کے بارے میں یہ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ وہ اپنا دین چھوڑ دیں گی ۔اگر اس سے کوئی غیر مسلم لڑکا عشق کرنے کی غلطی کر بیٹھتا تھا تو اسے اپنے مذہب سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا ۔اسی طرح غیر مسلم لڑکیاں اسلام قبول کرکے مسلم سماج کا حصہ بنتی تھیں ۔دین کو چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔تبدیلی مذہب کا عمل دنیا اور آخرت دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ارتداد کا بڑا سبب مسلم معاشرے میں دین کے ناقص تصور کا چلن ہے ۔خاص طور پر خواتین کے تعلق سے ہمارے یہاں بہت سی ایسی باتیںرائج ہیں جو دین کا حصہ نہیں ہیں۔ حصول تعلیم کو ہی لیجیے ۔اسلام نے اس معاملے میں کوئی جنسی تفریق نہیں کی ۔دور رسالت تک میں اس کا نظم کیا گیا تھا ۔لیکن ہم نے ان پر تعلیم کے دروازے بند رکھے ،بہشتی زیور پڑھادینے کو یہ سمجھا گیا جیسے کہ ہم نے تعلیمی میدا ن میں تیر مارلیا ہو۔مسجد میں عبادت کو لیجیے کوئی جنسی تفریق اسلام میں نہیں تھی ،خواتین اسی طرح مسجد میں نماز پڑھتی تھیں جس طرح مرد پڑھتے تھے ۔آج بھی عرب ممالک میں خواتین کے لیے مسجدوں میں نظم کیا گیا جاتاہے ۔قرآن نے صاف اعلان کیا تھا کہ ’’ جس نے بھی نیک عمل کیا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرط یہ کہ وہ مومن ہو تو ہم انھیں نیک کاموں کے عوض ان کا حق دیں گے ۔‘‘(النحل آیت 97)لیکن ہم نے انھیں مسجدوں میں آنے سے روک دیا۔ معاشیات کا باب اٹھا کر دیکھیں گے تو آپ دنگ رہ جائیں گے کہ دور رسالت اور اس کے بعد کے ادوار میں مسلم خواتین نے صنعت و حرفت اور تجارت میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا ۔
حضرت عائشہ ؓ وہ خاتون ہیں جنھوں نے اکیلے زندگی کے ہر میدان میں نمایاں رول ادا کیا ، انھوں نے علم حدیث میں خواتین میں سب سے زیادہ احادیث روایت کیں ،میراث کا علم سیکھا،مرد بھی ان سے میراث کا علم سیکھتے تھے،وہ علم طب کی بھی ماہر تھیں ،وہ شاعرہ بھی تھیں ۔حضرت زینب ؓ چمڑے کی دستکار تھیں،ام مبشر انصاریہؓ زراعت کی ماہر تھیں،ام عطیہؓ طبیب اور جراح تھیں یعنی آج کل کی زبان میں سرجن تھیں،حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ بڑی تاجرہ تھیں،حضرت خنساء ؓ کی شاعری مجاہدین کے حوصلوں کو بڑھاتی تھی،حضرت ام عمارہؓ ؓمیدان جنگ میں خواتین کی قیادت کرتی تھیں ،تمام جنگوں میں نرسنگ کاکام خواتین کے ذمہ ہوتا تھا وہی زخمیوں کو پانی پلانے کا کام کرتی تھیں ،وہ تیر انداز بھی تھی اور تلوار بھی چلاتی تھیں ،وہ خیمے بناتیں ،تیر بناتیں اور تلواریں تیز کرتی تھیں۔حضرت اسماء بنت مخزمہ ؓ عطر کا کاروبار کرتی تھیں،حضرت خولہ ؓ خود کماتیں اور اپنے شوہر پر خرچ کرتی تھیں ۔حضرت شفاء ؓعہد رسالت میں مدینہ مارکیٹ کی نگراں مقرر کی گئی تھیں۔
معاشرتی زندگی میں اسلام کی تعلیمات اٹھا کر دیکھ لیجیے، اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے نکاح سے پہلے اس کی مرضی معلوم کرنے کو صحت نکاح کے لیے شرط قرار دیا ،جس نے شوہر کے مظالم سے بچنے کے لیے خلع کا طریقہ بتایا ۔جس نے شوہر سے کہا کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کو کھلاتے ہو وہ اللہ کی نگاہ میں صدقہ یعنی نیکی ہے ۔جس نے باپ ۔شوہر اور اولاد کی جائیداد میں عورت کا حصہ مقرر کیا ۔لیکن آج ذرا مسلم معاشرے کا جائزہ لیجیے ۔عام مسلمانوں کی بات چھوڑیے ۔ہمارا دین دار طبقہ جن کو ہم علماء کہتے ہیں ،جو خود کو جانشین رسولؐ کہلاتے ہیں ،ان کے بیشتر گھروں میں بھی خواتین کو اسلام کے عطا کردہ حقوق حاصل نہیں ہیں ۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خواتین کے حقوق کے موضوع پر اظہار خیال اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں خواتین اپنے حقوق نہ مانگنے لگیں۔
کوئی شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کو اس کا دین باعزت زندگی گزارنے کے حق سے محروم رکھتا ہے تو وہ دین چھوڑنے کے بارے میں سوچتا ہے ۔یہی ملک ہے جہاں ستی کی رسم نے ہزاروں ہندو خواتین کو دین چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ہزاروں بیوائوں نے اس لیے اسلام قبول کیا کہ ان کے اپنے دین میں بیوائوں کی دوسری شادی کی اجازت نہ تھی۔کتنی ہی خواتین جہیز کی لعنت سے مجبور ہوکر اسلام کے دامن عافیت میں آگئیں۔لیکن افسوس آج وہی لعنت ہمارے یہاں در آئی اور ہزاروں لڑکیاں بن بیاہے جیون گزارنے پر مجبور ہیں۔اسلام کی جانب خواتین اس لیے جوق در جوق آئیں کہ انھیں یہ محسوس ہوا کہ اس دین میں ان کی عزت و آبرو محفوظ ہے اور ان کو معاشرے میں مساویانہ حقوق حاصل ہیں ۔دور اول کے اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تعداد کمزوروں کی تھی ،بادشاہ نجاشی نے جب مکہ کے وفد سے سوال کیا تھا کہ ’’ محمدؐ کا دین قبول کرنے والے کون لوگ ہیں ؟‘‘ تو وفد نے جواب دیا تھا کہ سماج کے کمزور اور غلام۔کسی سماج کے کمزور اور غلام کسی نئے دین کو اسی وقت قبول کرتے ہیں جب انھیں اس نئے دین میں عافیت محسوس ہوتی ہے ۔
آ ج ہم نے اسلام کی جو تشریح جو سماج کے سامنے پیش کی ہے اور جو تصویر مسلم معاشرہ پیش کررہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے وہ لڑکیاں جو دین کی تعلیم سے نا آشنا ہیں اور جنھیں اسلامی ماحول میسر نہیں ہے ،(میسر تو تب ہوگا جب کہیں اسلامی ماحول ہو)انھیں جب کسی ہندو لڑکے میں دل چسپی پیدا ہوتی ہے اور ان کواپنا روشن مستقبل اس کے ساتھ زندگی گزارنے میںنظر آتا ہے تو وہ ان کے ساتھ ہولیتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ وہ ضرور کوئی نیا دین قبول کرتی ہیں بلکہ بیشتر معاملات میں تو ان دونوں کا کوئی دین ہی نہیں ہوتا اور کہیں ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔لیکن اتنا ہونا بھی امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے ۔وہ دین جو ساری انسانیت کی فلاح کا دعویٰ کرتا ہے ،جس دین میں کمزوروں ،پسماندوں کے حقوق محفوظ ہوں ،جو خالص انسانیت کا دین ہو جہاں کسی پڑوسی کے بھوکا سوجانے پر بھی ایمان و اسلام خطرے میں پڑجاتا ہو،جو سراسر سلامتی کا دین ہو۔ آخر اس دین کو چھوڑ نے کا رجحان کیوں پیدا ہورہا ہے اور وہ بھی صنف نازک میں ۔کیا ہم صرف یہ کہہ کر اطمینان کی سانس لے لیں کہ اس کا سبب مخلوط نظام تعلیم ہے ۔ جب آپ لڑکوں کے ہزاروں تعلیمی ادارے بنا سکتے ہیں تو لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بنانے اور ان کو چلانے میں کیا پریشانی ہے ۔
آج کے دور میں جہاں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے خلوت گاہوں تک میں رسائی حاصل کرلی ہو آپ مخلوط سوسائٹی سے کس طرح کنارہ کرسکتے ہیں ۔میری معلومات کی حد تک صرف تعلیم یافتہ مسلم لڑکیاں ہی اسلام نہیں چھوڑ رہی ہیں ،بلکہ بعض کم تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی ہندو لڑکوں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں ۔اس کی ایک وجہ مسلم لڑکوں کا بے روز گار ہونا بھی ہے ۔ایک وجہ مسلمانوں کامحکوم ہونا ہے اور محکوم قوموں میں ارتداد کی بیماری ہمیشہ پھیلتی ہے۔ لیکن ارتداد کی اصل وجہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مسلم سماج میں دین کے ناقص تصور کا چلن ہے اس لیے عوام و خواص سے یہ بھی گزارش ہے کہ ایک بار اللہ کی کتاب کو اس زبان میں پڑھ کر دیکھ لیجیے جو آپ جانتے ہیں ،آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ نے آپ کی بیٹیوں اور بہنوں کو جوکچھ دیا ہے اگر وہ آپ انھیں دے دیں تو وہ کسی حال میں بھی اسلام کو چھوڑنا پسند نہیں کریں گی ۔
عبد الغفار صدیقی: خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں اسلام مانع نہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS