انجینئر خالد رشید (علیگ): 2024 میں کس کروٹ بیٹھے گا اونٹ

0

انجینئر خالد رشید (علیگ)

2019 کے الیکشن کے نتائج نے بی جے پی سمیت سبھی کو چونکا دیا تھا خود بی جے پی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ این ڈی اے کو 353 نشستیں مل جائیں گی لیکن کمزور حزب اختلاف اور بی جے پی کی کامیاب حکمت عملی کے نتیجہ میں اس کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی کچھ سیاسی مفکرین کے خیال میں اس شاندار کار کردگی میں پلوامہ اور بالاکوٹ نے اہم رول ادا کیا تھا لیکن جیت تو جیت ہوتی ہے اور یوں بھی سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے وہ بھی اس وقت جب کمان مودی اور امت شاہ کے ہاتھ میں ہو حالانکہ ابھی عام انتخابات میں ایک سال سے کچھ زیادہ وقت باقی ہے جو سیاست میں طویل مدت ہوا کرتی ہے پھر بھی سیاسی تجزیہ نگاروں نے یہ پیش گوئیاں شروع کر دی ہیں کہ 2024 کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جا رہا ہے ۔
جو لوگ ملک کی سیاست پہ گہری نظر رکھتے ہیں ان کے خیال میں بی جے پی کا کوئی سیاسی متبادل 2024 میں بھی نظر نہیں آتا لیکن اس بات سے بھی بہت سے لوگ اتفاق کرتے ہیں کہ 2024 کئی اعتبار سے2019 سے کچھ مختلف ضرور ہوگا زیر نظر مضمون اسی متوقع تبدیلی کا تخمینہ لگانے کی کوشش ہے جو 2024 میں رونما ہو سکتی ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ اور 2019 کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کو چار علاقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے علاقہ میں وہ ریاستیں جن میں بی جے پی کی موجودگی نا کے برابر تھی ان میں تمل ناڈو، کیرالہ، آندھرا، تلنگانہ کو شامل کیا جاسکتا ان ریاستوں میں کل نشستوں کی تعداد 101 ہے اور گزشتہ انتخاب میں یہاں بی جے پی نے 4 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی تھی۔ 2024 میں صورت حال میں کسی خاص تبدیلی کی توقع کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ دوسرا مجموعہ ان ریاستوں کا بنایا جا سکتا ہے جہاں بی جے پی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس گروپ میں بہار، مہاراشٹر اور پنجاب کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی نشستوں کی کل تعداد بھی 101 بنتی ہے جس میں سے بی جے پی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 84 نشستیں حاصل کی تھیں۔ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کے تینوں اتحادی JDU,شیو سینا اور اکالی دل اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ بہار اور مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف ساری اپوزیشن پارٹیاں مل کر اسے کڑا چیلنج دینے جا رہی ہیں۔ ایسی صورت میں یہاں بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ 10 نشستیں مل سکتی ہیں۔ یعنی این ڈی اے کو ان ریاستوں میں 74 نشستوں کانقصان اٹھانا پڑ سکتاہے۔ تیسرے گروپ میں ان ریاستوں کو رکھا جا سکتا ہے جہاں بی جے پی اپنے دم پر مضبوط حالت میں ہے۔ ان میں یوپی 80، راجستھان 25، مدھیہ پردیش 29، گجرات 26، کرناٹک 28 ، چھتیس گڑھ 11، جھار کھنڈ 14، اترا کھنڈ 5، دلی 7، ہریانہ 10 اور ہماچل 4 یعنی کل ملا کر 239نشستیں ہیں جن میں سے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو 204 نشستیں حاصل ہوئی تھیں ان علاقو ں میں کرناٹک، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کے ساتھ ساتھ ہماچل میں اور ہریانہ میں بھی بی جے پی کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یوپی میں اگر سماجوادی پارٹی، کانگریس اور آر ایل ڈی کا اتحاد وجود میں آتا ہے تو یہاں بھی بی جے پی کو 5-10سیٹوں کا مزید نقصان ہو سکتا ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کی حالت نازک ہے ریڈی برادرز نے اپنی الگ پارٹی بنا لی ہے، لنگایٹ ناراض ہیں، حکومت پہ کرپشن کے الزامات ہیں یہاں بھی بی جے پی کو 10سے 15سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی شیو راج کی سرکار کے خلاف اینٹی انکمبینسی موجود ہے۔دوسرے کانگریس کی اکثریت والی حکومت کو سندھیاکی مدد سے جس طرح گرا کر بی جے پی کی سرکار بنائی گئی اس سے بھی عوام خاصے ناراض ہیں۔ اوما بھارتی کے تیور ہریانہ سے بھی بری خبریں بی جے پی کو پریشان کر رہی ہیں۔ ہماچل میں منڈی کے ضمنی انتخابات کے بعد اسمبلی انتخابات میں بی جے پی ہار کا منہ دیکھ چکی ہے کل ملا کر ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو اپنے اس مضبوط علاقہ میں بھی 35 نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ چوتھا گروپ ان ریاستوں کا ہے جہاں بی جے پی روایتی طور سے کمزور ہوا کرتی تھی لیکن مودی لہر کے سبب 2019 میں اس کی کارکردگی غیر معمولی طور پر بہتر ہوئی اس میں بنگال 42، آسام 13 ، اور اڈیشہ 21، کشمیر 6، کو شامل کیا جا سکتا ہے۔یعنی یہاں کل نشستیں 82 ہیں یہاں بی جے پی کو 36 سیٹیں ملی تھیں اس بار آسام میں شاید کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ بی جے پی ہو سکتاہے ایک دو سیٹ بڑھا لے لیکن اڈیشہ اور مغربی بنگال میں حالات مختلف ہیں۔ بنگال میں بی جے پی کو 18 نشستیں ملیں تھیں اس بار وہاں ممتا کافی طاقتور نظر آتی ہیں اور اگر اسمبلی انتخابات کو پیمانہ بنایا جائے تو اس بار یہاں بی جے پی کو مشکل سے 5نشستیں مل سکتی ہیں۔ دوسری طرف اڈیشہ میں بھی پثن ایک 2019 کے مقابلہ زیادہ طاقتور نظر آرہے ہیں۔ اندازہ یہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقہ میں بھی بی جے پی کو تقریباً 15نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ باقی وہ ریاستیں باقی بچیں چھوٹی ریاستوں کے جہاں سیٹوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہاں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ اس طرح این ڈی اے کو پورے ملک میں2019 کے مقابلہ 125 سے 135 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑسکتا۔ یعنی 353 کے مقابلہ اس بار این ڈی اے کو 225 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں الجبرے کی طرح دو اور دو چار نہیں ہوتے بلکہ کیمسٹری کی طرح ہر کیمیکل کا اپنا الگ ری ایکشن ہوتا ہے۔ اس ایک سال میں کون سا ا یشو صورت حال پہ کتنا اثر انداز ہوگا کوئی نہیں کہہ سکتا۔ امت شاہ کا حالیہ بیان اور موہن بھاگوت کا یہ کہنا کہ ہندو ایک ہزار سال کی غلامی سے جاگ چکا ہے اس بات کا اشارہ ہے کہ الیکشن کن ایشوز پر لڑا جائے گا۔ رام مندر، کاشی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی عید گاہ یکساں سول کوڈ، آبادی قانون، مدرسوں میں مداخلت جیسی کئی بلیاں تھیلے سے نکلنے کو بیتاب ہیں جو رنگ ماسٹر کے اشارے پر کسی بھی وقت باہر آکر بے روزگاری، مہنگائی، ملک کی بگڑتی اقتصادی صورت حال، فرقہ واریت سے بڑھتے خطرات اور ہر روز بکتی سرکاری کمپنیوں جیسے اصل ایشوزکو نگل جانے کی طاقت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ راہل کی بھارت جوڑو یاترا کا کتنا اثر 2024 کے نتائج پہ مرتب ہوتا ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS