صبیح احمد
بہار میں ریاستی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔ 14 کروڑ کی آبادی والے بہار میں ذات پات، ذیلی ذات، مذہب اور فرقہ کے لوگوں کے ساتھ ان کی معاشی حیثیت کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس مردم شماری سے یہ پتہ لگانے میں مدد ملے گی کہ کس طبقے کا کتنا حصہ ہے اور اسے کتنا مل رہا ہے، اب تک کون سا طبقہ محروم رہا ہے۔ اس میں ذاتوں کی ذیلی ذاتیں بھی معلوم ہوںگی اور ان کی سماجی و اقتصادی حیثیت بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کی مردم شماری کا مطالبہ نیا نہیں ہے، بلکہ برسوں سے یہ مطالبہ کیا جایا رہا ہے لیکن سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر اور اپنی اپنی سہولت کے حساب سے اسے ٹالتی رہی ہیں۔ بہرحال ذات پر مبنی مردم شماری ایک ایسا مسئلہ ہے جسے ملک کے لیڈران وقتاً فوقتاً اٹھاتے رہتے ہیں۔ ملک میں کئی ایسے لیڈر ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس طرح کی مردم شماری کی بات زیادہ تر اپوزیشن کی طرف سے کی جاتی ہے لیکن جب وہی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو وہ اس معاملے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے۔ دراصل حکمراں جماعت کو لگتا ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے سماج میں ذات پات کی گروپ بندی بڑھے گی اور معاشرہ بھی تقسیم ہو جائے گا۔ ذات پات کی تقسیم کا براہ راست فائدہ علاقائی جماعتوں کو مل جائے گا۔ سماجوادی پارٹی (ایس پی)، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) سمیت تمام علاقائی پارٹیاں اس کی حمایت میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت او بی سی کی تعداد بتائے اور پھر ریزرویشن کی 50 فیصد حد بڑھائی جائے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان پارٹیوں کا ووٹ بینک صرف ’او بی سی‘ ہے۔ اس طرح کی مردم شماری کے بارے میں سیاسی رہنماؤں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے ذات پات کی پسماندگی کا پتہ چلے گا اور اعداد و شمار کی بنیاد پر پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن کا فائدہ دے کر انہیں مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی مردم شماری کے ذریعہ کسی بھی ذات کی معاشی، سماجی اور تعلیمی حیثیت معلوم کی جائے گی۔ اس سے منصوبے بنانے میں آسانی ہوگی۔
دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری نہ ہو۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی مردم شماری سے ملک کو کسی نہ کسی طرح کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی طبقہ کو پتہ چل جائے کہ ملک میں ان کی تعداد کم ہو رہی ہے تو اس طبقہ کے لوگ اپنی تعداد بڑھانے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی سے کنارہ کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اس سے ملک کے سماجی تانے بانے کے بگڑنے کا بھی خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ 1951 میں اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھی یہی کہہ کر ذات پر مبنی مردم شماری کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ وہیں اگر کسی ذات کی تعداد بڑھے گی تو وہ حکومت میں اپنا بڑھتا ہوا حصہ مانگے گی۔ قبائلیوں اور دلتوں کو ہر مردم شماری میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن اگر ذات پر مبنی مردم شماری ہوتی ہے تو او بی سی اور جنرل زمرہ میں بھی شمار کیا جائے گا اور اگر ان کی آبادی بڑھتی ہے تو ایس سی/ ایس ٹی یا او بی سی ریزرویشن پر ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوسکتا ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری کے پس پردہ سیاسی کھیل کچھ اور ہی ہے۔اصل معاملہ ووٹ بینک کا ہے۔ 2010 میں جب مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی تو بی جے پی لیڈر گوپی ناتھ منڈے نے پارلیمنٹ میں پرزور طریقے سے ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب حکومت میں آنے کے بعد بی جے پی حکومت ذات پر مبنی مردم شماری سے پیچھے ہٹتی نظر آرہی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس حکومت نے بھی شرد پوار، لالو یادو اور ملائم سنگھ یادو کے دباؤ میں 2011 میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائی تھی لیکن اس کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے تھے۔ اس طرح کی مردم شماری کے حوالے سے دونوں قومی پارٹیاں بی جے پی اور کانگریس کا موقف کم و بیش ایک ہی ہے۔ اس کے پیچھے کچھ سیاسی وجہ بھی ہے۔ دراصل بی جے پی کی سیاست کا پورا دارومدار ہندوتو کے ایشو پر ہے۔ بی جے پی کے ہندوتو کا مطلب پورا ہندو سماج ہے۔ دوسری طرف بہت سی ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں ذات پات کی سیاست کرتی ہیں۔ ایسے میں اگر ذات پر مبنی مردم شماری کی وجہ سے ہندو سماج ذاتوں میں بٹ جاتا ہے تو اس کا فائدہ علاقائی پارٹیوں کو ہوگا اور سب سے بڑا نقصان بی جے پی کوہوگا۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں ملک کی بڑی پارٹیاں ہیں اور تقریباً پورے ملک میں ان کا غلبہ ہے۔ ان کے ووٹر کسی خاص ذات سے تعلق نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس ملک میں ایسی کئی جماعتیں ہیں جو صرف ایک مخصوص ذات کی سیاست کرتی ہیں۔ ایسے میں ذات پات کی مردم شماری سے ملک میں ذات پات کی سیاست زور پکڑ سکتی ہے۔ اس کا فائدہ علاقائی پارٹیوں کو ہوگا لیکن بی جے پی اور کانگریس دونوں کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکز میں جو بھی پارٹی برسراقتدار ہوتی ہے، وہ اس طرح کی مردم شماری کے سخت خلاف ہوتی ہے۔
ہندوستان میں ذات پر مبنی آخری مردم شماری 1931 میں برطانوی دور حکومت میں ہوئی تھی۔ اسی طرح 1941 میں بھی مردم شماری ہوئی تھی لیکن اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تھے۔ اگلی مردم شماری 1951 میں ہوئی جب ملک آزاد ہو چکا تھا۔ تب صرف درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو شمار کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد سے صرف 1951 کی مردم شماری کے پیمانے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں مردم شماری ہر 10 سال بعد کی جاتی ہے۔ اس سے ہمیں ملک کی آبادی کے بارے میں درست معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ جب سے جسٹس جی روہنی کے زیر قیادت کمیشن نے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے ریزرویشن کی ذیلی زمرہ بندی کی سفارش کرتے ہوئے ایک مسودہ تجویز پیش کی ہے، عام مردم شماری کے ساتھ ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں۔او بی سی ریزرویشن ہمیشہ سے ایک اہم سیاسی مسئلہ رہا ہے اور ان میں سے ’حقیقی‘ محروموں کو کوٹہ کے فوائد دینے کے مطالبات نے بنیادی طور پر توجہ حاصل کی ہے کیونکہ انہیں ایک نئے ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے بغیر ذیلی زمرہ بندی کا خیال ایک بے معنی مشق ہو گا کیونکہ اس طرح کی مردم شماری کے بغیر حکومت کو محرومیوں کی صحیح سطح کو سمجھنے میں مدد نہیں مل سکتی۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اس طرح کی مردم شماری نہیں کی گئی تو تاریخی ناانصافی کو ختم نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ او بی سی میں محروم افراد کو چھوڑا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ ریزرویشن 1931 کی ذات پر مبنی مردم شماری پر ہے جب ہندوستان کی آبادی 270 ملین تھی۔ 1931 کی مردم شماری میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے۔ اب ہندوستان کی آبادی کئی گنا بڑھ کر ڈیڑھ بلین ہو گئی ہے۔
ایک ا ور اہم بات یہ بھی ہے کہ1931 کی مردم شماری ان طریقوں کی نشاندہی کے لیے کی گئی تھی جن کے ذریعہ نوآبادیاتی طاقت کے کنٹرول کو مضبوط بنایا جا سکے۔ ان اعداد و شمار کا استعمال 1980 کی دہائی میں لیڈروں کے ذریعہ ایک الگ ووٹ بینک بنانے کے لیے کیا گیا تھا جو جے پرکاش نارائن کی بدعنوانی مخالف تحریک سے ابھرے تھے اور جنتا دل کی تشکیل کا باعث بنے تھے۔ کچھ ایسا ہی اب او بی سی کوٹہ کی ذیلی زمرہ بندی کے ذریعہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی پارٹیاں جانتی ہیں کہ نئی ذات پر مبنی مردم شماری انہیں او بی سی میں سماجی اور معاشی طور پر محروم طبقات کا ایک نیا ووٹ بینک بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ نتیش کمار بہار میں اپنی پارٹی جنتا دل (متحدہ) کے لیے ایسا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اتر پردیش میں بی جے پی اعلیٰ ذاتوں اور سماجی طور پر محروم او بی سی کو ایک ساتھ لانے میں کامیاب رہی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی کچھ علاقے اب بی جے پی کے گڑھ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
[email protected]