مغربی ایشیا: روس کی قیادت میں ترکی اور شام کا اتحاد

0

2001میں مغربی ایشیا میں جمہوری نظام کے قیام کو لے کر جو نام نہاد تحریکیں شروع کی گئی تھیں ان تحریکوں نے نہ صرف یہ کہ پرتشدد رخ اختیار کرلیا بلکہ پورا خطہ خانہ جنگی ، برادر کشی اور عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔ ان ملکوں میں شمالی افریقہ کے کئی ممالک جو کہ نام نہاد مطلق العنان حکمرانوں کے تسلط میں تھے مگر خوشحال تھے۔ ان ملکوں میں سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ خوشحالی بھی تھی ا ن میں سب سے اہم نام لیبیا ، تیونس اور مصر ہیں جبکہ مغربی ایشیا کے ان ممالک میں ایک اہم نام شام کا ہے۔ جہاں پر آج تک نہ تو سیاسی استحکام قائم ہوسکا ہے اور نہ ہی سماجی ، اقتصادی استحکام قائم ہوسکا ہے۔ شام کی حالت یہ ہے کہ یہ ملک امریکہ ، روس، ترکی اور آس پاس کے کئی ممالک کی افواج کا اڈہ بن گیا ہے۔ کردستان کے نام پر امریکہ نے ایک چھوٹا سا جغرافیائی زون بنا کر علاقے کے کردوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ان کے ساتھ ہے مگر مغربی ایشیا میں آج حالات اس قدر خراب ہے کہ وہاں پر کتنے ممالک کی فوجی اور بھاڑے کے ٹٹو اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ ایران میں داخلی بدامنی کے بعد قرب وجوار میں رہنے والے کرد ٹھکانے پر حملے کیے ہیں جس پر امریکہ ناراض ہے۔ بہر کیف اس صورت حال نے ایک اور نئی کڑی یہ جڑ گئی کہ روس ، شام اور ترکی کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کرکے علاقے میں امریکی مداخلت ختم کرنے کا چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بابت روس کے دفاعی ماہرین نے بھی شرکت کی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات مثبت انداز میں ہوئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ روس کی نگرانی میں شام میں ترکی ، شام اور روس کے فوجی حکام ماہرین اور انٹلی جنس کے افسران قیام امن کے لیے کوشش کریں گے۔ اس اعلیٰ اختیاراتی میٹنگ میں ترکی کے وزیر دفاع ہلسی آکر ترکی کے نیشنل انٹلیجنس آرگنائزیشن کے سربراہ ہاکان فدان اور شام کے وزیر دفاع علی محمود عباس شام کے ہی انٹلیجنس کے چیف علی مملوک اور روس کے وزیر دفاع سرگئی شوگو شامل تھے۔ ترکی کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یہ میٹنگ اس لیے اہم ہے کہ کیونکہ ترکی اپنے ملک میں کرد دہشت گردوں اور علیحدگی کی بڑھتے سرگرمیوں سے پریشان ہیں اور پچھلے دنوں ترکی نے کئی دہشت گردانہ وارداتیں ہوئیں جن میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ ترکی کو ڈر ہے کہ مغربی ممالک بطور خاص امریکہ وغیرہ ترکی میں بداطمینانی اور عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ترکی اس سے قبل بھی امریکہ پر الزام لگا چکا ہے کہ وہ عبداللہ گولن کو پناہ دیے ہوئے ہیں جو اپنے وسیع نیٹ ورک کے ذریعہ جمہوری طور پر منتخب سرکار کی تختہ پلٹنے کا کوشش کررہا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ کالعدم قرا ر دی گئی کردستان ورکر پارٹی یا پی کے کے شام میں سرگرم پیپلز پروٹیکشن یونٹ وعیرہ اس کے ملک میں بدامنی پیدا کررہے ہیں۔ حالانکہ ان دونو ں گروپوں میں ترکی میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ ترکی کی سرکار اور شام کے موجودہ حکمرانوں کا یہ تال میل ظاہر ہے کہ خطے میں ایک نئی فوجی محاذ آرائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ روس جو کہ یوکرین میں برسرپیکار ہے اور ناٹو ممالک ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مغربی ایشیا کے اس حساس ملک میں روس ، ترکی اور شام کے حکومتو ںکا تال میل کے ساتھ آنا فکرمندی کا سبب ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخاب 2023کے وسط میں ہونے ہیں اور ترکی کا اقتصادی بحران نہ صرف یہ کہ ناٹو کے اس ممبر ملک کے لیے پریشانی کا سبب ہے بلکہ طیب اردگان کے انتظامیہ اور ان کے پارٹی کے لیے پریشانی کاسبب بن سکتا ہے۔ طیب اردگان شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ تال میل بیٹھا کر علاقے میں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ ان کے خود کے ملک میں شام سے ترکی میں پناہ لینے والے پناہ گزینوں کے مسائل طیب اردگان کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ترکی چاہتا ہے کہ اس کی سرزمین پر ہی کوئی ایسا انتظام ہوجائے جہاں پر یہ پناہ گزیں امن کے ساتھ رہ رجائے۔ اور اس کا بوجھ نہ پڑے۔ ترکی چاہتا ہے کہ شام میں ہی ایک ایسا نو فلائی زون بن جائے تاکہ شام سے منتقل ہو کر پناہ گزیں کردوں نہ جائیں۔ یہ صورت حال امریکہ کے لیے تشویش کی سبب ہوسکتی ہے۔ امریکہ ، ترکی کو آگاہ کرچکا ہے کہ ترکی کے خلاف فوجی کارروائی مناسب نہیں ہے اور کئی ناٹو ممالک علاقے میں ترکی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر فکر مند ہیں۔

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS