ڈاکٹرریحان اخترقاسمی
یـہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ہندوستان مختلف ادیان ومذاہب اور تہذیب و ثقافت کی آماجگاہے۔ سرزمینِ ہندنے سینکڑوں رشیوں، منیوں، مبلغین ، واعظین اور مذہبی شخصیات کوجنم دیا۔ انہوں نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ ہندوستان کی روحانیت اور ہندوستان کی مذہبی حیثیت کو پورے عالم میں متعارف کرایاہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہر مذہب کا طریقہ اور اس کے رسم ورواج، مذہبی اقدار اور تعلیمات ایک دوسرے سے جداہیں۔ اس وجہ سے جو جس مذہب سے وابستہ ہوتاہے وہ اپنے عقائدونظریات اور اپنے مذہب ودین کے مطابق زندگی گزارنے میں فخر محسوس کرتاہے۔ کوئی فرددوسرے دین کی رسوم یااس کے افکار وخیالات کو اپنی نجات کاذریعہ نہیں مانتاہے۔ البتہ مذاہب وادیان کاباہمی احترام وتقدس ہر طبقہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ ساتھ ہی اس بات کابھی خیال رہے کہ مذہب کے متعلق معاشرے میں منفی فکر پروان نہ چڑھنے پائے ۔ جب رواداری کی قدریں سماج میں بحال ہوں گی تو یقینا معاشرہ میں امن وامان، بھائی چارگی اور گنگاجمنی تہذیب کا فروغ ہوگا۔ کیونکہ آج ہندوستانی معاشرہ کو متحدکرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہندوستان جیسے عظیم ملک کی خوبصورتی کاراز بھی اسی میں مضمر ے۔ لہذا ہر شخص کواپنی فکر کے اعتبار سے آزاد رہنے کاحق حاصل ہوچاہے وہ کسی بھی مذہب کی تعلیمات وآرا سے اپنے معاشرہ اور زندگی کوخوشگوار بنائے۔
رواداری کے فروغ نے گنگا،جمناتہذیب کاامتزاج، اخوت وبھائی چارگی، بقائے باہم ادیان کے تحفظ صیانت کی تابناک روایت نے ہندوستانی سماج کوایک قالب میں ڈھالنے کی سعی کی ہے یہاں یہ عرض کرنامناسب ہے کہ ہندوستان کی آغوش میں سامی ادیان Religion Semetic (اسلام ،عیسائیت، یہودیت) اور Non Semetic Religion (جین،بدھ،سکھ، ہندو) خوب برگِ و بارلائے۔ ان ادیان میں ہندوستان جیسے عظیم الشان ملک میں ہندوازم اور اسلام کے ماننے والوں کی تعداددیگر مذاہب کے ماننے والوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ لہذا ان دونوں مذاہب کی مشترکہ اقدار کامطالعہ اور ان سے سماج کوآشنا کراناعہدحاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔
دورِ حاضرمیں تقابل ادیان اور اس کی اہمیت وافادیت سے قطعی انکار نہیں کیاجاسکتاہے۔
اسلام اور ہنددوازم کاتعارف
اسلام کاتعارف :اسلام عربی زبان کا لفظ ہے۔ سلم اور سلِم دونوں سے ماخوذ ہے ۔ اس کے معنی بالترتیب امن اور خودکواللہ کے سامنے سپردکردیناہے۔ یہاں یہ بھی بتاناضروری ہے کہ اسلام کوئی نیا مذہب ودھرم نہیں ہے بلکہ یہ تصور غلط ہے کیونکہ اس مذہب کے آخری پیغمبرمحمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔شرعی طور پر اسلام میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ درج ذیل احکام پر ایمان لائے۔
توحید، رسالت، کتب، ملائکہ، آخرت،قضا و قدر۔
قرآن میں اللہ تعالی کا ارشادہے :(ترجمہ)نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کومشرق یا مغرب کی جانب پھیرو بلکہ نیکی اللہ پر ایمان لانا، قیامت کے دن پر ایمان لانا، فرشتوں، کتب اور انبیا پر ایمان لاناہے۔
اس کے علاوہ حدیث میں واردہواہے۔(ترجمہ)ایک شخص محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااور کہااے اللہ کے رسولؓ ایمان کیاہے؟ رسولؓ نے جواب دیاکہ تم ایمان لا اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور یہ کہ تم ایمان لا روزِ حشر پر یعنی آخرت پر اور تم ایمان لا اچھی اور بری تقدیر پر۔
ہندواِزم کا تعارف : متحققین بتاتے ہیں کہ ہندوازم کی جامع تعریف پیش کرنے میں خود ہندوعلما میں اختلاف ہے، کوئی کہتاہے کہ :ہندومذہب وہی ہے جوایک ہندوکرتاہے۔
کسی کا کہنایہ ہے کہ :وہ ان رسوم ،عبادات،عقائد،روایات اور صمنیات کامجموعہ ہے جن کو برہمنوں کی تعلیمات نے پھیلایاہے۔
حتی کہ ایک مشترق اسکالر نے یہ بھی کہاہے :آپ یہ سمجھ لیں کہ ہندوازم کابانی ایک بہت بڑاگروہ ہے جس کی شخصیات تاریکی میں چھپی ہوئی ہیں۔ ان تمام چیزوں کے بارے میں باوجودہندواِزم کے متعلق یہ کہنا قرینِ قیاس معلوم ہوتاہے کہ وادی سندھ کی دوتہذیبیں (موہنجوداڑ اور ہڑپا) کی کھدائی میں جوآثاروشواہد دستیاب ہوئے ہیں ۔ ان کی روشنی میں بلاشبہ جس قوم قبل از آریہ قوم کے وجودکاسراغ ملتاہے وہ دراوڑی قوم ہے ۔ جس نے بعض سیاسی، معاشرتی اور تمدنی احوالِ و کوائف کااسیر بنتے ہوئے اپنے وطن کوخیرآبادکہااور شمال کے خطہ سندھ میں بودوباش اختیارکی۔ نیز اپنی جانفشانیوں،قربانیوں اور زندہ قوم کی دیگر خصوصیات سے مزین ہوکر ہندوستان کے دیگر اطراف کواپنامسکن بنایا۔
ہندواِزم کے عقائدکے تعلق سے خود ہندوعلما نے کوئی یقینی بات نہیں کی ہے ۔ چنانچہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہروکے الفاظ اس طرح ہیں :
“Hinduism as a faith is vague, amprphous , manysied all things to all mean, it is hardly to defineit, or indeed to say definitely whether it is religion or not, in the usal sense of the word, in its present from, and even in the past, it embraces many beliefs and practices, from the highest to the rowest often opposed to or contradicting each other.”
مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ ہندواِزم ایک مجہول جولان گاہے ۔ مگر ایک تہذیب اور رسم و رواج کاعلمبردار ہے اور ہندودھرم ایک قدیم ترین دھرم ہے۔
مختصر تعارف کے بعدضروری ہے کہ دونوں مذاہب کی مشترکہ باتوں اور تعلیمان واقددار پر روشنی ڈال دی جائے۔ الغرض دونوں مذاہب بہت حدتک اختلاف پر مبنی ہیں مگر اکثر وبیشتر مقامات یکسانیت ومماثلت سے بھی خالی نہیں ہیں۔ اس بنا پر دونوں مذاہب کامطالعہ اس نقطہ نگاہ سے اہمیت وافادیت کاحامل ہے۔
مذہبی اقدار میںمماثلت
عقائد میں مماثلت…… توحید :مذہبی معاملات میں سب سے مقدم شئی عقائدہیں۔ عقائدمیں توحید، یعنی اللہ رب العزت کوایک جاننااور دِل سے تسلیم کرنااسلام میں سب سے زیادہ واضح جامع اور بہتر انداز میں توحیدکی تعریف قرآن کی سورہ اخلاص میں پیش کی گئی ہے :(ترجمہ)آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اکیلاہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیداہوانہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے۔
ہندوازم کی معتبر ترین کتاب بھگوت گیتامیںتوحیدِ باری تعالی کاتصوراس طرح پیش کیاگیاہے۔ناتاسپاپراتمااستی : اس جیساکوئی نہیں۔
اس کے علاوہ اور دیگر ہندومقدس کتب وصحائف میں خدا کی وحدانیت کاتذکرہ موجودہے۔
رسالت :عقیدہ توحیدکی طرح عقیدہ رسالت کے سلسلہ میں بھی دونوں مذاہب (اسلام ہندوازم) میں ممکنہ حدتک یکسانیت کی تعلیمات ملتی ہیں چنانچہ قرآن میں مذکور ہے :(ترجمہ)ہر امت کے لئے ایک رسول ہے۔ جب ان کارسول آچکتاہے ، ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کیاجاتاہے اور ان پر ظلم نہیں کیاجاتاہے۔
اس کے علاوہ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا :(ترجمہ)اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈرانے والانہ گزراہو۔
ان کے علاوہ اور بھی متعددمقامات پر اسلام میں تصور ِ رسالت کوواضح انداز میں پیش کیاگیاہے، نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے توحید کے ساتھ ساتھ رسول کی رسالت پر ایمان ویقین رکھناجزولاینفک ہے۔
اسلام کے اسی اساسی عقیدے سے ملتاجلتانظریہ ہندوازم میں بھی موجودہے ۔ ہندوازم کی تعلیمات کے مطابق اوتار کاعقیدہ پایاجاتاہے جورسالت کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے۔ البتہ ہندوازم کی مقدس ترین کتب میں اوتار کاتذکرہ نہیں پایاجاتاہے۔ رسول کاتذکرہ پایاجاتاہے:
اے بارنا! جب جب نیکی کا زوال ہوگااور بدی عام ہوگی میں اپنے آپ کوظاہرکروں گا، بھائی کے تحفظ کے لئے، شیطانوں کی تباہی کے لئے اور نیکی قائم کرنے کے لئے میں ہر زمانہ میں پیداہوتارہوں گا۔
یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہندوازم میں بھی رسالت کاتصور موجودہے۔ مگر عام ہندوں کایہ عقیدہ ہے کہ خدادین ومذہب کی حفاظت کرنے، قوانین وغیرہ کے نفاذ کے لئے خود زمین پر کسی جسمانی شکل میں نازل ہوتاہے۔
آخرت :اسلامی عقیدے کے مطابق ہر شخص کوموت کے بعد زندہ ہوکر اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے اعمال کاحساب دیناہے جس کے نتیجے میں وہ جہنم یا جنت سے ہمکنار ہوگا اسی زندگی کانام اخروی زندگی ہے اور اس زندگی پر ایمان لانے کانام ایمان بالآخرت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشتاہے،پھر وہی تمہیں موت دیتاہے،پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن جمع کر ے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
ہندودھرم کامشہورعقیدہ تناسخ اور پنرجنم ہے جو عقیدہ آخرت کے بالکل مخالف ہے۔ لیکن رگ ویدمیں بعض ایسے نصوص موجودہیں جو قدیم ویدک ادب میں عقیدہ آخرت پر قدیم ہندوں کے اعتقاد پر دلالت کرتے ہیں۔
رگ ویدمیں ہے :سورج کے حصول کی سعی کروتاکہ آگ کی قدروقیمت پہچان سکو۔ یقینا ہمارے رسول بھرت بکو، رشو دونوں زندگی پر یقین رکھتے تھے۔
عبادت میں مماثلت :عبادت کے متعلق بھی اسلام میں بیشتر مقامات پر احکام نازل ہوئے ہیں۔ اسلام میں دوطرح کی عبادتیں پائی جاتی ہیں۔جسمانی عبادت، مالی عبادت۔
عربی لغت میں عبادت کاماددہع،ب،د ہے جو نہایت خضوع کے ساتھ عبادت کوکہتے ہیں۔ اور التعبدبندگی جبکہ عبادت اطاعت کوکہتے ہیں۔اسلام میں ہر اس عمل کوعبادت کادرجہ دیاجاتاہے جوصرف اللہ تعالی کی رضاکے لئے کیاجائے۔ اس کے ساتھ کسی کوبھی اس درجہ میں شریک نہ کیاجائے۔اسلام میں عبادت کابنیادی مقصدرضائے رب ہے، اگر عبادت کے ذریعہ سے خدا راضی نہ ہوتووہ عبادت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ہندوازم کے مقدس ماخذ میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ ہندوازم میں عبادت کامترادف لفظ اپاسنا استعمال ہوتاہے۔ ہندومذہب میں اپاسنا ہر اس قول وفعل کانام ہے جس سے برہمایابھگوان کی قربت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے اندر وسیع معنی پائے جاتے ہیں۔
ویدوں میں عبادت کاتصور اس طرح بیان کیاگیاہے:اے پرمیشور! تو علیم کل، صفات سے موصوف، منور پرجلال ہے، مجھے بھی تیج یعنی علم ومعرفت اور جاہ وجلال عطاکر، اے پرمیشور توہی غیر متناہی قوت والاہے۔ اپنی عبادت سے مجھے بھی جسم و ددماغ کی قوتیں دلیری،چستی اور ہمت واستقلال عطاکر۔
اسی طرح دوسری جگہ بیان کیاگیا :اے فطرت کے دیوتا! جب میں گناہ کامرتکب ہوتاہوں تومیں تیری پناہ تلاش کرتاہوں، تمہارے قوانین نہ ہلنے والے پہاڑ کی مانندہیں تونے اپنے قوانین کوچھپاکر نہیںرکھا،میں نے تمہارے انہیں قوانین پر زندگی استوار کی ہے۔
مختصر یہ کہ ویدک تعلیمات کے مطابق اپاسنا، معبودکے سامنے عجزوانکساری کا اظہار اور مددونصرت کاذریعہ ہے، یہی مقصداسلام میں عبادت کاہے۔
سماجی تعلیمات میں مماثلت :سماج ہر انسان کی ضرورت ہے۔ بغیر اس کے انسانی زندگی کاتصور محال ہے۔ انسان سماج میںرہتے ہوئے اچھے یا برے کام کرتاہے جبکہ مذاہب کی تعلیمات کے مطابق سماج صالح صحتمندہو، ذات پات، رنگ ونسل کاکوئی فرق نہیں پایاجاتاہو۔ اسلام اور ہندوازم نے بھی پاکیزہ معاشرہ کے لئے کچھ اصول وضوابط متعین کئے ہیں۔ ذیل کی سطروںمیں اس کی چند نظیریں پیش ہیں۔
اسی طرح شراب کی ممانعت کے سلسلے میں اسلام اور ہندوازم دونوں میں یکساں طور پر ممانعت کے شواہد موجودہیں۔
ہندوازم کی مقدس کتاب منوسمرتی میں مذکورہے :کسی دینی پیشواکومارنے والا، شراب پینے والا، چوری کرنے والا اور اپنے پیرومرشدکی بیوی سے ہم بستری کرنے والایہ سب کے سب اور ان میں سے ہر ایک کوپاپ کامرتکب خیال کیاجانا چاہیئے۔
اس کے علاوہ ہندوازم کی دیگر کتب میں بھی شراب وجواکی ممانعت کے سلسلے میں کثیر شواہد موجودہیں۔
سماج میں توازن اور انصاف برقرار رکھنے کے لئے وراثت کاقانون بھی اہم کردار اداکرتاہے۔ اس کا تصور بھی اسلام اور ہنددوازم میں یکساں موجودہے۔
خلاصہ :اگر ہم ہندوازم کے ماخذ کامطالعہ کریںتوسینکڑوں مسائل ایسے ہیں جواسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں اور ان سے اس بات کی طرف بخوبی اشارہ ملتاہے کہ ان تعلیمات کے ذریعہ دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں اتحادواتفاق کی روایت کوفروغ دیاجاسکتاہے تبھی جاکر ہمارے معاشرہ میں امن وشانتی کی اقدار کی بحالی ممکن ہے۔