محمد حنیف خان
ہندوستان ’’امرت کال‘‘میں داخل ہوچکا ہے،جس کا ذکر وزیراعظم نریندرمودی بار بار کرتے ہیں،اسی امرت کال کے احساس کے لیے حکومت ہند نے آزادی کے موقع پرایک منصوبہ ’’آزادی کا امرت مہوتسو‘‘شروع کیا،جس کے تحت مجاہدین آزادی کو نہ صرف یاد کیا گیا بلکہ اس دوران ہر عمل کو امرت مہوتسو سے جوڑ دیا گیا تاکہ عوام کو امرت کال کا شدت سے احساس دلایا جاسکے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے15اگست کو لال قلعہ سے تقریر کرتے ہوئے لفظ ’’امرت کال‘‘ 14مرتبہ استعمال کیااور اس کے بعد سے وہ مستقل اس لفظ کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے کہا کہ ہم امرت کال میں جی رہے ہیں۔
لفظ’’امرت‘‘ کے کان سے ٹکراتے ہی سب سے پہلے ذہن میں ایک ایسا مشروب آتا ہے جسے پی کر انسان کو حیات جاودانی مل جائے۔امرت کہاں ہوتا ہے ؟اسے کس نے پیا جو معاشرے میں ’’امرت‘‘ کے تعلق سے ایسی خوشمانیاں عام ہوگئیں۔دراصل ’’امرت ‘‘کے پیچھے ہندو اساطیر یعنی میتھا لوجی ہے، یہ خالص مذہبی اصطلاح ہے، جس کی تفہیم کے لیے ہندو اساطیر کا علم ضروری ہے جس کے مطابق ہندو دیوتاؤں نے چھیر ساگر میں سمندر منتھن کیا تھا جس کے بعد امرت نکلا اور دیوتاؤں نے اسے پی لیا جس سے ان کو حیات جاودانی مل گئی۔اہم بات یہ کہ اس متھ کو سائنسی سطح پر ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق آرکیالوجی نے گجرات کے سورت میں واقع گاؤں پنجرات کے پاس سمندر میں مندراچل پہاڑ ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اس کے سلسلے کی دوسری کڑی بھاگلپور میں ملنے کا بھی دعویٰ کیا ہے،اس دعویٰ کے مطابق امرت کے لیے سمندر مندر میں اسی پہاڑ کا ہندو دیوتاؤں نے استعمال کیا تھا۔
درحقیقت ہندوستان کا امرت کال دو حصوں میں تقسیم ہے،ایک میں وہ افراد ہیں جو حکومت سے وابستہ ہیں،جو گزشتہ سات برسوں سے نہ صرف اقتدار سے لطف اندوز ہورہے ہیں بلکہ انہوں نے ہر وہ کام کر لیا جس کے بارے میں وہ کبھی صرف سوچا کرتے تھے اور وہ اس احساس سے بھی سرشار ہوگئے کہ وہ جب جو چاہیں کرلیں گے،جیسا فیصلہ چاہیں عوام کے سر تھوپ دیں گے اور خصوصاً ملک کی اقلیتوں سے متعلق ان کے فیصلوں اور ان کے نفاذ سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا،لیکن مسئلہ صرف اقلیتوں کا نہیں، ان غریبوں اور بے سہاروں کا بھی ہے جو اس امرت کال میں سردی کی ٹھٹھرتی ہوئی سخت راتوں میں بھی کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔ان خواتین اور بچوں کا بھی ہے جو زندگی کے بوجھ کو ڈھونے اور روح کو جسم میں قید رکھنے کے لیے دو وقت کی روٹی کوڑے دان کو کرید کرید کر حاصل کرتے ہیں۔حکمراں طبقے کے لیے واقعی یہ امرت کال ہے،ان کی زندگی کا یہ سب سے خوبصورت دور ہے،کوئی بھی چیز ان کی دسترس سے باہر نہیں ہے،جب وہ جو سوچتے ہیں اور جیسا سوچتے ہیں، حاصل کرلیتے ہیں۔اپوزیشن کے مطابق ان کے اس امرت کے حصول میں ’’دام،سام اور دنڈ ‘‘ہر ایک کا استعمال ہو رہا ہے۔یہ افراد تو عملی سطح پر امرت کال کو برت رہے ہیں،اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور اس کا نہ صرف آنند لے رہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کا احساس کرا رہے ہیں کہ وہ بھی ان ہی کی طرح محسوس کریں جس کے لیے میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے اور میڈیا کسی بھی طرح کا سوال اٹھانے کے بجائے ان کے امرت کال کے احساس کو عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے جتن کررہا ہے کیونکہ اس سے وابستہ افراد خود بھی اسی امرت کا احساس عملی سطح پر کر رہے ہیں اور ان کے تجربے انہیں یہ باور کرا رہے ہیں کہ وہ کاروباری دور کے امرت کال سے گزر رہے ہیں،اس لیے وہ بھی اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔دوسرے افراد وہ ہیں جو امرت کال کو حسی سطح پر محسوس کرتے ہیں،یہ اہل اقتدار کی فکر کے حامل لوگ ہیں،لیکن ان کو عملی سطح پر امرت کال کا کوئی تجربہ نہیں اور نہ کبھی ان کو اس کا تجربہ کرنے دیا جائے گا،بلکہ ان کو ساحل کے کنارے بٹھاکر صرف نظارہ کرایا جائے گا۔ امرت پی کر سرشار ہونے والوں نے ان افراد کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی ہے کہ ان کے لیے یہ امرت کال ہے کیونکہ تاریخ میں پہلی بار ان کے لیے کسی نے کچھ کیا ہے جس سے ان میں نسلی اور مذہبی تفوق کا احساس پیدا ہو اور وہ اسی احساس سے سرشاربھی ہیں۔
دوسرا حصہ ان افراد پر مشتمل ہے جس کے لیے لفظ ’’امرت اور امرت کال‘‘تازیانہ ہے،جب کوئی ان کے سامنے اس کا ذکر کرتا ہے توان کو غصہ آجاتا ہے،کچھ گالیاں بکنے لگتے ہیں اور کچھ اپنی کسمپرسی بیان کرنے لگتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ امرت کال ان کے لیے ابھیشاپ بن کر آیا ہے کیونکہ امرت کال کو گھسیٹ کر لانے والوں کے فیصلوں نے ان کی زندگی تباہ کردی ہے،کاروبار ختم ہوگیا ہے اور دسرے کاروبار کے مواقع نہیں،نوٹ بندی اور کووڈ19نے ان کی ملازمتیں چھین لیں اور اب کہیں کوئی کرن روشن ہوتی نظر نہیںآتی،مہنگائی نے ان کی زندگی کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ’’ پی ایچ ڈی اور ایم اے ٹی اسٹال‘‘ کے بورڈ آویزاں کرکے چائے خانے کھولے جارہے ہیں۔ ان کے لیے زندگی خوشی کا منبع ہونے کے بجائے،غموں اور تکلیفوں کا مصدر لگتی ہے،ان کو ایسا محسوس ہوتاہے کہ زندگی کا بوجھ اب زیادہ وہ برداشت نہیں کر سکیں گے۔
وزیراعظم کے اس امرت کال میں مختلف وجوہ کی بنا پر گزشتہ دو برسوں میں خود کشی میں 18فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جن میں نوجوان، طالب علم اور بزرگ و خواتین سب شامل ہیں۔پارلیمنٹ میں وزیر مملکت برائے محنت رامیشور تیلی نے خودکشی کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کسانوں کی ایسی اموات پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کچھ ایسا کرے جس سے کسان ایساقدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوں۔نوجوان خود کشی اس لیے کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کے سامنے روزگار کے مواقع نہیں ہیں،جو تعلیم یافتہ ہیں ان کو ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں،جرائم کا عالم یہ ہے کہ لڑکیاں اور عورتیں کہیںبھی محفوظ نہیں ہیں، مجرم بے خوف ان کا قتل کررہے ہیں، عدالتوں پر مقدمات کا اتنا بوجھ ہے کہ وہ ان کا تصفیہ نہیں کرپاتی ہیںاور جن کا کرتی ہیں ان میں انصاف کا تناسب کم ہوتا ہے کیونکہ جن کے پاس پیسہ ہے، وہ اپنے حق میں فیصلے کرا لے رہے ہیں اور غریبوں کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ایسے میں یہ امرت کا ل ان کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں ہے۔اس امرت کال سے عوام حواس باختہ ہیں۔
ہندوستان کے اس امرت کال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کو جی20-کی سربراہی یکم دسمبر 2022کو ملی،جی 20-میں شامل ممالک کے نمائندے جب سہ روزہ پروگرام کے لیے ممبئی آئے تو یہاں کی جھگی اور جھوپڑیوں کو ڈھک دیا گیا۔ایک رپورٹ کے مطابق ماہم، ورلی اور باندرہ سے لے کر بوریولی تک کی ایسی سبھی آبادیوں کوچادروں سے ڈھک دیا گیا ہے تاکہ دوسرے ممالک کے نمائندوں کی نظر اس پر نہ پڑے اور ہندوستان کی یہ شکل ان کے سامنے نہ آئے۔ حکومت و انتظامیہ نے ایسا پہلی بار نہیں کیا ہے، اس سے قبل 2020میں گجرات میں بھی اس وقت ایسا کیا گیا تھا جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کے دورے پر آئے تھے۔ٹرمپ کی آمد سے قبل ہی احمد آباد ایئر پورٹ سے لے کر سابرمتی آشرم تک راستے میں واقع جھوپڑیوں کو چھپانے کے لیے ایک دیوارکھڑی کر دی گئی تھی۔
ہندوستان کا یہ امرت کال دو سمتوں میں تین طرح کے احساس کے ساتھ سفر کررہا ہے،اس دوسمتی اور سہ احساسی سفر کو یک سمتی اور یک احساسی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، ہر ہاتھ کو کام اورہر فرد کو اس کے حقوق ملیں،جمہوریت کو آمریت کی ہر شکل اور آلائش سے بچایاجائے اور کسی بھی طرح کے تفوق کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے لیکن اس کے لیے عوام کے ساتھ ہی حکومت کو عملی اقدام کرنے ہوں گے،جس کیلئے اس کو گروہی اور جماعتی تعصب سے خود کو پاک کرکے عوام کی بھلائی پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی ورنہ اسے خود ساختہ امرت کال کے علاوہ کچھ نہیں کہاجائے گا۔
[email protected]