پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
نریندر مودی سرکار یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنے کی کوشش کررہی ہے جسٹس ارون کمار مشرا نے قومی انسانی حقوق کمیشن( این ایچ آرسی) کے سامنے یونیفارم سول کوڈ کی زوردار وکالت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی بھی مذہب کے رسم و رواج کو متاثر نہیں کرے گا ۔ جب کہ خواتین کے یکساں حقوق کو یقینی بنائے گا، انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یوسی سی کو لاگو کرنے کے لیے مثبت قدم اٹھانا سرکار کا فرض ہے۔ اس سے پہلے دہلی کی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتبھا ایم سنگھ دوسالوں سے یونیفارم سول کوڈ کرنے کی ہدایات دے چکی ہیں۔ جسٹس ارون سنگھ مشرا کے مطابق یونیفارم سول کوڈ کو لاگو کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ اس کو لاگو کرنے کے لیے آئین نے ہدایت دی ہے۔ ایسے میں اس کو پوری طرح سے نظر انداز نہیںکیا جاسکتا ہے۔ عورتوں کو تعصب اور تفریق سے بچانے کے لیے قوانین کے درمیان تال میل بنایا جانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی طرح کی مذہبی رسومات کے نام پر عورتوں کے ساتھ تفریق ہورہی ہے جس کوختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ مردوں کی بالا دستی والے سماج کو ختم کیا جائے گا۔ انہوں نے یونیفارم سول کوڈ پر نکتہ چینی کرنے والوں پر نشان سادھتے ہوئے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کرنے والوں کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ جب بھی کوئی اچھی چیز آتی ہے اس کی مخالفت ہوتی ہے۔ جسٹس مشرا نے کہا کہ آئین میں یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنے کی ہدایت ہمیشہ سے ہی ہے مگر سرکار کو اس کے نفاذ کا صرف وقت طے کرنا تھا۔ موجودہ وقت میں عورتیں اپنے حقوق کے لیے لڑرہی ہیں۔ ان کو عزت دینی ہے۔ یکساں سول کوڈ عورتوں کو وقار دے گا۔ کیونکہ ان کو طویل عرصہ سے اپنے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ انہیں برابری کا حق ملنا چاہیے۔ یکساں سول کوڈ خواتین کو عزت دے گا کیونکہ انہیں ایک طویل عرصے سے برابری سے محروم رکھا گیا ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کروڑی لال مینا نے 09 نومبر 2022 کو راجیہ سبھا میں یکساں سول کوڈ پر پرائیویٹ ممبر کا بل پیش کیا۔ جس پر کانگریس، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور ڈی ایم کے۔ اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں نے احتجاج کیا ہے۔ اگر یہ قانون لاگو ہوتا ہے تو اس کا اطلاق تمام شہریوں پر یکساں طور پر ہوگا۔ کسی مذہب، ذات، جنس کو اس سے رعایت نہیں ملے گی۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت ایک مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے یہ قانون لا رہی ہے۔ یکساں سول کوڈ خبروں میں ہے اور جسٹس پرتبھا ایم سنگھ کی طرف سے حکومت کو اس پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کے بعد اس پر بحث ہو رہی ہے۔ نریندر مودی حکومت یکساں سول کوڈ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے ایک اہم حکم دیا تھا، جس کی وجہ سے ملک کی سیاست پھر سے گرم ہو گئی۔ ہندوستان میں فی الحال جائیداد، شادی، طلاق اور وراثت جیسے معاملات پر ہندوؤں، عیسائیوں، پارسیوں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ قوانین ہیں۔ اس کی وجہ سے اس طرح کے معاملات سے نمٹنے میں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو لے کر ملک میں کافی عرصے سے بحث چل رہی ہے۔ خاص طور پر بی جے پی اس مسئلہ کو بھرپور طریقے سے اٹھا رہی ہے لیکن کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں اس کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔ تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے کر بی جے پی نے مسلم خواتین کو اپنا ووٹ بینک بنا لیا۔ اس کے سماجی اور مذہبی اثرات ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے پہلے اور دوسرے دور میں جن سنگھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی تک ناقابل یقین توسیع ہوئی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد دو بنیادی مقاصد کوحاصل کرلیا ہے۔ پہلا رام مندر کی تعمیر اور دوسرا کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ، وہاں صدر راج نافذ کرنا، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی تقرری، کشمیری رہنماؤں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے اور حل تلاش کرنے کی کوشش۔ یہ راستہ بہت پیچیدہ ہے۔ یہ رام مندرکی تعمیر پر سپریم کورٹ کا 2:2 کا فیصلہ تھا۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے رام مندر کے حق میں ووٹ دیا۔ جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس اروند بوبڈے نے حکومت کی طرف سے بابری مسجد کی زمین کو نوٹیفائی کیا اور وہاں رام مندر بنانے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس جسٹس دھننجے وائی۔ چندر چوڑ اور جسٹس ایس عبدالنظیر نے اس فیصل کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس وجہ سے اس فیصلے میں جسٹس رنجن گوگوئی کا فیصلہ کن رول تھا۔ گوگوئی کے سیاسی کردار پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعدانہیں فوری طور پر راجیہ سبھا کا رکن نامزد کر دیا گیا۔ پھر مسئلہ کشمیر کا حل بہت حساس مسئلہ ہے۔ ’ایک قانون سازی ایک علامت‘ کے ذریعے اٹل بہاری واجپئی کے کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت کے اصولوں کو درحقیقت میں نافذ کرنامشکل ہے۔ اب کشمیر کو بھی یونین ٹیریٹری قرار دے دیا گیا ہے۔ جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذکی ضرورت کو لاگو کرنے کا صحیح وقت آگیا ہے۔
عدالت نے سماعت کے دوران کہا کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی آئین کی دفعہ 44 میں توقع کی جا رہی ہے، اب اسے حقیقت میں بدلنا چاہیے۔ جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے کہا، “ہندوستانی معاشرے میں مذہب، ذات پات، شادی وغیرہ کی روایتی بندشیں ٹوٹ رہی ہیں۔ نوجوانوں کو مختلف پرسنل لاز سے پیدا ہونے والے تنازعات کی وجہ سے شادی اور طلاق کے معاملات میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایسی صورت حال میں قانون پر عمل درآمد کا صحیح وقت ہے۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے۔ جسٹس پرتبھا ایم سنگھ کی بنچ راجستھان کی مینا قبیلے کی خاتون اور اس کے ہندو شوہر کی طرف سے دائر طلاق کی درخواست کی سماعت کر رہی تھیں۔ مختلف پرسنل لاز میں تضادات کی وجہ سے شہریوں کو تنازعات سے بچانے کے لیے عدالت نے ہدایت دی کہ اس ہدایت کی اطلاع مرکزی حکومت کی وزارت قانون و انصاف کو دی جائے تاکہ وہ ضروری کارروائی کر سکیں۔ موجودہ کیس میں بھی مختلف قوانین کا تضاد سامنے آنے پر ہائی کورٹ نے یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کے لیے اس ضرورت کا حکم دیا ہے۔ نوجوانوں کی شادی 24 جون 2012 کو ہوئی تھی۔ شوہر نے 2 دسمبر 2015 کو فیملی کورٹ میں طلاق کی درخواست دائر کی۔ خاتون کا شوہر ہندو میرج ایکٹ کے مطابق طلاق چاہتا تھا۔ لیکن بیوی کا کہنا ہے کہ وہ مینا برادری سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس پر ہندو میرج ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔ بعد میں فیملی کورٹ نے ہندو میرج ایکٹ 1955 کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست کو خارج کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ خاتون کا تعلق راجستھان کے شٹ ولڈ ٹرائب سے ہے، اس لیے ان پر ہندو میرج ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔ خاتون کے شوہر نے فیملی کورٹ کے فیصلے کو 28 نومبر 2020 کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ شوہر کی عرضی کو قبول کرتے ہوئے ذیلی عدالت کے فیصلے کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسے قانون کی ضرورت ہے، جو سب کے لیے یکساں ہو۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس کے سامنے ایسی کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئی جس سے یہ ظاہر ہو کہ مینا قبائلی برادری کے اس طرح کے مقدمات کے لیے کوئی خصوصی عدالت موجود ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟ آئین کے آرٹیکل 36 سے 51 کے ذریعے ریاستوں کو کئی مسائل پر تجاویز دی گئی ہیں۔ جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے اس قانون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، آئین کا دفعہ 44 ریاست سے اپنے شہریوں کو یکساں سول کوڈ کے تحت تحفظ فراہم کرنے کی توقع رکھتا ہے۔ دفعہ 44 ریاست کو ہدایت دیتا ہے کہ مناسب وقت پر تمام مذاہب کے لیے یکساں سول کوڈ وضع کرے۔ دراصل ملک میں یکساں سول کوڈ کا معاملہ پہلی بار 1985 میں شاہ بانو کیس سے منظر عام پر آیا تھا۔ سپریم کورٹ نے طلاق کے بعد شاہ بانو کے سابق شوہر کو کفالت الاؤنس دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ لاگو ہونا چاہیے۔
محکمہ انٹیلی جنس نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس حکم سے مسلم کمیونٹی میں غصہ ہے۔ پھر راجیو گاندھی کی حکومت نے پارلیمنٹ میں بل پاس کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا۔ اس کے بعد کیرالہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان نے لوک سبھا سے استعفیٰ دے دیا۔ 1985 میں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے، ہائی کورٹ نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ تین دہائیوں کے بعد بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے نے گوا کے یکساں سول کوڈ کی تعریف کی تھی۔ بطور سی جے آئی گوا میں ہائی کورٹ کی عمارت کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ گوا میں پہلے سے ہی ایک یکساں سول کوڈ موجود ہے جس کے بارے میں آئین سازوں نے سوچا تھا۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہو گا کہ مختلف ذاتیں، مذاہب، برادریاں ‘ایک ملک، ایک قانون’ کو کیسے قبول کریں گی۔ اب تک ہندوستان میں رنگا رنگی میں اتحاد ہے، لیکن سیاسی طور پر یہ کتنا کارآمد ہوگا، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ توقع ہے کہ یکساں سول کوڈ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں سماجی انصاف فراہم کر سکے گا۔
(مضمون نگارسینئر صحافی، سیاسی مبصر، دوردرشن نیوز ایڈیٹر، انسانی حقوق کے تحفظ کے وکیل ہیں)