اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام ہنوز برقرار

0

اسرائیل میں عام انتخابات ہوئے تقریباًڈیڑھ ماہ کا وقت گزر چکا ہے مگر بظاہر سخت گیر جماعتوں کی فتح کے باوجود آج تک وہاں حکومت نہیں بن پائی ہے۔نتن یاہو کی قیادت والی لیکڈ پارٹی نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے اگر چہ سبقت بنالی ہے مگر حکومت سازی کے لیے دیگر ہمنواں سخت گیر پارٹیوں کی حمایت درکارہے۔ اگر چہ سخت نظریات کی حامل سیاسی پارٹیاں نتن یاہو کی قیادت میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں مگر ایسا نہیں لگتا کہ وہ قلم دانوں کی تقسیم پر آسانی سے سمجھوتہ کرلیں گی۔ 120سیٹوں والے ایوان میں حکومت سازی کے لیے کم سے کم 64ممبران پارلیمنٹ کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ گزشتہ روز متوقع وزیر اعظم نتن یاہو نے اکثریتی محاذ کے لیڈر کے طور پر صدر اسحاق ہرگوذ کو مکتوب لکھ کر حکومت بنانے کے لیے مزید 14دن کی مہلت مانگی ہے۔ اس مکتوب کو نتن یاہو نے میڈیا میںجاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نئی حکومت میں کس فریق کا کیا رول ہوگا اس پر جلد فیصلہ کرکے حکومت سازی کی عمل کو پورا کردیں گے مگر اس مکتوب پر صدر اسحاق ہرگوذ نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس دوران معتدل سمجھے جانے والی اسرائیلی سیاسی پارٹیوں نے نتن یاہو پر الزام لگایا ہے کہ وہ سرکار بنانے میں جان بوجھ کر تاخیر کررہے ہیں تاکہ پارلیمنٹ میں ان کو متنازع قانون بنانے کے لیے مہلت مل جائے۔ اس قانون کے تحت ایک اور سخت گیر جماعت ساز پارٹی ShasPartyکے لیڈر ایری ڈیری کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ حکومت میں شامل ہوجائیں۔ سینٹرسٹ پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ایری ڈیری کا پس منظر مجرمانہ ہے اور نتن یاہو چاہتے ہیں کہ اس مجرمانہ پس منظر کے باوجود وہ کابینہ میں شامل ہوجائیں۔ خیال رہے کہ لیکڈ پارٹی نے ایک اور سخت گیر نظریات کی حامل پارٹی ساز پارٹی کو اپنے ساتھ حکومت بنانے کے لیے راضی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پارٹی کے پاس اتنی سیٹیں ہیں کہ وہ اگر نتن یاہو کے اتحاد میں شامل ہوجاتی ہے تو نتن یاہو کی قیادت والی حکومت کومکمل اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ نتن یاہو اسرائیل کے سب سے طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے والے وزیر اعظم ہیں۔ ان کو دفاعی امور میں ملکہ حاصل ہے اور سخت گیر عناصر میں فلسطین کش پالیسیوں کی وجہ سے کافی مقبول ہیں اگر چہ ان کے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات ہیں مگر تمام تر مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجودوہ اپنی افادیت اوراہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کئی سیاسی پارٹیاں ان کے قیادت پر بھروسہ کرتی ہیں اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود ان کو اپنا لیڈر تصور کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی وسط مدتی انتخابات کے بعد اس مرتبہ ان کی پارٹی ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آئی ہے اور ان کو دیگر سخت گیر عناصر سے حمایت ملنے میں زیادہ مشکل نہیں ہورہی ہے مگر یہ سب غیر عناصر اقتدار میں زیادہ حصہ چاہتے ہیں اور ان کی کوشش یہ ہے کہ تمام وہ وزارتیں ان کو مل جائیں جن کو حاصل کرکے وہ فلسطینیوں کے خلاف حساس ایسوز پر شہرت اور اختیار ات حاصل کرلیں۔کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ڈیری ان کے چہیتے ہیں اور وہ ان کو وزارت خزانہ ، صحت اور داخلہ کی ذمہ داریاں دینے کے لیے تیار ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سخت گیر پارٹیوں نے جس سمجھوتے پر اتفاق کیا ہے اس کی رو سے اقتدار کی مدت کو ابتدائی اور آخری دو مرحلوں میں تقسیم کرکے وزارتوں اور ذمہ داریوںکی تقسیم کی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں ڈیری وزارت داخلہ اور وزارت صحت کی ذمہ داری سنبھالیں گے جب کہ دوسری مدت میں وہ وزیر خزانہ بنائیں جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سمجھوتے کی رو سے ڈیری نائب وزیر اعظم ہوسکتے ہیں۔ ڈیری پر کرپشن کے الزامات اور ٹیکسوں میں دھوکہ دہی کے لیے قصور وار قراردیا تھا مگر انہوں نے سزا کو بھگتا نہیں ہے۔ڈیری کے نام کو لے کر نہ صرف اندرون ملک بلکہ پوری دنیا میں زبردست تحفظات ہیں۔ وہ مغربی کنارے میں رہتے ہیں جہاں پر وہ اپنی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے لیے کافی بدنام ہیں۔
امریکہ اور دیگر ممالک میں نتن یاہو کی قیادت میں متوقع وزیر وں پر کافی تشویس ظاہر کی جارہی ہے ۔ امریکہ کئی مرتبہ اس طرف اشارہ کرچکا ہے کہ اس طرح کی پالیسیوں سے قیام امن کی کوششوں کو دھچکا پہنچنے گا مگر کیونکہ گزشتہ 5سال میں اسرائیل میں 4انتخابات ہوچکے ہیں اور اس مرتبہ پارلیمنٹ میں نتن یاہو کی پارٹی کو 53سیٹیں ملیں ہیں۔ کئی حلقے مزید نئے انتخابات میں جانے سے بچنے کے لیے سخت گیر عناصر کی حکومت بنانے پر زیادہ ناراض نہیں ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ سرکار ایسے کام نہ کرے جس سے عالمی برادری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
پوری دنیا میں فلسطینیوں کو جو ہمدردی مل رہی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے نتن یاہو خود بھی فلسطینیوں اور عرب پڑوسیوں کے ساتھ تصادم کو کم کرنے یا کسی جنگ بندی معاہدے کے لیے ابتدائی مزاحمت ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بھی نتن یاہو اس بابت اشارہ دے چکے ہیں اور یونائٹیڈ عرب لسٹ پارٹی اسرائیل میں عرب شہریوں کی ایک سیاسی جماعت ہے اور جس کی 5سیٹیں ہیں، کو بھی اپنے ساتھ حکومت بنانے کے لیے سمجھوتہ کرنے کے لیے اعلان کیا تھا ۔ مگر شاز پارٹی کے ساتھ سمجھوتہ کا اعلان کرنے کے بعد فی الحال یونائٹیڈ عرب لسٹ پارٹی کو انتظار کرروارہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ نتن یاہو اپنی چودہ دنوں کی مہلت میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا ا ن کو عرب پارٹی کی حمایت لینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ خیال رہے کہ مذکورہ بالا عرب پارٹی وزیر اعظم معزول نفٹالی بینٹکٹ کی حکومت میں شریک تھی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS