قطر:کھیل کے بہانے صلہ رحمی کی ترویج

0

قطر میں ہونے والے عالمی فٹبال ٹورنا منٹ میں جہاں دنیابھر کے فٹبال شائقین کو جمع کیا ہے وہیں دلوں کی دوریاں کم کرنے کا بھی موقع فراہم کیا ہے۔ قطر اس وقت پوری دنیا کا مرکز نظر ہے۔ وہاں پر ہونی والی سرگرمیاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے دنیا میں کتنے رنگ ہیں وہ اس چھوٹے سے جزیرے میں نظر آرہے ہیں جس کی زمینی سرحد صرف سعودی عرب سے ہی ملی ہوئی ہے۔ صرف سعودی عرب اور قطر کے درمیان زمینی سرحدہیں باقی پورا قطر سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ قطر نے یہ ثابت کردیا ہے کہ خوشحال طاقت ور یا بااثر ملک ہونے کے لیے جغرافیہ، فوجی طاقت ضروری نہیں ہے بلکہ آپ اپنی دور اندیشی اور بالغ النظر ی سے چھوٹا ملک ہونے کے باوجود دنیا میں قیام امن اور خوشحالی قائم کرنے میں اپنا رول ادا کرسکتے ہیں۔
عالمی فٹبال ٹورنامنٹ کے انعقاد سے قبل قطر کسی دوسرے معنی میں میڈیا کی سرخیوں میں رہا سعودی عرب کی قیادت والے کئی عرب اور خلیجی ملکوں نے اچانک قطر کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ یہ قدم قطر کی معیشت اور اس کی اسٹریجیک حیثیت کو چوٹ پہنچانے والا تھا۔ سعودی عرب جو کہ کئی ایشوز پر قطر کے ساتھ سخت اختلافات رکھتا تھا اس میں قطر کے ساتھ تجارتی ودیگر روابط منقطع کردیے اور دیگر خلیجی ملکوں یو اے ای، بحرین اور مصر وغیرہ نے بھی اس کا ہر طرح سے بائیکاٹ کیا۔ سعودی عرب جو کہ قطرکا انتہائی قریب اور پڑوسی ملک تھا اس سے ایک دم سے تعلقات کا منقطع ہونا قطر کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ بعد ازاں سعودی عرب اور قطر کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوگئے اور کچھ شرائط اورپالیسیوں میں ترمیم کے ساتھ دونوں ملک پھر اسی طرح شیروشکر ہوگئے جس طرح پہلے تھے بعد میں بحرین اور مصر نے سعودی عرب کی طرح قطر کے ساتھ روابط معمول کے کرلیے تھے۔ مگر قطر اور ابوظہبی اپنے روابط معمول پر نہیں لا سکے تھے۔ مگر اچانک یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زائد النہیان نے قطر کا دورہ کیا ہے قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ فٹبال ٹورنا منٹ کی افتتا ح کی تقریب میں جس میں میزبان قطرکی فٹبال ٹیم کی مقابلہ ایکواڈور سے تھا بہت زیادہ سرخیوں میں رہا۔کیونکہ اس شاندار افتتاحی تقریب میں جہاں ایک طرف منفرد انداز کی افتتاحی پروگراموں کی وجہ سے خبریں بنیں وہیں عرب اور مسلم ملکوں کے چند اہم سربراہان کی شرکت نے عالمی اسلام میںایک اہم پیغام خیر سگالی اور سفارتکاری دیا۔ اس غیر معمولی تقریب میں سعودی عرب کے ولی عہد او ر وزیر اعظم محمد بن سلمان کے علاوہ مصرکے صدر الفتاح سیسی اور ترکی کے صدر طیب اردگان شریک ہوئے تھے۔ یہ عالم اسلام کی 4عظیم تہذیبوں اور سلطنتو ں کا ملن تھا جو اپنے آپ میں پوری دنیا کا پیغام دینا تھاکہ ان ممالک نے آپسی اختلافات ترشی کو کم کرکے صلۂ رحمی کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
ترکی کے ساتھ مغربی ایشیا کے ممالک کی کچھ شکایتیں ہیں اور204کی جمہویت پسند تحریکوں سے وابستہ ہوئی ہیں۔ عرب بہاریہ پرمغربی ممالک نے برے طمطراق کے ساتھ ان تحریکوں کی حمایت کی تھی۔ ترکی بھی ان ممالک میں شامل تھا ترکی کے بارے میں کئی طاقتوں کا کہنا ہے کہ وہ اخوان المسلمین کے نظریات پر مبنی اپنے سیاسی ماڈل اسی خطے میں منتقل کرنا چاہتا تھا۔ مصر، الجیریا، تیونس، بحرین اور لیبیا وغیرہ میں تحریکیں اٹھی تھیں، ان کے پس پست بھی یہی سیاسی طاقتیں سرگرم تھیں جوطاقت ور سلطنتوں کا تختہ پلٹ کر وہاں اسلام پسندوں کی عوامی اور جمہوری حکومتیں قائم کرنا چاہتی تھیں۔ مگر ان عرب اور افریقہ کے اہم مسلم ملکوں نے ان تحریکوں کو سختی کے ساتھ کچلا اس کا سب سے پہلا شکار مصر تھا۔ فلپائن کئی دہائیوں سے اقتدار پر قابض حسنی مبارک کا تختہ پلٹ گیا۔ وہاں طویل عرصہ تک ٹکرائو تھا۔ فوج کی مزاحمت کے آگے اخوان المسلمین کی ایک نہیں چلی اور کئی اہم خیال ممالک نے بھی مصر میں اخوان کے اقتدار کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ در اصل جن ملکوں میں بھی یہ ’’نام نہاد جمہوری تحریکیں تھوڑی بہت کامیاب ہوئیں ان ملکوں میں تشدد،خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ اب تک جاری ہے، مصر میں مضبوط فوج نے اقتدار پر اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دی۔ مصر میں فوج وہاں کی عام زندگی میں بہت رچی بسی ہوئی ہے۔ تقریباً ہر خاندان کا فردکسی نہ کسی طرح طریقہ فوج سے وابستہ ہے ، مصر کی فوج کا صنعتی تجارتی اقتصادی اداروں پر بھی کافی کنٹرول ہے اس لیے اسلام پسنددوں کی مضبوط مزاحمت بھی بے اثر رہی۔ ان حالات کے خاتمہ کے بعد اب ترکی نے نہ صرف اپنے رویہ میں تبدیلی کا اشارہ دیا ہے۔ خاص طور پر یوکرین جنگ کے بعد دنیا کی آنکھیں کھل گئی اور مسلم ملکوں کے عوام اور حکمران سمجھ گئے ہیں کہ مختلف مسلم اور عرب ملکوں کے حکمرانوں کو اقتدار سے دخل کرکے، عوام استحکام پیدا کیا جارہا ہے۔ ان کو خانہ جنگی کا شکار بنایا جارہا ہے عراق، شام، لیبیا وغیرہ اس کی بدترین مثالیں ہیں۔
عالمی فٹبال ٹورنامنٹ ان ممالک کو اسپورٹس ڈپلومیسی Sports Diplomecyسے روبرو کراتا ہے۔ قطر نے بحرین سعودی عرب مصر اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو وسعت دی ہے۔ مصر اور ترکی اپنی پرانی رقابتیں کم کررہے ہیں، یہ دو عظیم تہذیبیں ہیں۔ مغرب کی عیاری اور پھوٹ ڈالنے والی پالیسی کی وجہ سے یہ ممالک منتشرتھے، ان ملکوں نے سمجھ لیا ہے کہ اختلافات برقرار رکھتے ہوئے اور اپنے انفرادی مفادات کے تحفظ کے ساتھ بھی باہمی تعاون کا جذبہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اس جذبہ کے ساتھ تمام ممالک اپنے عوام کے مسائل کو دور کرسکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ملکوں کا یہ جذبہ کتنی دور تک جانا ہے ۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS