عمیر کوٹی ندوی: حقیقت میں اسلام کا مطلب ہے ’ امن اور فلاح‘

0
عمیر کوٹی ندوی: حقیقت میں اسلام کا مطلب ہے ’ امن اور فلاح‘

عمیر کوٹی ندوی
’’ اسلام کا مطلب امن اور فلاح ہے‘‘یہ بات کہی ہے قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے)اجیت ڈوبھال نے۔ اس وقت ان کی ایک پروگرام میں کہی گئیں تمام باتیں میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ یہ پروگرام انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں 29 نومبر کو منعقدہوا۔ موضوع تھا’’ ہندوستان اور انڈونیشیا میں بین المذاہب رواداری اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ میں علما کا کردار ‘‘۔ اس میں قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) اجیت ڈوبھال شریک ہوئے۔ ان کے علاوہ انڈونیشیا کے قومی سلامتی کے مشیر اور نائب وزیراعظم پروفیسر ڈاکٹر محمد محفوظ ایم ڈی نے بھی اس میں شرکت کی۔ انھیں پروگرام میں شرکت کے لیے این ایس اے ڈوبھال کی ہی طرف سے دعوت نامہ بھیجا گیا تھا۔ان کے ہمراہ پروگرام میں شرکت کے لئے آنے والے وفد میں وہاں کے کئی علما اور مذہبی رہنما شامل تھے۔میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز پروگرام سے کہیں زیادہ اس میں کہی گئیں باتیں ہیں۔اجیت ڈوبھال نے کہا کہ’’ اسلام مکمل طور پر بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خلاف ہے کیونکہ اسلام کا مطلب امن اور فلاح ہے‘‘۔’علمائے کرام کے کردار‘ پرمنعقدہ پروگرام میں خطاب کے دوران ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ سرحد پار دہشت گردی اور داعش سے متاثر دہشت گردی انسانیت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے‘‘۔
پروگرام میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’دونوں ملک (ہندوستان اور انڈونیشیا) دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے دوچار رہے ہیں۔ آئی ایس آئی ایس سے متاثر دہشت گردی اور شام اور افغانستان سے واپس آنے والوں کے درپیش خطرے سے نمٹنے کے لیے سول سوسائٹی کا تعاون اہم ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ اس بحث کا مقصد ہندوستان اور انڈونیشیا کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے جو امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں…… اس سے دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کو تقویت ملے گی…… اگر دہشت گردی، بنیاد پرستی اور مذہب کا کسی بھی مقصد کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے تو یہ کسی بھی بنیاد پر درست نہیں ہے اور ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی قوتوں کی مخالفت کو کسی مذہب کے ساتھ تصادم کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے…… ہم سب کو اپنے مذاہب کے حقیقی پیغامات پر توجہ دینی چاہیے جو ہمیں انسانیت اور امن کا سبق دیتے ہیں اور درحقیقت قرآن خود کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے‘‘۔
اجیت ڈوبھال کا کہنا تھا کہ ’’ دنیا میں اسلام کی صحیح تشریح پیش کئے جانے اور اس کے ماڈرن پہلو کو اجاگر کرنے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ یہ ایسا مذہب ہے جو تمام مذاہب کے لئے امن، شانتی ، رواداری اور بھائی چارے کا پیغام لے کر آیا ہے ، جس میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاد انا کے خلاف ہونا چاہئے انسان اور انسانیت کے خلاف نہیں‘‘۔ اس پروگرام میں دونوں ممالک کے مابین ثقافتی، سماجی، اقتصادی، سیاحتی ، تجارتی، تاریخی رشتوں کی موجودگی کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ ’’دونوں ملکوں کی جمہوریت تنوع اور کثرت میں وحدت کے فلسفے پر قائم ہے……دونوں ملکوں میں ثقافتی ، مذہبی اور تاریخی لحاظ سے کافی یکسانیت ہے‘‘۔ ساتھ ہی اس ضرورت کا بھی احساس کرایا گیا کہ دونوں ممالک کے علما اور دیگر مذہبی رہنماؤں کے درمیان گفتگو دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے مزید قریب لانے میں کافی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان باتوں پر میڈیا اور عوام کی توجہ کا ہونا فطری بات ہے۔ اسلام ایک فطری مذہب ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ ہر انسان اور ہر زمانہ کے لئے ہے۔ کسی قوم اور کسی زمانہ سے اس کا خاص تعلق نہیں ہے۔
اسلام تمام انسانوں کی فلاح وبہبود کے لئے ہے۔ صرف انسانوں ہی نہیں اس نے پوری کائنات ، جاندار اور غیر جاندار سب کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور سب کا خیال رکھنے کی بات کہی ہے۔ ندی اور سمندر کے بیچ میں رہ کر بھی پانی کو برباد کرنے سے منع کیا ہے۔ بلاضرورت درختوں اور پودوں کو کاٹنے سے منع کیا ہے۔ اس کی جگہ پودوں کو لگانے کا حکم دیا ہے۔ جانوروں کو بے وجہ قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو برباد کرنے سے منع کیا ہے۔ اللہ کے حکم کے خلاف جاکر انسانوں ،جانداروں، غیر جانداروں سمیت کائنات کی کسی بھی چیز کو نقصان پہنچانے کو اور خراب کرنے کو ’فساد‘سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ نے اگر کسی کو کچھ دیا ہے تو یہ حکم بھی دیا ہے کہ اس پر اتراؤ نہیں بلکہ اس نعمت کو دینے والے کا شکریہ ادا کرو اور دوسروں کو بھی اس میں شامل کرو۔ یہ اس لئے کہ آج اللہ نے ایک کو دیا، کل یہ کسی اور کے پاس تھی اور آگے پھر یہ کسی اور کے پاس ہوگی۔
اللہ کی دی ہوئی دولت، طاقت اور موقع اترانے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کو دے کر اللہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا بندہ اسے پاکر کیا کرتا ہے۔ وہ اس سے خود فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے یا نہیں۔ لوگوں کے ساتھ اچھائی ،بھلائی، خیر خواہی اور انصاف کا معاملہ کرتا ہے یا پھر اس چیز پر اترانے لگتا ہے جو اس کی نہیں بلکہ اللہ نے اسے دی ہے۔ دنیا جب سے آباد ہوئی ہے اس وقت سے اب تک انسان نظر اٹھا کر دیکھ لے۔دنیا کی ہر قوم، ہر علاقہ اور ہر خطہ کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے اور ایک کے بعد ایک ہر ایک کو موقع دیا ہے۔ وہ اس لئے کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کی نعمتوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ بھی کیا معاملہ کرتے ہیں۔ اسلام کی طرح اس کی تعلیمات بھی سب کے لئے، پوری دنیا کے لئے، ہر دور اور ہر زمانہ کے لئے ہیں، اس لئے کہ حقیقت میں ’ اسلام کا مطلب امن اور فلاح ہے‘۔ اسلام کے ’امن وفلاح‘ کا احساس دنیا کو پہلے بھی تھا لیکن اب اسے اس کا احساس زیادہ ہورہا ہے۔
اس کی وجوہات میں اہم باتیں یہ ہیں کہ اسلام کے خلاف سازشوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود اس کی سچائی لوگوں کو دکھ رہی ہے۔ یہ بھی دکھ رہا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف باتیں کرتے کرتے کس طرح اسلام سے دشمنی کر بیٹھے ہیں۔ ان سب کے باوجود اسلام کی انسانیت اور انصاف پر مبنی باتیں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس وقت اسلام کی خوبیاں لوگوں کے سامنے نمایاں ہو رہی ہیں اور لوگ اس کی طرف آرہے ہیں۔
یہ بات کہی جاتی ہے اس وقت پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ یورپ جو اسلام دشمنی میں لیڈنگ رول ادا کر رہا تھا وہاں لوگ زیادہ تیزی سے اسلام کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ اسلام سے دشمنی میں لیڈنگ رول ادا کرنے والے خود اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس کے علاوہ خود مسلمانوں میں بھی برائیوں، گمراہیوں، غفلت اور جہالت کو چھوڑ نے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ اسلام کی تعلیم کی طرف پلٹ رہے ہیں اور نیک انسان بن رہے ہیں ، اچھے اور سچے شہری بن رہے ہیں۔ ان کی اس بیداری سے دنیا میں عام لوگ خوش ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھا، نیک، ایماندار، شریف،ملنسار، لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے والا انسان کسے پسند نہیں ہوتا۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ گھر، بازار، کھیت، کھلیان،گلی، چوراہے،آفس، کمپنی ہر جگہ اچھا انسان ملے جس پر لوگ بھروسہ کریں۔ ایماندار کی تلاش ہر انسان کو ہوتی ہے۔ دشمنی رکھنے کے باوجود ایماندار کو لوگ چاہتے ہیں، اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔حضرت محمدؐ کو لوگ امین کہتے تھے، اسلام کی دعوت پیش کرنے کے بعد ان سے دشمنی کرنے کے باوجود لوگ ان پر بھروسہ کرتے تھے اور اپنا سامان ان کے پاس ہی رکھاتے تھے۔
آج بھی اسلام کے امن وفلاح کے کردار کی لوگوں کو تلاش ہے اور مسلمان آزمائشوں کے باوجود اس کردار کی طرف بڑھ رہے ہیں ،یہ اچھی بات ہے۔ اچھی بات یہ بھی ہے کہ اجیت ڈوبھال جی نے اسلام کی اس خوبی کو بتایا ہے کہ’’ اسلام کا مطلب امن اور فلاح ہے‘‘، اسی کے ساتھ گفتگو کی جو بات آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کہی تھی اسے بین الاقوامی سطح پر آگے بھی بڑھایا ہے۔
([email protected])

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS