زین شمسی
سنا کہ دلت طبقہ کے ریزرویشن کے لیے مسلمانوں کی ایک جماعت اعلیٰ عدالت سے جلد رجوع کرے گی۔ دلیل کو متوازن بناکر پیش کیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ اسلام میں ذات و پات کا کوئی نظام نہیں مگر ہندوستانی پس منظر میں اس بات کو نظرانداز کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ مسلمانوں میں ذات پات نہیں ہے۔ اس لیے معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے دلت مسلمانوں کو ریزرویشن دینا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ تاہم اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مسلم دلت کو ریزرویشن سے دور کرنے کے لیے1950کے پرسیڈنشیل آرڈر میں یہ دلیل دی جا چکی ہے کہ مسلمان ذات سے مبرا طبقہ ہے۔ اس لیے اسے ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے، اگر ایسا ہے تو پھر آرٹیکل14کو نظرانداز کر کے پسماندہ مسلمانوں کو بیک ورڈ اور انتہائی بیک ورڈ زمرے میں ریزرویشن کیوں دیا گیا۔ دلیل اس لیے مضبوط ہے کہ ریزرویشن مذہب پر مبنی نہیں ہے بلکہ معاشی صورت حال پر مبنی قاعدہ ہے تو پھر سکھ دلت ، عیسائی دلت اور ہندو دلت کے نام پر ریزرویشن کیوں؟اور مسلم دلت اس سے مبرا کیوں؟
معاشی طور پر دیکھا جائے تو آج کے منظرنامہ میں47 فیصد دلت مسلم خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی گزارنا ہی ایک چیلنج ہے۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ ان کی خبرگیری کرے اس سے قبل کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھکمری کا شکار ہو جائے۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ آج کے حالات میں ملازمت اور تعلیم کے شعبہ میں سب سے زیادہ ریزرویشن کی ضرورت اگر کسی کو ہے تو وہ مسلمانوں کو ہی ہے اس لیے عدالت کی طرف رجوع کیا جانا ایک قابل ستائش قدم ہے مگر۔۔۔
کیا اسے عدالت قبول کرلے گی۔ قوی امکان ہے کہ اگر اس مقدمہ کو پرزور اور مدلل طریقہ سے لڑا جائے تو ممکن ہے کہ عدالت اسے نظرانداز نہ کرسکے ، لیکن اس کا اثر سماج اور سیاست پر کیا پڑے گا، اسے بھی سوچنا ضروری ہے۔ اس لڑائی میں سب سے پہلے تو دلتوں اور مسلمانوں کے درمیان زبردست تفریق پیدا ہوگی۔ انہیں اپنی حصہ داری کا خوف ستانے لگے گا۔ آج کی سیاست اس کھیل کو مزہ لے کر کھیلے گی کیونکہ ای ڈبلیو ایس کا زمرہ بنا کر وہ پہلے سے ہی جیت حاصل کر چکی ہے۔ رہی عدالت کے روبرو ہونے کی بات تو دور رواں میں مسلم فرقے کے معاملے میں جس طرح کے فیصلے آئے ہیں وہ جگ ظاہر ہیں۔
گجرات جیتنے کے لیے گجرات کی یاد دلاکر ہوم منسٹر نے اپنا فرض نبھادیا ہے۔ ایک فرقہ کو سبق یاد کرانے کے بعد وہ مطمئن ہوگئے، اسی طرح عدالت بھی بلقیس بانو کے گناہ گاروں کو آزاد کرا کر مطمئن ہوگئی۔ میڈیا کے شعبہ میں آنکھ کی کرکری بنے این ڈی ٹی وی کو اڈانی کے قبضہ میں جاتا دیکھ کر سرکار بھی پوری طرح مطمئن ہوگئی ہے۔ یہ دور اطمینان ہے، یہاں سب کی جھولی میں میٹھے میٹھے سپنے ہیں ۔ کسی کو اپنے سپنے ٹوٹتے دکھائی دیتے ہیں تو کلبلاہٹ ہوتی ہے، مگر اسکول کے بچے کو قصاب سے موازنہ کرنے اور باحجاب طالبہ کو کیمپس میں داخلہ ممنوع کردینا بھارت کی سنسکرتی کو ٹھیس بھی نہیں پہنچاتا۔ بابا رام دیو کو بے لباس خواتین زیادہ پسند آتی ہیں مگر انہیں کچھ کہہ دینے کی جرأت کسی میں نہیں۔ ہندوستانیوں کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے۔ کشمیر فائلس کی سچائی کو فحش اور پروپیگنڈہ بتانے والے اسرائیلی فلم میکر کو عتاب کا شکار بنا کر انوپم کھیر بھی مطمئن ہوگئے۔
رہی بات مسلمانوں میں دلت، پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقہ کے ہونے یا نہ ہونے کا تو اسلام میں مسلک بھی کہاں ہوا کرتا تھا ، لیکن اب اسلام مسلک کا نعم البدل ہوگیا کہ نہیں۔ گچھوں سے ٹوٹے ہوئے انگور کے سستے ہونے کا راز جانتے ہوئے بھی اگر قوم میں اصلاحات کے نام پر غیر سائنسی، غیرسماجی اور غیر سیاسی مشورے تشہیر کیے جائیں تو سنگین حالات بھی معمولی دکھائی دیں گے۔ ایک سیدھی سی بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہندوؤں میں ذات پات دھرم سے بڑی ہے اور جب تک یہ رہے گا ہندوتو کا تصور مضبوط نہیں ہوگا اور اگر اسلام میں بھی ذات پات کا اعتراف نامہ تشکیل ہوا تو برصغیر میں برصغیر کی طرح اسلام بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا۔ قوم آگے بڑھے اپنے ہنر کا استعمال کرے ، تعلیم کو اپنائے، اس کی حکمت عملی بنائے نہ کہ غیروں کی کمیوں کو اپنے لیے خوبیوں کا پیغام سمجھے۔ بی جے پی ابھی پسماندہ مسلمانوں پر جال پھینک رہی ہے اور ہم دلت مسلمانوں کی بات کرنے لگے ہیں۔ کیا اتفاق ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]