ایک فنکار کا اظہار رائے

0

انسانوں میں اجتماعی شعور کی تعمیرکیلئے فنون لطیفہ اتنا ہی ضروری اور اہم ہے جتنا کہ دوسرے علوم و فنون۔ادب و ثقافت، موسیقی، فلم، ڈرامے، تھیٹریہ محض ذوق جمال کی تسکین اور تفریح طبع کا سامان نہیں ہیں بلکہ یہ آدمی کو انسان بناکر اس میں زندگی کو برتنے کا سلیقہ ابھارتے ہیں۔ خاص کر فلم، اجتماعی شعورکے ساتھ ساتھ انسان کے دیگر معاملات پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ پردہ سیمیںپر موجود کردار صرف وہیں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ یہ محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے ناظرین کی تربیت بھی کررہے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کاحصہ بن جاتے ہیں۔ انسان غیر محسوس طریقے سے فلموں کے مثبت اور منفی کردارکا اثر قبول کرتا ہے۔ اسی لیے فلموںکے موضوعات اور ان کے کرداروں سے جڑی ہر بات موضوع بحث بن جاتی ہے، اس کے حسن و قبح پر مجادلہ و محاربہ تک ہونے لگتا ہے جیسا کہ ’ دی کشمیر فائلس‘ جیسی متنازع موضوع والی فلم کے سلسلے میں ایک بار پھر سے شروع ہوگیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ معیار اور موضوع کے اعتبار سے یہ انتہائی ارزل ترین فلم ہے اور اسے سیاسی دبائوکی وجہ سے گوا میں ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا یعنی اِفّی( آئی ایف ایف آئی) میں نمائش کیلئے شامل کیا گیا تھا۔اسی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے اسٹیج سے ہی فیسٹیول کے جیوری چیف اسرائیلی فلم ساز ندو لپڈ نے ’دی کشمیر فائلس‘کو ایک پروپیگنڈہ اور فحش فلم قرار دے ڈالا۔انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ فلم تشہیر، فاشزم اور فحاشی کامجموعہ ہے اور فیسٹیول کے مقابلے میں شامل ہونے کی بھی مستحق نہیں ہے۔ لپڈجب ’دی کشمیرفائلس ‘پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کررہے تھے تو اس وقت تقریب میں مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر بھی موجود تھے۔ یادرہے کہ ہندوستان کا یہ بین الاقوامی فلمی میلہ اِفّی حکومت ہند کی طرف سے ریاست گواکی میزبانی اورتعاون سے ہر سال نومبر کے آخر میں منعقد کیا جاتا ہے، اسی لیے مرکزی وزیراطلاعات و نشریات کی شرکت بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔
لپڈ کے تبصرہ کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہندوستان سے اسرائیل تک ان کے خلاف فضابندی ہونے لگی، ہندوستان میں تو ایک ہنگامہ ہی کھڑا ہوگیا۔ان کے خلاف ایف آئی آر تک درج کی گئی۔ رفع شر کیلئے ہندوستان میں اسرائیلی سفیرکو معذرت خواہ بھی ہوناپڑا۔ امیدیہ کی جارہی تھی کہ لپڈ اپنا بیان واپس لے لیں گے لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ نہ صرف اپنے بیان پرقائم ہیں بلکہ اپنے پچھلے بیان سے کئی قدم آگے بڑھتے ہوئے یہاںتک کہہ دیا کہ یہ فسطائی خصوصیات کی حامل ہے، اس پر کسی کو تو بولنا ہی پڑے گا۔وویک اگنی ہوتری کی ہدایت میں بننے والی اس متنازع فلم کے بارے میں لپڈ نے یہ بھی کہا کہ ’دی کشمیر فائلس ‘ایک پروپیگنڈہ اور بے ہودہ فلم کی طرح محسوس ہوئی جو اس طرح کے باوقار فلمی میلے کے فنکارانہ مقابلے کے حصے کیلئے نامناسب ہے۔ بعدازاں انہوں نے ایک انٹرویو میں بھی اپنی ان ہی باتوں کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی فلم ہے جسے حکومت ہند نے چاہے نہ بنایا ہو لیکن کم از کم اسے ایک غیرمعمولی انداز میں آگے بڑھایا۔ یہ بنیادی طور پر کشمیر میں ہندوستان پالیسی کا جواز پیش کرتی ہے اور اس میں فسطائی خصوصیات ہیں۔
’دی کشمیر فائلس‘ کشمیری پنڈتوں کے المیے پر روشنی ڈالتی ہے جنہیں 1990کی دہائی میں دھمکیوں اور تشدد کے بعد بڑے پیمانے پر بھاگنا پڑا تھا،لیکن اپنی ریلیز کے وقت سے ہی یہ فلم تنازعات کا شکار ہے۔الزام لگایاجاتا ہے کہ اس فلم میں تمام کشمیری مسلمانوں کو بنیاد پرست اور دہشت گردکے طور پر پیش کیاگیا ہے۔ نیزیہ فلم حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور دوسری بھگواجماعتوں کی تفرقہ انگیزاور اسلامو فوبک بیانیہ کو فروغ دینے کیلئے بنائی گئی ہے۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو بی جے پی کی حکومت والی تمام ریاستوں نے اپنے اپنے طریقے سے اس کی تشہیر شروع کردی۔بی جے پی کی حکومتوں نے اس فلم کو ٹیکس فری بھی کر دیا۔ مدھیہ پردیش میں پولیس اہلکاروں کوایک دن کی چھٹی دی گئی۔ لیکن فلم کے بیشتر ناقدین اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اس پر ایک پروپیگنڈہ فلم ہونے کا الزام لگایا۔عرصہ تک ان الزامات اور جوابی الزامات پر بہت ہنگامہ ہوا تھا۔ بی جے پی کی جانب سے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس فلم کی تعریف کی ہے اور احتجاج کو سازش بھی بتایا ہے۔
لپڈ کا یہ ردعمل در اصل فلم پر ناقدین کے احتجاج اور الزامات کی بازگشت ہے۔ ندو لپڈ نے ایک آزادانہ فنکار کے طور پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے بحیثیت جیوری چیف بھی ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ فلم کے حسن وقبح کو زیر بحث لائیں۔ہوسکتا ہے کہ ان کی رائے اور تبصرے سے کچھ لوگوں کوا ختلاف ہو لیکن جس طرح سے انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ان کے خلاف محاذصف بستہ ہوگیا، اس کی کسی بھی حال میں حمایت نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس متنازع فلم کو اِفّی میں نمائش کیلئے شامل کرکے حکومت نے خود ہی اپنی رسوائی کا سامان کیا ہے، اس لیے اب اسے ایک فنکار کے آزادانہ اظہار رائے کابھی خیرمقدم کرنا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS