علیزے نجف
ہماری زندگی میں میڈیا ایک جزو لاینفک کا مقام حاصل کر چکا ہے اس کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ آج کی تاریخ میں ہم میں سے ہر انسان کسی نہ کسی صورت میڈیا سے جڑ چکا ہے پچھلے کچھ برسوں میں میڈیا نے پورے ملک کے نظام پہ اپنے گہرے نقوش مرتب کئے ہیں ایسا قطعا نہیں ہے کہ اب سے دو تین دہائی قبل میڈیا کی کوئی پہچان نہیں تھی یا میڈیا غیر معروف اصطلاح تھی اور لوگوں کی اکثریت اس سے ناواقف تھی میڈیا کی تاریخ صدیوں پہ محیط ہے ایک طویل مدت سے لوگ اس سے واقف ہیں لیکن اس تک رسائی آج کے وقت کی طرح آسان نہیں تھی اب محض ایک اسمارٹ فون کے ذریعے بھی سب کچھ ممکن ہے حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں پورے معاشرے پہ میڈیا کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے یہ لوگوں کی سوچوں کو متاثر کر کے اپنی گرفت میں لینے کی صلاحیت رکھتا ہے
میڈیا کا مطلب ، زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق خبروں، واقعات اور حادثات کاجائزہ لیکر ایک خاص تر تیب سے معلو مات جمع کر نا پھر اس کو عام فہم انداز میں پیش کر نا ہے۔ میڈیا انگر یزی میں میڈیم Mediam کی جمع ہے جس کے معنی وسائل و ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے ہیں یونیورسل ڈکشنری آکسفورڈ میں میڈیا کا معنی ہے اخبار اور ٹیلیوڑن، ریڈیو جس کے ذریعے عوام تک معلومات یا پروگرام پہنچایا جائے پچھلی نصف صدی میں میڈیا ترقی یافتہ صورت اختیار کر گیا ہے اور پہلے کے مقابلے میں سہولتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرے پہ اس کی گرفت بھی مضبوط ہو گئی ہے کیوں کہ میڈیا انسان کے روز مرہ کے معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔ میڈیا کی کئی قسمیں ہیں جیسے پرنٹ میڈیا، الکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا۔
پرنٹ میڈیا اخبارات اور رسائل و جرائد ہیں جس کے ذریعے خبروں اور معلومات کی ترسیل تحریر کی صورت میں کی جاتی ہے پرنٹ میڈیا لوگوں کو حالات حاضرہ سے باخبر کرنے کا قدیم ذریعہ ہے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی پرنٹ میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے یہ بہت سستا ذریعہ ہے اس تک رسائی کچھ مشکل نہیں آج بھی اس کے پڑھنے والوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔
الکٹرانک میڈیا یہ جدید ذرائع ابلاغ و مواصلات ہے ریڈیو، ٹی وی، کیبل یہ الکٹرانک میڈیا ہی کا حصہ ہیں اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اس کے ذریعے دوردراز کی خبروں اور حالات و واقعات کو براہ راست سنا اور دیکھا جا سکتا ہے پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں لوگ اس کی طرف زیادہ متوجہ ہورہے پیں۔
سوشل میڈیا یہ میڈیا کی جدید ترین شکل ہے اس کی مقبولیت گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے یہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے یہ خاص و عام ہر کسی کی حد رسائی میں ہے سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا و الکٹرانک میڈیا سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔ اس کو سائبر میڈیا بھی کہتے ہیں سائبر انقلاب کے بعد سوشل میڈیا جس میں ٹوئیٹر، فیس بک، گوگل پلس، مائی اسپیس وہاٹس ایپ، یوٹیوب انسٹا گرام بلاگز جیسی ویب سائٹس شامل ہیں اس نے ہر خاص و عام امیر و غریب، غرضیکہ ہر طبقے کے لوگوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جہاں پہ وہ بنا کسی بندش اور رکاوٹ کے اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔
موجودہ دور ایک ترقی یافتہ دور ہے اور اس دور میں میڈیا سب سے بڑی طاقت بن چکا ہے ہر ملک کے منتظمین اور عام لوگ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کے لئے میڈیا کا ہی سہارا لیتے ہیں اور لوگ اس کے ذریعے ہی دوسروں کے خیالات اور نظریات سے واقف ہوتے ہیں اس کے ذریعے لوگوں کے فکر و خیال کو بنانے کے ساتھ بدلا بھی جا سکتا ہے عوام سے لے کر حکومتی کارندوں تک سبھی کی لگامیں میڈیا کے ہاتھ میں ہیں۔ مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ کے بعد چوتھا ستون میڈیا کو کہا جاتا ہے یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو انتظامیہ اور عوام کے درمیان رابطے کا مضبوط ذریعہ ہے ڈجیٹل و الکٹرانک میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ حکومتوں نے اس کے انتظام و انصرام کو اپنے ہاتھوں میں لے کر لوگوں کے ذہنوں سے کھیلنا شروع کردیا ہے وہ اقتدار تک پہنچنے کے لئے اسے جادوئی چھڑی کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس پہ کسی جمیعت یا لوگوں کا قبضہ نہیں بلکہ یہ ہر عام انسان کی دسترس میں پہنچ چکا ہے اس کی وجہ سے ہر کسی کو اس پہ یکساں اختیار حاصل ہے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اظہار رائے کر سکتے ہیں اور کسی بھی فیصلے کے تئیں ناراضگی بھی ظاہر کر سکتے ہیں اور اپنے نظریات کی اشاعت بھی بآسانی کر سکتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے سے لوگ اپنے افکارو نظریات اور قومیں ،تہذیب و تمدن،اقتدار اور فیشن کو خوب بڑھاوا دیتی ہیں۔ اس کے ذریعے محض ایک کلک سے پوری دنیا کی ورچولی سیر کی جا سکتی ہے میڈیا کی اس ترقی نے ’’مارسل میکلویان‘‘ کے اس بیان کو سچ کر دیا ہے کہ پوری دنیا گائوں میں تبدیل ہو جائیگی۔
آج آپ تازہ ترین خبروں پر صرف ایک کلک کے ساتھ ایک نظر ڈال سکتے ہیں تفریحی مواد استعمال کر سکتے ہیں یا کچھ خبروں پر ریڈیو ٹیلیویژن کو آن کر سکتے ہیں یا سوشل نیٹ ورکس پر تبصرہ کرسکتے ہیں جو آپ کو ہر صبح اخبار میں نظر آتے ہیں یہ سب عوامل میڈیا کی اہمیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میڈیا آج کے دور کی ضرورت بن گیا ہے۔ اس کے ذریعے موجودہ دور معاشرے کے مزاج،خیالات، ثقافت اور عوام کی زندگی کی کیفیات پر دوررس اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کا پیمانہ لامحدود ہے۔ الکٹرانک و سوشل میڈیا نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے سیاست کے نشیب و فراز اب طشت از بام آ چکے ہیں اس کے ذریعے اگر حکومتیں قائم ہوتی ہیں تو اسی کے ذریعے حکومتوں کے پاؤں اکھڑ بھی جاتے ہیں لوگ ملکی سیاست کے ساتھ عالمی سیاست سے بھی بڑی تیزی کے ساتھ جڑ رہے ہیں اور حالات حاضرہ سے واقفیت حاصل کر رہے ہیں۔
میڈیا کی ان جدید ترین اقسام سے لوگوں کی معلومات میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ باہمی روابط کا دائرہ بھی وسیع ہو گیا ہے۔ لوگوں کا اس سے کثیر تعداد میں جڑنے اور اس کو اہمیت و دلچسپی دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ دوسروں کے درمیان اس میں معاشرتی تحریکیں پیدا کرنے، معلومات منتقل کرنے، تنظیموں کو فروغ دینے، ثقافت کی وضاحت کرنے کی صلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ہر طرح کے ذوق رکھنے والے انسان کے لئے ان کی پسند کے مواد موجود ہیں۔آج میڈیا ہماری زندگی کے لمحے لمحے میں شامل ہو چکا ہے اور ہمارے تمام مواصلاتی معاملات میں فعال طور پر ہمراہ ہوتا ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ کی فہرست میں روایتی اور جدید سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے اس کے اپنے بیشمار فائدے ہیں وسائل کی کمی ہونے کے باوجود لوگ اس کے ذریعے اپنے مقاصد بآسانی حاصل کر سکتے ہیں ایک خاص مقام پہ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی صلاحیتوں کو سنوارنے کے لئے ہر طرح کی انفارمیشن حاصل کرتے ہوئے ماہرین سے رابطے میں بھی رہ سکتے ہیں۔ ایک طرف جہاں سوشل میڈیا کے بیشمار فائدے ہیں وہیں اس کے منفی پہلو بھی ہیں جو معاشرے میں دھیرے دھیرے اپنی جڑیں مضبوط کرتے جا رہے ہیں اس کے ذریعے روایت و ثقافت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے مخصوص نظریے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے ذریعے ملک کے امن و امان کو شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے ذرائع ابلاغ کا یہ ذریعہ ہماری زندگی کے تمام شعبوں اور پہلوؤں کو صرف مثبت صورت میں ہی متاثر نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ منفی سطح پہ بھی اس کو مسخ کر رہا ہے لوگوں کے سامنے واقعے کا ایک رخ بیان کر کے انھیں سچ سے دور گمراہی کے راستے کی طرف ڈالا جا رہا ہے یہ ذرائع پروپیگنڈوں کے میدان میں بھی پوری طرح سرگرم ہیں عام لوگ جب ان ذرائع کا استعمال کرتے ہیں تو ایک ہی چیز کو بار بار سن کر اسی جیسا ہی سوچنا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں ایک خاص قسم کی شدت پسند سوچ کا غلبہ پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ تحمل اور رواداری کا مزاج ختم ہوتا جا رہا ہے الکٹرانک میڈیا جو اپنی بقاء کے لئے حکومت کی گود میں پناہ لینے کا عادی ہو چکا ہے محض اپنے وقتی مفاد کے لئے ملکی مفادات کو داؤ پہ لگاتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھجھکتا لوگوں کو درپیش اصل مسائل پہ بات کرنے اور سچائی کو سامنے لانے کے بجائے وہ جھوٹی عقیدت و آستھا کی باتیں کر کر کے لوگوں کا جذباتی استحصال کرتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی نہ صرف معیشت متاثر ہوتی ہے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی تنزلی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے الکٹرانک میڈیا کی بیراہ روی کو لگام دینے کے لئے لوگوں نے سوشل میڈیا کو اپنی طاقت بنا لیا۔ اس کے ذریعے وہ سچائی کی اصل تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں سرگرم ہیں۔ الکٹرانک میڈیا جن حقیقتوں کو چھپاتا ہے سوشل میڈیا اسے بے نقاب کر دیتا ہے ۔فرقہ پرست عناصر نے سوشل میڈیا پہ بھی اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دئیے ہیں جھوٹی خبروں کو پھیلانے کے لئے باقاعدہ آئی ٹی سیل بھی بنا لیا ہے۔ وہ اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں کو وائرل کرنے کی کوشش کر کے لوگوں کے سامنے حقیقت کو مشتبہ کر دیتے ہیں۔ لوگ بنا سوچے سمجھے فارورڈ کر کے لاشعوری طور پہ خود سچائی کے نام پہ جھوٹ کو فروغ دے رہے ہیں اس کی وجہ سے فسادات کی نوبت بھی آ جاتی ہے سوشل میڈیا پہ لوگوں کی اجارہ داری ہونے کی وجہ سے جھوٹ کا مکمل غلبہ نا ممکن ہے کیونکہ بیک وقت سارے عوام کو ایک مائنڈ فریم میں لانا تو ممکن نہیں سوشل میڈیا پہ ایک کشمکش کی سی کیفیت ہے میڈیا کے مثبت کم اور منفی اثرات زیادہ پڑتے جا رہے ہیں وہ میڈیا جو ملک کی اصل تصویر سامنے لانے کے لئے ایجاد ہوا تھا اب اپنی دھندلی تصویر کے ساتھ اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے اس کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے میڈیا کی مسخ شدہ حالت کو بہتر بنانا یقینا آسان نہیں وقت طلب ضرور ہے لیکن مسلسل جدوجہد اور مستحکم حکمت عملی سے اسے اس کے اصل مقام پہ لایا جا سکتا ہے۔
علیزے نجف: میڈیا کی افادیت اور اس کے منفی اثرات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS