عمیر کوٹی ندوی: غذائی بحران کا اصل سبب کیا ہے؟

0

عمیر کوٹی ندوی
انسانوں کی آبادی ایک عرصہ سے بڑے مسئلہ کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔ دنیا میں ایک تعداد ایسے ممالک کی ہے جہاں آبادی بڑھانے پر زور ہے۔ شہریوں کو طرح طرح کی کفالت اور وظائف کی سہولیات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ لیکن ایسے ممالک بھی ہیں جو آبادی میں اضافہ کو ایک مسئلہ سمجھتے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں بھی آبادی میں اضافہ کو تشویش کا باعث قرار دینے کا رجحان عام ہے۔ اس کے لئے ’ آبادی دھماکہ ‘ کی اصطلاح بھی بلا تکلف استعمال کر لی جاتی ہے۔ اس مسئلہ میں مذہب کو داخل کرنے کی بھی کوشش ہوتی ہے۔ ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کو اس معاملہ پر بھی نشانہ پر لیا جاتا ہے۔ رائے عامہ کو ان کے خلاف کرنے پر زور صرف کیا جاتا ہے۔ اس پر سیاست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور زور دیا جاتا ہے کہ ’ سبھی پر نافذ ہونے والی آبادی پالیسی‘ بننی چاہئے۔ یہ بات کہیں کھلے لفظوں میں اور کہیں اشاروں اشاروں میں کہی جاتی ہے۔ سیاسی وجوہات سے ہٹ کر غذا، تغذیہ اور وسائل زندگی بھی آبادی کے تعلق سے اضافہ پر تشویش پائی جانے کی ایک وجہ ہے۔ اس کے کم پڑجانے یا ختم ہوجانے کا اندیشہ ہمیشہ مادی نقطۂ نظر سے لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ مخصوص نظریۂ حیات سے وابستہ اور مذہبی ذہن رکھنے والوں کے یہاں بھی اس تعلق سے تشویش پائی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں آبادی پر بات بہت زور شور سے ہوئی تھی۔ اس دوران ایک نظریاتی تنظیم کے پلیٹ فارم سے آبادی کو غذائی تحفظ کے لئے خطرہ بتاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’’بے قابو آبادی ایک ایسا مسئلہ ہے جو غذائی تحفظ کے لئے خطرہ بن سکتی ہے‘‘۔ ختم ہوجانے کا اور خرچ ہوجانے کا خوف انسان کو ہمیشہ پریشان کرتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ ہر غلط ، غیر انسانی اور غیر فطری کام کر بیٹھتا ہے، خواہ وہ انسانوں پر ظلم کرنا اور انہیں قتل کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ انسانوں کے پیدا کرنے والے نے اس حقیقیت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں‘‘(اِسراء :31)۔ خوف کی اس کیفیت کو دوسری جگہ اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’اگر بالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تم اس وقت بھی اس کے خرچ ہوجانے کے خوف سے اس کو روکے رکھتے‘‘ (اِسراء :100)۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بڑی آبادی کیا واقعی غذا اور وسائل کے لئے خطرہ ہے یا زیادہ آبادی زیادہ امکانات پیدا کرتی ہے۔ ’آپدا‘ میں ’اوسر‘ ہمارے یہاں پالیسی کا حصہ ہے۔ یہاں کی آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت پر فخر کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا کی ضرورت ہیں تو ہمارے لئے سرمایہ ہیں۔ یہ بات بے بنیاد نہیں ہے، اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں علم بھی ہے اور ہنر بھی ہے۔ ان کی ملک سے باہر مانگ ہونے لیکن اپنے گھرمیں ناقدری کی تمام شکایتوں کے باوجود سچ یہ ہے کہ ملک میں بھی ان کی قدر ہے اور ان کی صلاحیتوں سے یہاں فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ملک میں ٹکنالوجی جس تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، اس میں ان نوجوانوں کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی نئی چیز سامنے آجاتی ہے۔ پھر گھریلو مصنوعات کی مارکیٹ میں دستیابی کی وجہ سے عام لوگ بھی آسانی سے کم قیمت میں اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرلیتے ہیں جو ’برانڈیڈ‘ کمپنیاں مہنگی قیمت میں فراہم کرتی ہیں۔ اس طرح نوجوان خواہ ملک میں کام کر رہے ہوں یا ملک سے باہر دونوں صورتوں میں ملک کی معیشت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
بات غذا اور وسائل زندگی کی کی جائے تو سب سے پہلے دیکھنا یہ چاہئے کہ دنیا میں انسانوں سمیت تمام جانداروں کو حاصل ہونے والی غذا اور ضروریات زندگی کہاں سے پوری ہوتی ہیں؟۔ ظاہر ہے کہ زمین سے ہوتی ہیں اور زمین کو بنایا کس نے ہے؟۔ زمین کو بنایا ہے اس ہستی نے جو انسانوں کو پیدا کرنے والی ہے اور جس نے پوری کائنات کو بنایا ہے ’’اس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اوپر سے اس پر پہاڑ جما دئے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لئے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کردیا‘‘(فصلت:10)۔ انسانوں کو پیدا کرنے والی ہستی کو خوب معلوم ہے کہ کب کس چیز کی ضرورت ہوگی اور کتنی ہوگی۔ اسی حساب سے زمین میں موجود چیزیں سامنے آتی ہیں اور انسان ان کے بارے میں ضرورت کے مطابق ہی جان پاتا ہے۔ زمین کی یہ صلاحیت اس میں جانداروں کے وجود میں آنے کے وقت سے ہی سامنے آنے لگی تھی۔ جب جس چیز کی ضرورت ہوئی وہ سامنے آگئی اور جتنی ضرورت ہوئی اتنی ہی آئی۔ آج کے دور میں انسان اپنے علم اور ذہن کے بارے میں چاہے جتنے دعوے کرلے وہ اتنا ہی جان پایا ہے جتنا اللہ نے چاہا ہے ’’تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے‘‘(اِسراء :85)۔
اس دنیا میں جب زندگی کا آغاز ہوا تو انسان زمین کے بارے میں کیا جانتا تھا۔ زمین کے اندر تو دور اس کے باہر کے بارے میں بھی وہ بہت تھوڑا ہی جانتا تھا۔ ضرورتیں بڑھتی گئیں، ان کے مطابق علم بھی بڑھتا گیا، اسی مناسبت سے چیزیں بھی پیدا ہونے اور نکلنے لگیں۔ آج جو چیزیں مل رہی ہیں، پیدا ہورہی ہیں اور زمین کے اندر سے نکل رہی ہیں کیا لوگ ان کے بارے میں پہلے جانتے تھے اور کیا وہ پہلے بھی پائی جاتی تھیں، یقیناً نہیں۔ آج بھی ہم زمین، کائنات کے اندر وباہر کی حقیقت کو کتنا جانتے ہیں۔ انسانوں کی تحقیق اور دریافت بھی حتمی نہیں ہوتی، ناقص ہوتی ہے اور بدلتی رہتی ہے۔ خود علم کے ماہرین اور سائنسداں بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہم زمین کے بارے میں جو جانتے ہیں وہ ان پہلوؤں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے جنہیں ہم نہیں جانتے ہیں۔ چند ماہ قبل سائنسدانوں کی نئی تحقیق میں زمین کے مرکز میں واقع سالڈ انر کور (Solid Innre Core) کے اندر مزید ایک اور سطح دریافت ہوئی جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ہے۔ یہ بھی نہیں جانتا ہے کہ یہ کیسے بنی، کس چیز سے بنی، اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ آسٹریلیا کی راجدھانی کینبرا میں واقع آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے وابستہ جو اسٹیفنسن (Jo Stephenson) کا کہنا ہے کہ ’’انر-انر کور کا پتہ چلا ہے۔ وہ صرف لوہے کا گرم گیند نہیں ہے، کچھ اور ہے لیکن اس کے بارے میں ہمیں زیادہ نہیں پتا ہے‘‘۔ سائنسدانوں کے خیال میں اب تک یہ ایک راز ہے۔
غذا اور وسائل حیات کے حوالے سے موجودہ صورت حال کا تعلق پیداوار اور دستیابی سے نہیں ہے۔ انسانوں کے پیدا کرنے والے نے صاف کردیا ہے کہ اس نے زمین میں ’برکتیں‘ رکھ دی ہیں۔ اس کے اندر تمام ضرورت مندوں کے لئے ’ہر ایک کی طلب و حاجت‘ کے مطابق ٹھیک ٹھیک خوراک کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ سماج میں افراط وتفریط، کمی و زیادتی، محرومی اور فراوانی قرآن کے مطابق لوگوں کی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ اقوام متحدہ اور مختلف اداروں کی وقتا فوقتا شائع ہونے والی رپورٹوں سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے زرعی ترقی (IFAD) کے مطابق 2020 میں دنیا میں 7کروڑ20 لاکھ تا8کروڑ11 لاکھ لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے جو اسباب بتائے گئے ان میں پیداوارکے علاوہ عالمی تنازعات، کٹائی، پروسیسنگ، نقل و حرکت، سپلائی، وسائل کی فراہمی، مارکیٹنگ، کھپت، ناواقفیت، غلط رسم و رواج اور غذا کی حفاظت کے مسائل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال دنیا میں اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق تقریباً 1.3 ارب ٹن غذا ضائع ہو جاتی ہے۔ یہ دنیا بھر کی غذا کی پیداوار کا ایک تہائی ہے۔ یہ غذا سے محروم لوگوں ہی نہیں ان سے چارگنا زیادہ بھوک زدہ لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہے۔ گویا بڑھتی آبادی کا رونا روئے جانے کے باوجود اس وقت جو غذا پیدا ہو رہی ہے وہ دنیا میں موجود آبادی کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اس کے ضائع ہو نے کی وجہ سے دنیا کے 81 کروڑ سے زائد افراد بھوک کے شکار ہیں۔ اس صورت میں ضرورت کس چیز کی ہے؟۔ ضرورت ہے کہ انسانوں کو پیدا کرنے والی اور پوری کائنات کو بنانے والی ہستی کی باتوں پر توجہ دی جائے کہ ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین وآسمان کی ساری چیزوں کو تمارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہیں اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں‘‘(لقمان:20) اور ان لوگوں میں شامل نہ ہوا جائے جن کے بارے میں خود انسانوں کو پیدا کرنے والے نے کہا ہے کہ ’’بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں‘‘(لقمان:20)۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS