ماحولیات کی تبدیلی سے دنیا جہنم کے دہانہ پر

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

مصر کا سیاحتی شہر شرم الشیخ بحیرۂ احمر کے ساحل پر واقع ہے جہاں دنیا بھر کے تقریباً 200لیڈران جمع ہوئے ہیں تاکہ ماحولیات کی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سنگین مسائل کا حل مشترک طور پر تلاش کیا جائے اور انسانی آبادی کو ہلاکت کے غار میں داخل ہونے سے بچایا جا سکے۔ ماحولیاتی مسائل پر بحث کے لیے کسی بھی افریقی ملک میں منعقد ہونے والے کوپ کی یہ دوسری کانفرنس ہے جس کو کوپ 27 کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2016 میں مراکش کے اندر کوپ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس کو کوپ 22 کے نام سے جانا گیا تھا۔ قارئین میں سے جو حضرات اس کی تاریخ سے واقفیت نہیں رکھتے ہوں، ان کے لیے مختصراً اتنا بتانا ضروری ہے کہ کوپ دراصل کانفرنس آف پارٹیز کا مخفف ہے اور ماحولیاتی مسائل پر فیصلہ سازی کے سلسلے میں سب سے اونچا پلیٹ فارم مانا جاتا ہے۔ اس کی تشکیل یونائٹیڈ نیشنس فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج(UNFCCC) کے تحت عمل میں آئی تھی۔ یو این ایف سی سی سی ایکبین الاقوامی ماحولیاتی معاہدہ ہے جس پر دنیا کے198 ممالک نے دستخط کیے تھے اور1994سے اب تک نافذ العمل ہے۔ اس معاہدے کے تحت عالمی سطح پر لیڈران نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ماحولیاتی نظام میں انسانی مداخلت کی وجہ سے جو خطرات پیدا ہوگئے ہیں، ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔1995 میں پہلی بار اس کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا تھا اور تب سے لے کر آج تک ہر سال دنیا بھر کے لیڈران اکٹھا ہوتے ہیں اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے تجدید عہد کرتے ہیں۔ امسال مصر کے شہر شرم الشیخ میں یہ کانفرنس منعقد کی گئی ہے جہاں دو ہفتے تک ماحولیاتی مسائل کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہوگی اور مستقبل کا لائح عمل طے کیا جائے گا۔ شرم الشیخ میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے لیے جو مقاصد طے کیے گئے ہیں، وہ کئی ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کے پیش نظر یہ امور بطور خاص ہیں کہ گرین ہاؤس گیس کی پیداوار کو روکا جائے اور کوشش کی جائے کہ 2030تک اس کو نصف تک لے آیا جائے اور 2050 تک نیٹ زیرو یا نقطۂ صفر تک لانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے تاکہ ماحولیات کی بڑھتی شدت حرارت کو1.5 ڈگری سیلسیئس سے آگے بڑھنے کا موقع نہ ملے۔1.5 ڈگری سیلسیئس تک روکنے کا منصوبہ بھی کوئی خیالی نہیں ہے بلکہ اس کو باہم مشورے سے طے کیا گیا ہے اور اس کے لیے باضابطہ ایک مابین حکومتی پینل کام کرتا ہے جس کو آئی پی سی سی یا مابین حکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گزشتہ برس اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں جو کوپ 26 کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اس موقع پر عالمی لیڈران نے کئی سارے وعدے کیے تھے لیکن ان وعدوں کا بظاہر کوئی فائدہ حقیقت کی زمین پر دیکھنے کو نہیں ملا جیسا کہ کلائمٹ ایکشن ٹریکر نامی تنظیم کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق دنیا ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدت حرارت کی جس سمت میں تیز رفتاری سے چلی جا رہی ہے، اس کے حساب سے درجۂ حرارت کو1.5 ڈگری سیلسیئس تک روک پانا مشکل ہوگا۔ اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو دنیا میں شدت حرارت کے اندر 2.4 ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہوگا جو نہایت خطرناک بات ہوگی۔ صورتحال کی اس سنگینی کو خود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کوپ27کے ابتدائی سیشن میں بیان کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی برادری اور بالخصوص آئندہ نسلیں کس قدر تباہ کن مسائل سے دوچار ہونے والی ہیں۔ انتونیو گوتیریس نے اپنی تقریر میں کہا کہ انسانیت کے پاس صرف دو آپشن باقی ہیں: یا تو انسانیت کی حفاظت کے لیے دنیا بھر کے لیڈران عملی اقدام کریں یا پھر انسانیت کی تباہی کا تماشہ بے بسی کے ساتھ دیکھنے کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے توضیحی مثال کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے مسائل کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا کی حالت ایسی ہے جیسے کہ وہ کسی ہائی وے پر تیز رفتار گاڑی میں سوار ہوکر جہنم کی طرف چلے جا رہے ہوں۔ اگر ہم نے اس سے بچنے کا انتظام نہیں کیا تو مجموعی تباہی ہمارا مقدر ہے۔ اس وارننگ کے نتیجے میں اس بات کی امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ لیڈران اس بار کچھ اہم مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں نسبتاً زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے، ورنہ دنیا کو تباہ کن درجۂ حرارت تک پہنچنے سے روک پانا ناممکن ہوگا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے خطرناک نتائج سے ترقی پذیر ممالک دوچار ہوتے ہیں، اس لییشرم الشیخ میں جمع ہونے والے ان ممالک کے لیڈران اس بات کے لییبھی کوشش کریں گے کہ جن امیر اور صنعتی ترقیات سے لیس ممالک نے ماحولیات کی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے مہلک مسائل میں اپنا سب سے منفی کردار ادا کیا ہے، وہ اس ذمہ داری کو قبول کریں اور ترقی پذیر اور غریب ممالک کو مالی تعاون پیش کریں تاکہ اس مسئلے سے نپٹنے میں انہیں مدد مل سکے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھی امیر ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ غریب ممالک کی مالی مدد کریں، کیونکہ ماحولیات کی تبدیلی میں امیر ممالک نے ہی اپنا رول ادا کیا ہے۔ غریب ممالک کا کردار اس میں بالکل برائے نام ہے۔ جس وقت میں کوپ27کا انعقاد عمل میں آ رہا ہے، اس وقت اگر ماحولیاتی تبدیلی کے نقطۂ نظر سے دنیا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر طرف قدرتی آفات اور تباہیوں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ خود ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کو سیلاب کی جس شدت سے دوچار ہونا پڑا ہے، وہ بالکل ہوش اڑا دینے والا منظر ہے۔ پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا جس کے نتیجے میں فصلیں تباہ ہوئیں۔گھر بار نیست و نابود ہوگئے۔ سات سو سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں جبکہ تقریباً ستر سے اسی لاکھ لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے۔ سیلاب کی یہی شدت نائیجیریا، کینیا، صومالیہ اور امریکہ میں بھی دیکھنے کو ملی۔ اس کے علاوہ گرم ہواؤں اور لو کی جو لہریں دنیا کے تمام حصوں میں دیکھنے کو مل رہی ہیں، وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ گرم ہواؤں کی ان موجوں کا شکار سب سے زیادہ یوروپی ممالک ہوئے ہیں جن میں برطانیہ، فرانس اور اسپین بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اسپین اور فرانس کے جنگلوں میں آگ زنی کے کئی واقعات اس سال دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس سے قبل آسٹریلیا کے جنگلوں میں بھی آگ لگ گئی تھی جس کا شکار کئی لاکھ جانور ہوگئے تھے اور اس آگ پر مہینوں بعد بڑی مشکل سے قابو پایا جا سکا تھا بلکہ اگر بارش نہ ہوئی ہوتی تو آسٹریلیا کے کئی شہر اس کی چپیٹ میں آ گئے ہوتے۔ امریکہ و اٹلی اور یونان بھی اس قسم کی آگ زنی کی زد میں آ چکے ہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق یوروپ میں گرمی کی جو شدید لہریں چلی ہیں، ان سے گزشتہ پانچ سو برسوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ اس سنگینی کے باوجود امیر ممالک نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں کسی خاص سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان امیر ملکوں نے100 ارب ڈالر کا ایک فنڈ تیار کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کی مدد اس رقم سے کی جا سکے لیکن ابھی تک صرف83 ارب ڈالر ہی اکٹھے ہوئے ہیں اور مزید17 ارب ڈالر کی فنڈنگ باقی ہے۔ حالانکہ حسب وعدہ اس رقم کو دو سال قبل ہی جمع ہو جانا چاہیے تھا۔ انتونیو گوتیریس نے اپنی تقریر میں کوپ 27 میں شرکت کرنے والے لیڈران کو ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ وہ فنڈ کی فراہمی میں متعین شدہ وقت کا لحاظ رکھا جائے تاکہ تباہی کو بروقت روکا جا سکے اور متاثرہ ممالک کی مدد کا موثر انتظام کیا جاسکے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے مہلک نتائج کے تئیں لاپروائی کی ایک دوسری مثال یہ ہے کہ تیل، گیس اور کوئلہ سے انرجی ضروریات کی تکمیل کو مسلسل کم کرنے اور بالآخر اس کا استعمال روک دینا بھی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنے سے متعلق ایجنڈے میں شامل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یوکرین پر روسی جارحیت کے نتیجے میں پوری دنیا کو انرجی کے جس بحران سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس کی وجہ سے کوئلہ اور دیگر حجری ایندھنوں کے استعمال میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ فرانس اور جرمنی میں کوئلے سے انرجی پیدا کرنے والے جو وسائل برسوں سے بند پڑے تھے، ان کو دوبارہ سے کھول دیا گیا ہے۔ ایسی حالت میں حجری ایندھنوں کے استعمال کو بند کرکے صاف اور متبادل انرجی کو پیدا کرنے کا ٹاسک کتنا مشکل نظر آتا ہے، وہ جگ ظاہر ہے۔ یوروپ کے اسی دوہرے معیار کے پیش نظر افریقی ممالک کے لیڈران نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بھی کوئلہ کے ذریعے انرجی پیدا کرنے کی مکمل آزادی دی جائے، کیونکہ امیر ممالک نے ترقی کے مدارج طے کر لیے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اس وسیلے کا استعمال موقوف نہیں کیا ہے تو بھلا افریقی ممالک ہی ماحولیات کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر کیوں ڈھوئیں۔ یہی وہ چیلنجز ہیں جن کو حل کرنے کے لیے قابل عمل لائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا تاکہ دوہرے معیار کی بھینٹ پوری انسانیت نہ چڑھ جائے۔ خود ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں درجۂ حرارت میں تیزی محسوس کی گئی ہے اور دلی و راجستھان میں خاص طور سے درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ اتراکھنڈ اور نارتھ ایسٹ کے علاقوں میں مختلف قسم کے قدرتی آفات دیکھنے کو ملے۔ بارش کا اپنے وقت پر نہ ہونا اور قحط سالی کی وجہ سے کھیتوں اور فصلوں کا سوکھ جانا، زیر زمین سطح آب کا بہت نیچے چلا جانا اور جنگلوں اور ندیوں کا مسلسل تباہ ہونا ماحولیاتی تبدیلی کے کچھ اہم عناصر ہیں جن کا سامنا ہم ہندوستانیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ ضروری ہے کہ شجرکاری پر توجہ دی جائے، ندیوں اور تالابوں کو سوکھنے سے بچایا جائے اور شہر کا پلان تیار کرتے وقت ماحولیاتی حساسیت کو بطور خاص دھیان میں رکھا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو مزید سیلاب اور قحط سالی کے مسائل جھیلنے ہوں گے۔ سب سے زیادہ خطرہ ان ممالک کو ہے جو ساحلی سمندر کم اونچائی پر واقع ہیں، لہٰذا صنعتی دور کے آغاز سے قبل والے درجۂ حرارت یعنی1.5 ڈگری سیلسیئس تک روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے، ورنہ ہمارے پڑوسی ملک مالدیپ کا وجود اگلی صدی میں ختم ہو جائے گا۔ مالدیپ کو درپیش اس خطرے کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کے لیے محمد نشید نے اپنے دور صدارت میں زیر آب اپنے کابینی وزراء کی میٹنگ کی بھی کی تھی اور بتایا تھا کہ اگر عالمی برادری نے ماحولیاتی تبدیلی کے اس مسئلے کو حل نہیں کیا تو مالدیپ اور اس جیسے ممالک کا یہی مقدر ہونے والا ہے۔ اب شرم الشیخ میں عالمی لیڈران کا ایک بار پھر امتحان ہونے والا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جب دو ہفتے کی تکمیل کے بعد کوپ 27 کے فورم سے فیصلے لیے جائیں گے تو ان میں سنجیدگی کے عناصر نظر آئیں گے یا جھوٹ اور واہیات وعدوں کا طومار تیار ہوگا جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی راہ میں سرگرم عمل رہنے والی شخصیت گریٹا تھن برگ نے کہا ہے اور عالمی لیڈران کے تئیں اپنی بے اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے کوپ 27 کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ اگر واقعتا ایسا ہی ہوا جیسا کہ تھن برگ کا خیال ہے تو پھر اس دنیا کو جہنم زار ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا جس کا اظہار اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اپنی تقریر میں کیا ہے۔ n
( مضمون نگار سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا
ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS