عبدالعزیز
مغربی تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت رفتار و گرفتا ر اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے۔ اور مغرب کے جھوٹے معیار، جھوٹے نظریات اور جھوٹی اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیر ہ کر دیتی ہے اس طرح وہ اپنی فطری حریت، دلیری، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کر ایک احساس ِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مغرب کی بھونڈی تقلید کی کوشش میں وہ مغرب کی خرابیوں کو اپنا لیتے ہیں اور خوبیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ بتانِ عصر ِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ، نہ تراش ِ آزرانہ
مغربی تعلیم کا ایک بہت بڑا لمیہ یہ ہے اس نے عورت کو جذبہ امومیت سے بیگانہ کر دیا ہے۔ عورت اس فرض سے جان چرانے لگی ہے جونئی نسل کی تخلیق اور تعلیم و تربیت کی صورت میں قدرت نے اس کے سپرد کیا تھا یہ گویا قومی خود کشی کے مترادف ہے۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
استادوں کی گمراہی:مغربی تعلیم نے تدریس کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی ہے وہ خود بے راہ ہیں۔ وہ نہ ان علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں جو وہ پڑھاتے ہیں اور نہ تعلیم کے حقیقی مقاصد سے آشنا ہیں اور جسے خود راہ کی خبر نہ ہوگی وہ دوسرے کی رہنمائی کیونکر کر سکتا ہے اقبال نے ’’ضرب کلیم ‘‘ میں اساتذہ کے عنوان سے لکھا ہے۔
مقصد ہو اگر تربیت لعل و بدخشاں
بے سودہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
مختصر یہ کہ مغربی نظام تعلیم اقبال کی نظر میں سرتاپا بے مقصد اور لغو ہے اور قوم کے لیے زہر ِ ہلاہل کا اثر رکھتی ہے اس سے نوجوانوں کی تما م تر صلاحیتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔ اور قوم اپنی راہ سے یکسر بھٹک جاتی ہے۔
اقبال کا فلسفہ تعلیم:مروجہ دینی اور مغربی نظامہائے تعلیم کو ردکرنے کے بعد اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں کے لیے ایک ایسے نظامِ تعلیم کے خواہاں ہوتے ہیں جو ان کی خودی کی تربیت کر سکے ان کا فلسفہ تعلیم ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ’’طیف اقبال ‘‘ نے اس سلسلہ میں کہا ہے:
’’ اقبال نے اپنے نظریہ تعلیم میں طریق کار کا سلسلہ تربیت خودی پر مبنی کیا ہے خودی کی تربیت کے لیے ایک ایسانظام درکار ہے جس میں کلیت پائی جائے جس میں حواس کی تربیت، وجدان اور جذبے کی تربیت کا پہلو بھی ہو اور ان روحانی رشتوں کا احساس بھی جو نفس ِ انسانی میں قدرت کی طرف سے پائے جاتے ہیں تربیت خودی کے اس نظام کو اقبال نے ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموزبے خودی‘‘ میں اچھی طرح بیان کیا ہے ‘‘۔
اس طرح اقبال ایسی تعلیم کے حق میں ہیں جو خودی کی تربیت کرے اور اسے استحکام بخشے اور جو تعلیم ایسا نہ کر سکے وہ ان کے نزدیک نہ صرف بیکار ہے بلکہ نقصان دہ ہے۔
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اْسے پھیر
خودی ہو علم سے محکم تو غیر ت جبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
ایسی تعلیم جو اقبال کے اس معیار پر پوری اْترنے والی ہو وہ کیا ہو سکتی ہے اس سلسلہ میں اقبال نے خواجہ غلام حسین کے نام اپنے ایک ’’خط‘‘ میں وضاحت کی ہے۔
’’ علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہے عام طورپر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔‘‘
علم کے دو ذریعے:علم کے حصول کے دوذریعے ہیں ایک علم وہ ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا وہ جس کی بنیاد ایمان اور وجدان پر ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ دونوں باہم متصادم نہیں ہیں۔ بلکہ ان دونوں کا ارتباط ضروری ہے۔
جوہر میں ہو لاالہ تو کیا خوف…تعلیم ہو گو فرنگیانہ
تعلیم کا مقصد:اقبال کے نزدیک دینی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جس قدر دنیاوی تعلیم اور پھر دونوں کے درمیان گہرا ربط اور تعلق بھی لازمی ہے محض دینی یا صرف دنیاوی تعلیم اپنی جگہ کافی نہیں اور نہ انہیں علاحدہ رکھ کر بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اْن کے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ وہ انسان کی قلب ماہیت اور روحانی اصلاح کرکے اس کے اندر حفظِ خودی کی خوبیاں پیدا کر دے۔ اسے توحید، علم، عشق، بلند ہمتی، سخت کوشی، پاک دامنی، فقر، رواداری اور درویشی قناعت جیسی صفات سے آراستہ کرکے ایک مثالی انسان بنا دے۔
علم از سامان حفظ زندگی است
علم از اسبابِ تقویم خودی است
فیضانِ نظر:انسانیت کے بلند منصب کیلئے ضروری ،کتابی علوم کے علاوہ بزرگوں اور ان کے فیضانِ نظر کی تاثیر ہی وہ چیز ہے جو انسان کے قلب و نظر کی پرورش اور روشنی کیلئے لازمی چیز ہے اس کے بغیر مکتب کی تعلیم عموماً نا مکمل اور بے فائدہ رہتی ہے۔ او ر صاحب ِ قلب و نظر بزرگوں کی ایک نگاہ بعض اوقات ایسا کام کر جاتی ہے جو مدتوں کی مکتبی تعلیم بھی نہیں کر سکتی۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی!
تعلیمی مضامین: اقبال تعلیمی مضامین کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے نظام تعلیم کے خصوصیات یہ ہے کہ اس میں کلیت پائی جاتی ہے۔ مادے کو بھی روحانیت کو بھی، خدا کو بھی، انسان کو بھی اور نیچر کو بھی وہ سب چیزوں کو اپنی جگہ اہمیت دیتے ہیں۔
دینی علوم اور سائنسی علوم: اقبال کے نزدیک دین اور سائنس دو الگ الگ مضمون نہیں بلکہ ایک ہی مضمون کے دو حصے ہیں کیوں کہ قرآن نے بار بار مسلمانوں کو مطالعہ کائنات اور تسخیر فطرت کی دعوت دی ہے اقبال کے خیا ل میں دینی علوم، خدا، کائنات اور انسان تینوں کے مجموعی تشخص پر مشتمل ہیں اور انہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا اسی تصور کے زیر اثر اقبال نے ایک ایسے نظام ِ تعلیم کاخاکہ پیش کیا ہے جس میں دین، سائنس اور حکمت کو ایک واحد مضمون کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔
فلسفیانہ علوم: اقبال حکمت و فلسفہ کے باب میں ایک طرف سائنسی فلسفیوں کے ہم خیال ہیں جو فلسفے کے تصورات کو سائنس کے تجربات و انکشافات سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور دوسری طرف عینی ( آئیڈیا لسٹ ) فلسفیوں کے ہم رائے ہیں جو علم کے مقابلہ میں محض تعقل کو کافی نہیں سمجھتے اور ایک برتر سر چشمہ علم کی ضروت کو ناگزیر خیال کرتے ہیں یہی نقطہ نظر خالص سائنسی طریق کار کے متعلق ہے۔
تاریخ و روایات: اقبال نے تاریخ و روایت یا روایات کو اپنے تصور ِ تعلیم میں خاص جگہ دی ہے۔ تاریخ انسانی کردار کی تعمیر، ملت کی تنظیم اور حقائق کے انکشاف کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ا قبال کی نظر میں جو قومیں اپنی تاریخ و روایات سے بیگانہ رہتی ہیں۔ وہ اپنی ہستی گو گم کر بیٹھتی ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال نے ادبیات و فنونِ لطیفہ پر ’’ضرب کلیم ‘‘ میں ایک علاحدہ عنوان قائم کرکے کھل کر اظہار ِ خیال کیا ہے۔ وہ ان تمام فنون کو اپنے فلسفہ خود ی کے تابع گردانتے ہیں ان کے نزدیک وہی فن درست ہے جو قوتِ حیات کی ترجمانی کرے اور خودی کی نشو و نما میں ممدو معاون ثابت ہو۔
حاصل کلام:آخر تمام بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی نظر میں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کرکے اس کی تسخیر ِ حیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ ہی خدا، کائنات اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔ چنانچہ محض مادی یا محض روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا درست نہیں، روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور تعلیم کا فرض ہے کہ تن اور من دونوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی اور روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے اس کے ساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیر کائنات کیلئے تیار کرنا بھی ہے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا بھی کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد دے اور تعلیم کا آخری اور بڑا مقصد خودی کی تقویت اور استحکام ہے۔
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا
[email protected]