گجرات انتخاب اور شہریت قانون

0

آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات اپوزیشن جماعتوں کیلئے جتنے اہم ہیں، اس سے کہیں زیادہ بھارتیہ جنتاپارٹی کیلئے چیلنج کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ خاص کروزیراعظم نریندر مودی کی اپنی ریاست گجرات کے اسمبلی انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو غیرمتوقع طور پر سخت امتحان درپیش آگیا ہے۔ گجرات میں اہم اپوزیشن کانگریس عوام کی ترجیحات پر تیزی سے اپنا مقام بنارہی ہے تو دوسری طرف عام آدمی پارٹی بھی خم ٹھونک کر میدان میں کودپڑی ہے اوراس نے مقابلہ کو سہ رخی بنادیا ہے ۔
ہر چند کہ راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا میں مصروف ہیں، انتخاب کے دوران ان کے گجرات جانے کا امکان کم ہی ہے تاہم ووٹروںپر ان کی یاترا کے اثرات سے انکارنہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ان سب کے ساتھ گزشتہ 27 برسوں سے قائم بی جے پی کی حکومت کے خلاف مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل کا سامناکررہے عوام کے ایک طبقہ میں سخت بے چینی بھی پائی جارہی ہے ۔ اینٹی انکمبنسی یا اقتدار مخالف لہر بھی اپنا کام کررہی ہے۔ اکتوبر کے آخر میں ہونے والا موربی پل حادثہ جس میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے، بی جے پی کے نامہ اعمال میںایسا کالاداغ ہے جسے سفید کرنے کی ہر کوشش رسوائی کا نیا طوق ثابت ہوگی ۔
یہی وجہ ہے کہ موربی حادثہ کے اگلے ہی دن اور الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہونے سے ٹھیک پہلے بھارتیہ جنتاپارٹی نے گجرات کے ووٹروں کوپھر زیر دام لانے کیلئے بڑادائو کھیلا اور ریاست کے دو اضلا ع میں مہاجرین کو ہندوستانی شہریت دینے کا اعلان کردیا ۔یہ بی جے پی کا ایک ایسا دائوہے جسے کھیل کر وہ ہندوووٹوں کو بکھرنے سے بچانے کی کوشش کررہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اپنے ووٹروں کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہے ۔ مختلف مواقع پرسی اے اے اور این پی آر کو انتخابی موضوعات بنانے والی بی جے پی گجرات میں غیر مسلم مہاجروں کو ہندوستانی شہریت دینے کاکام اس قانون کے تحت نہیں کررہی ہے جس کا وہ شور مچاتی رہتی ہے ۔کیوں کہ اپنے طریقہ کار کی پیچیدگیوں، سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمہ اوردیگر مختلف وجوہات کی بنا پر 2019 کا متنازع شہریت(ترمیمی) ایکٹ ابھی تک نافذ نہیںہوسکا ہے۔ وزارت داخلہ اس ترمیم شدہ قانون کو عملی بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے ۔
تاہم بھارتیہ جنتاپارٹی کو یہ معلوم ہے کہ حالیہ برسوں میں اس کے ووٹروں میں ’شہریت کے حقوق‘ بہت اہم ہوگئے ہیں۔ اس کے ووٹریہ سمجھ رہے ہیںکہ بی جے پی حکومت ’ناپسندیدہ گروہوں اور برادریوں‘ کو شہریت کے حقوق سے خارج کرنے اور مزید ہندوؤں کو شہریت کے حقوق دینے کے طریقوں میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اگراس کا ہاتھ مضبوط کیاگیا تو یہ کام آسان ہوجائے گا اور ناپسندیدہ افرادکو شہریت سے محروم کرنے کی کارروائی تیزی سے عمل میںآئے گی ۔ لیکن اگر اس کیلئے 2019کے شہریت ترمیمی قانون کے عمل آور ہونے کا انتظار نہیں کیاجاسکتا ہے، اس لیے مرکز کی بی جے پی حکومت نے شہریت قانون1955کا استعمال انتخابی کارڈ کے طور پر کیا ہے۔ اسی تناظر میں بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے گجرات کے دو اضلاع آنند اور مہیسانہ میں رہنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جینوں، پارسیوں اور عیسائیوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔ علانیہ کے مطابق یہ کام شہریت قانون 1955 کی دفعہ 6 اور شہریت کے قواعد 2009 کی مختلف دفعات کے مطابق کیا جانا ہے۔ آنند اور مہیسانہ کے ضلع کلکٹر کو شہریت کیلئے رجسٹریشن کا اختیار بھی دیاگیا ہے۔
1955کا شہریت قانون ملک میں نفاذ آئین کے بعد شہریت کے حقوق یا اس سے محرومی کی بابت ہے اوراس قانون میں مسلمانوں کو خارج کرنے کی کوئی شق یا تجویز نہیں ہے ۔ یہ درحقیقت ایک ایسا غیر جانبدار اور مذہب کے حوالے سے غیر مشروط قانون ہے جس نے آزادی کے بعد ہندوستان کو ایک نئی شکل دی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس قانون میں کئی ایک ترمیم بھی ہوئی لیکن مجموعی طور پر یہ قانون کبھی تنازع کا سبب نہیںرہا۔ آج بی جے پی اسی 1955 کے شہریت قانون کا استعمال کرتے ہوئے گجرات میں اپنا انتخابی کارڈ کھیل رہی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب یہ قانون آج بھی اپنی اصل شکل میں استعمال ہورہاہے تو پھر اس میں 2019میںترمیم کرکے مذہب سے مشروط کرنے اور متنازع بنانے کی کیا ضرورت تھی ؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS