افسانہ : کچرا

0

زاہد مختار

صمد شیخ گلی کی نکڑ تک سارا کچرا ڈھوتے ڈھوتے یہی سوچ رہا تھا کہ باہر سے عالیشان دکھائی دینے والے ان گھروں کے اندر کتنی گندگی ہوتی ہے۔ وہ سارا کچرا ایک جگہ جمع کر کے اسے اس کچرے کے ڈبے میں جمع کرتا تھا جو گلی کی نکڑ پر شاہراہ کے کنارے میونسپلٹی والوں نے نصب کیا تھا لیکن ہر روز اس کچرے کے ڈبے کے پاس پہنچ کر صمد شیخ کو بار بار اپنے اندر ایک آواز گونجتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔وہ آواز جو اس کے جسم جگر کو چھلنی کر دیتی تھی۔
’تم کیا ہو اور تمہاری اوقات کیا ہے؟۔۔۔تم کچرا ہو۔۔۔ کچرا!۔۔۔‘ دلاور خان کی وہ آواز اکثر اس کے کانوں میں گونجتی تھی اور آج بھی اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے سارے وجود کو پہلے پرزے پرزے بکھیر دیا ہو اور پھر جھاڑو سے ڈھوکر اس کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا ہو۔
’کچرا۔۔۔‘ وہ خود سے خود ہی مخاطب ہوا کرتا تھا۔
کیا خطا تھی اس کی کہ اسے اس گھر سے دھکے مارمار کے باہر نکال دیا گیا تھا۔ یہی ناکہ اس نے بڑی جرأت کر کے تین مہینے کی تنخواہ کا تقا ضا کیا تھا اور بدلے میں وہ سیاسی بادشاہ اپنا فیصلہ صادر کر چکا تھا۔
’کچرے! ۔۔۔تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھ سے تقاضا کرو۔۔۔۔مجھ سے۔۔۔جو تم جیسے ہزاروں آدمی اپنے جوتے کی نوک پہ رکھتا ہے۔۔۔۔تم نے اپنے منہ میں یہ الفاظ لانے سے پہلے اپنی زبان کو دانتوں سے کیوں نہیں چبایا؟۔۔۔ جاؤ، دفع ہوجاؤ اس گھر سے۔‘
اور یوں صمد شیخ کو اس گھر کے کچرے کی طرح باہر پھینک دیا گیا تھا۔
صمد شیخ کے پورے وجود میں تب بھی آگ لگی تھی اور آج بھی اس کا روم روم جھلس رہا تھا لیکن قریب ہی ایک چھوٹے سے چوک کے آرپار دلاور خان کی ایک قد آدم تصویر کے ساتھ اس کی شان میں قصیدہ بیان کرتا ہوا ایک رنگین بینر صمد شیخ کی جلتی پر تیل چھڑ کتا ہوا جیسے اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔
’صمد شیخ!۔۔۔دیکھ، آنکھیں کھول کے دیکھ!۔۔۔ایک زمانے کا مشہور جنگل اسمگلر دلاور خان آج آسمان میںاڑ رہا ہے۔ وہ اب اس شہر کا ایک بار سوخ شخص ہی نہیں، ایک مشہور سیاستداں بھی ہے اور تم آج بھی اس کچرے کی طرح!‘ صمد شیخ نے ایک جھٹکے سے کچرے کے ڈبے کا ڈھکن بند کر دیا جیسے اپنے ذہن میں گونجتی آوازوں کا گلا دبا رہا ہو اور تلملاتے ہوئے گھر کی راہ لی۔
گھر کے آنگن میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنی چھ سال کی ننھی منی بیٹی میناکو ایک گڑیا کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا۔ پہلے تو اس کاما تھا ٹھنکا کہ کہیں مینا نے یہ گڑیا کسی سے چھین تو نہیں لی ہے لیکن پھر جب اس نے گڑیا کی حالت دیکھی تو اسے یہ احساس ہو گیا کہ میناکے ہاتھ میں تھمی ہوئی گڑیا کسی نے ردی سمجھ کے باہر پھینک دی ہوگی۔ ایسی کئی چیزیں وہ اپنے علاقے کی گلیاں صاف کرتے ہوئے جھاڑو کی زد میں آتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ اپنی بیٹی کو پہلی بار یوں خوش دیکھ کر صمد شیخ کے اندر ابلتا ہوا لاوا بھی کچھ ٹھنڈا پڑ گیا۔
مینا سچ مچ یہ گڑیا پا کر بہت خوش تھی۔ اسے یہ گڑیا اپنی ہی گلی کے نکڑ پر ملی تھی اور شاید پہلی بار اس کے بچپن کو کھلونے کا ایک حسین اور معصوم خواب مل گیا تھا۔ حالانکہ یہ گڑیا بھی تو ایک تار تار خواب کی مانند تھی۔ ایک ایسی گڑیا جس کے تن پر چیتھڑے بھی باقی نہیں بچے تھے جس کے با ل نوچے گئے تھے جس کی پلاسٹک ٹانگیں اور بازو دانتوں سے چبا چبا کر زخمی کر دیے گئے تھے جس کے خوبصورت سے چہرے اور بڑی بڑی آنکھوں کو بال پن سے بد نما بنادیا گیا تھا لیکن میناکے لیے وہ فقط ایک گڑیا تھی، ایک ایسی گڑیا جس کا اس نے صرف تصور کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس گڑیا کو گلی سے اٹھاکر جب گھر لائی تھی تو سب سے پہلے اس نے اسے نلکے پہ لے جاکر کپڑے دھونے کے صابن سے خوف رگڑ رگڑ کر دھویا تھا۔ پھر اس نے اس کے ارگرد ایک رنگین کاغذ لپیٹا تھا جو ایک دن نہ جانے کہاں سے ہوا میں تیرتا ہو ان کے چھوٹے سے آنگن میں گرا تھا اور ننھی مینانے اسے سنبھال کے رکھا تھا۔ شاید وہ ایک ایسی پتنگ کا پرزہ تھا جسے کسی چیل نے نوچ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہو۔ مینا نے گڑیا کے بازئوں اور ٹانگوں کی حتی المقدور ’مرہم پٹی‘ بھی کی اور یوں اسے خوبصورت نہ سہی لیکن قبول صورت بنا ہی دیا۔
میناگھر میں ہر روز تقریباً اکیلی ہی رہتی تھی، کیونکہ صمد شیخ سویرے گلی کوچوں کی صفائی کرنے کے بعد گھر آکے تلخ چائے کے کچھ گھونٹ پی کر میونسپلٹی کے دفتر چلا جاتا تھا اور مینا کی ماںزیباکچھ گھروں میں جھاڑو مارنے اور فرش وغیرہ دھونے کا کام کرتی تھی۔ یوں میناکی تنہا زندگی میں اس گڑیا نے جیسے رنگ بھر دیا تھا۔ وہ اس دن صبح سے دو پہر تک اس گڑیا کے ساتھ یوں منہمک رہی کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ اس کی ماں کب لوٹ کر چولہے کی الجھنوں میں یوںقید ہوگئی تھی کہ اس نے گڑیا اور مینا کی جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی ۔ مینابھی اپنی ماںکے تھکن بھرے چہرے سے بے نیاز اپنی اس نئی دنیا میں گم تھی جہاںوہ تھی اور اس کی گڑیا۔ آج اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا تھا، ورنہ وہ ہر روز ماں کے آتے ہی اس کے دامن سے لپٹ کر کسی نہ کسی کھانے کی چیز کا تقاضا کرتی رہتی تھی لیکن آج وہ کبھی گڑیا کو اپنی ننھی سے گود میں لٹاتی، کبھی اسے اس کی زخمی ٹانگوں پر استادہ کرنے کی کوشش کرتی اور کبھی اس کی الجھی زلفوں کو سنوارنے کا جتن کرتی۔
باہر دھوپ کی تمازت بڑھنے لگی تھی۔ مینا کو ایسا لگا جیسے اس کی گڑیا کو دھوپ نے تپش نے ادھ موا کر دیا ہو۔ وہ اسے اپنے ننھے سے سینے کے ساتھ چمٹا کر جوں ہی گھر کے اندر لے گئی عین اسی لمحے اس کا باپ صمد شیخ بھی غیر متوقع طور پردوپہر کو ہی گھر لوٹ آیا۔ صمد شیخ نے عجلت میں گھر کے اندر داخل ہوتے ہی گھر کا دروازہ بند کرتے ہوئے قریب ہی کسی کام میں مصروف زیبا کو دبے لہجے میں یہ کہانی سنائی کہ لوگوں کے ایک مشتعل ہجوم کو قابو میں کرنے کے لیے شہر میں آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے ہیں اور اب باہر کرفیو لگ چکا ہے۔
’کرفیو۔۔۔‘زیبا کے چہرے پہ حیرت تھی لیکن میناکچھ لمحے باپ کے چہرے کو تکنے کے بعد پھر گڑیا کو سنوارنے میںلگ گئی تھی۔
’یہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔‘ زیبا جھنجھلا کر اندر جانے لگی اور صمد شیخ نے بند دروازے پر کنڈی چڑھا دی۔
اس دن کے بعد تقریباً ایک ہفتے تک باہر کیا ہوا، اس بات کا کچھ کچھ احساس زیبا اور صمد شیخ کو کبھی کبھی در یچے سے باہر جھانکتے ہوئے ہو ہی جاتا تھا لیکن میناکو ان دنوں صرف ایک ہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ اس نے گڑیا کے تن پر جور نگین کاغذ لپیٹا تھا، وہ اب کہیں کہیں سے پھٹ چکا تھا۔ اسی لیے اب وہ اپنے والدین سے اس بات کا تقا ضا کرنے لگی تھی کہ وہ اسے گڑیا کے لیے ایک خوبصورت سافراک لاکر دیں۔ زیبا میناکی اس بات پہ تلملا اٹھتی تھی لیکن صمد شیخ اپنی بیٹی کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا کہ کرفیو ختم ہونے کے بعد جوں ہی بازار کھلے گا تو وہ اپنی بیٹی کی گڑیا کے لیے ایک خوبصورت فراک ضرور لائے گا اور یوں مینا اب کرفیو کا مفہوم نہ جانتے ہوئے بھی اس بلا کے خاتمے کی منتظر تھی۔
بالآخرسات دن کے بعد کرفیو میں دوگھنٹے کی ڈھیل دی گئی اور یوں صمد شیخ اس دن علی الصباح جب گلی کی صفائی اور گھر کی ضرورت کا سامان لانے کے لیے اپنی دہلیز پار کرنے لگا تو ننھی مینانے باپ کے فرن کا دامن پکڑتے ہوئے اس سے گڑیا کے لیے فراک لانے کی معصوم التجا پھر دہرائی اور۔۔۔ آج پہلی بار صمد شیخ کو یوں لگا کہ وہ جھوٹ بولنے کی چاہ کرنے کے باوجود بھی جھوٹ بول نہیں سکتا۔
میونسپلٹی نے شہر کے اطراف واکناف میں غلاظت اور کچرے کے جمع ہوئے ڈھیر کو صاف کرنے کا ہنگامی اعلان کردیا تھا اور یوں آج صمد شیخ کو اپنے علاقے کے چاروں طرف بکھرے کچرے کو صاف کرنے کے لیے جہاں صرف دو گھنٹے کا وقت ملا تھا وہیں اسے اس بات کا بھی غم ستائے جارہا تھا کہ اگر وہ اپنا روز مرہ کا کام وقت پہ ختم نہ کر سکا تو وہ کرفیو کی ڈھیل ختم ہونے سے پہلے نہ گھر کے لیے کوئی سامان لاسکتا ہے اور نہ ہی مینا کی گڑیا کے لیے کسی درزی کی دکان سے کپڑے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا، کیونکہ گھر سے نکلتے ہی بنا کوئی جھوٹ بولے اس نے یہی تہیہ کیا تھا کہ وہ اپنے محلے کے اسمال درزی کی دکان سے کپڑے کا ایک رنگین ٹکڑا مانگ کر زیباسے کہے گا کہ وہ مینا کی گڑیا کے لیے ایسا ویسا ہی سہی کوئی فراک ہاتھ سے سی لے لیکن آج اسمال درزی کی دکان بھی بندتھی اور علاقے کا ڈھیر سارا کچرا بھی جیسے اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔
کچھ دیر کے بعد جب صمد شیخ مشینی انداز میں گلی کا کچرا ڈسٹ بن کے قریب پہنچانے میں کامیاب ہوا تو اس نے کچرے کے ڈبے کا ڈھکن ہی غائب پایا۔ صمد شیخ کو اس ’واردات‘ سے اتنی حیرت نہ ہوئی جتنی اس بات سے کہ آج کچرے کے ڈبے کے پاس پہنچ کر اسے اپنے اندر دلاورخان کی زہر میں ڈوبی ہوئی آواز گونجتی ہوئی سنائی نہ دی۔ ایک لمحے کے لیے صمد شیخ مبہوت ہوکر رہ گیا لیکن جب اس کی نظر کچرے کے ڈبے میں پڑے رنگین بینرکے چند ٹکڑوں پر پڑی تو اسے یوں لگا جیسے نوجوانوں کا ایک مشتعل ہجوم نعرے لگاتا اپنے پیروں تلے سڑکوں اور گلیوں کے سارے ’نقش کہن‘مٹاتا ہوا گزر رہا ہو۔ اسی لمحے صمد شیخ نے اپنے علاقے کے اس چھوٹے سے چوک کی اور دیکھا جہاں آج دلاور خان کے بینر کے بچے ہوئے پزرے ہوا میں یوں لٹک رہے تھے جیسے کسی کے غرور کا ماتم منارہے ہوں۔ کچھ دیر بعد۔۔۔
صمد شیخ پر سکون انداز میں اپنے گھر کی دہلیز پار کر رہا تھا۔ کچھ گھر یلو سامان اور کچرے کے ڈبے سے اٹھائے ہوئے رنگین بینر کے چند ٹکڑے لے کر جن سے مینا کی گڑیا کا ایک فراک تو بن ہی سکتا تھا۔n
Al-Mukhtar House,
Nai Basti, Anantnag-192101

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS