اہم کیوں ہے کوپ 27؟

0

پہلے موسمیاتی تبدیلی کی باتیں سائنس داں، عالمی لیڈران اور دانشور طبقے کے لوگ ہی کیا کرتے تھے مگر گزشتہ برسوں میں اس کے منفی اثرات عام لوگ بھی محسوس کرنے لگے ہیں۔ گریٹا تھن برگ نے کم عمری میں ہی موسمیاتی تبدیلی پر تحریک چلاکر یہ احساس دلایا کہ آج کے بچے اور بچیاں بھی یہ جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے اگر ابھی سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے، اس کی روک تھام کے اقدامات کرتے وقت اگر ہر ملک نے اپنے مفاد کو پہلے رکھا تو دیر بدیر اس کا خمیازہ اسے بھی بھگتنا پڑے گا۔ یہ بدلتے حالات کا ہی اثر ہے کہ دو دہائی پہلے موسمیاتی تبدیلی پر منعقد ہونے والے اجلاس سے عام لوگوں کی اتنی زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی تھی جتنی دلچسپی اب رہتی ہے۔اسی لیے اس بار مصر کے شہر شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس پر عالمی برادری کی نظریں ہیں۔ یہ اجلاس 6 نومبر، 2022 سے شروع ہوکر 18 نومبر، 2022 تک چلے گا۔ اس اجلاس کو مختصراً کوپ 27(COP27) نام دیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں دنیا کے 90 ملکوں کے سربراہان اور 190 ملکوں کے نمائندے شریک ہوں گے۔ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ 1990 سے اجلاس منعقد کر رہا ہے۔ گزشتہ 30 برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے دنیا کو بچانے میں کس حد تک کامیابی ملی ہے، یہ ایک بحث طلب موضوع ہے، البتہ ان اجلاسوں سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب عالمی برادری کے لیے کوئی ایسا ایشو نہیں رہ گئی ہے جس کے بارے میں بتانا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، ذی ہوش لوگ یہ کوشش کرنے لگے ہیں کہ وہ ایسی سرگرمیوں سے باز رہیں جو موسمیاتی تبدیلی کو سنگین سے سنگین تر بناتی جا رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے دنیا کو بچانے کے لیے تحریکیں چلانے والے لوگوں کی تعداد 30 برس پہلے کے مقابلے بڑھی ہے۔ عام لوگ بھی اپنے لیڈروں کو یہ احساس دلانے لگے ہیں کہ وہ ایسی ترقی کے خواہاں نہیں ہیں جو ان کے بچوں کا مستقبل تاریک کر دے، انہیں خوف کے سائے میں جینے پر مجبور کر دے۔
موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے اجلاسوں سے ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ اس ایشو پر امریکہ اورفرانس جیسے ترقی یافتہ ملکوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گرچہ ڈونالڈ ٹرمپ کے وقت میں ایسا لگا تھا کہ امریکہ کے لیے اس ایشو سے کہیں زیادہ اہمیت اپنے مفاد کی ہے لیکن جو بائیڈن نے صدر بننے کے بعد یہ محسوس کرایا ہے کہ اگر امریکہ دنیا کے ساتھ نہیں چلے گا تو دنیا بھی اس کے ساتھ نہیں چلے گی، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ایسا ایشو نہیں جو امریکہ ہی تک محدود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی تشہیر کے دوران بھی بائیڈن نے اس ایشو پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا اور صدر بننے کے بعد بھی اب تک یہی احساس دلایا ہے کہ جب تک امریکہ کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے، موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے دنیا کو بچانے کے لیے امریکہ وہی رول ادا کرے گا جو ایک سپرپاور کو ادا کرنا چاہیے۔ بائیڈن کے امریکہ کا موقف مالدیپ جیسے ان ملکوں کے لیے راحت افزا ہوگا جہاں کے لوگوں کا موسمیاتی تبدیلی دل دہلاتی رہی ہے،کیونکہ سائنس دانوں نے یہ بات بڑی حد تک ثابت کر دی ہے کہ حالات اگر یہی رہے، اگر حالات میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی تو مالدیپ ہی نہیں، کئی اور ملکوں کو بھی زیر آب آنے میں دو سو برس بھی نہیں لگیں گے۔ کئی دوسرے ممالک جن کا پورا علاقہ زیر آب نہیں آئے گا تو ان کے کچھ شہر زیر آب آجائیں گے لیکن یہ سب مستقبل میں ہونے کا اندیشہ ہے، بات اگر آج کی کی جائے تو یہ موسمیاتی تبدیلی کا بھی اثر ہے کہ جنگلوںمیں پہلے سے زیادہ آگ لگنے لگی ہے۔ اس کی وجہ سے آکسیجن کی کمی ہو رہی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے سے زیادہ تباہ کن سیلاب آنے لگے ہیں اورتباہ کن سیلاب کسی ایک ملک کے لیے نہیں، کئی ملکوں کے لیے سنگین مسئلے کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی موسمیاتی تبدیلی کا ہی اثر ہے۔ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے مالی نقصان تو ہوتا ہی ہے، جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اس کے بالواسطہ اثرات بھی تباہ کن ہی ثابت ہوتے ہیں، اس لیے موسمیاتی تبدیلی پر کل سے مصر میں منعقد ہونے والا اجلاس واقعی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی برادری کی نظر اس بات پرہوگی کہ اس میں کیا فیصلے لیے جاتے ہیں۔ توقع یہی رکھی جانی چاہیے کہ اس میں کچھ امیدافزا فیصلے ہی لیے جائیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS