مرکزی الیکشن کمیشن نے قدرے تاخیر کے بعدگزشتہ روز گجرات اسمبلی الیکشن کے لیے تاریخوں کا اعلان کردیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق دو مراحل میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کے لیے یکم اور5دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور8 دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ8دسمبر کے روز ہی ہماچل پردیش اسمبلی الیکشن کے نتائج کا اعلان بھی کیا جائے گا، جس کے متعلق3ہفتوں قبل ہی اعلان کیا جاچکا ہے۔ ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج ایک ہی دن سامنے ا ئیں گے لیکن گجرات الیکشن کے اعلان میں3ہفتوں کی تاخیر پر مرکزی الیکشن کمیشن تنقیدوں کی زد میں ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے گجرات کے تعلق سے خصوصی رویہ اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کیا گیا ہے لیکن انتخابات کے اعلان میں تاخیر کا کوئی قابل ذکر عذر بیان نہیں کیا گیا ہے۔ 182 رکنی گجرات اسمبلی الیکشن میں حزب اقتدار بی جے پی اور حزب اختلاف کانگریس کے ساتھ عام آدمی پارٹی کی موجودگی سے مقابلہ سہ رخی ہونے کا امکان نظر آرہاہے۔ تاہم عام آدمی پارٹی کے حق میں پنجاب کا تجربہ گجرات اسمبلی الیکشن کو سہ رخی بنا سکتا ہے، جس کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔ زمینی سطح پر یہ مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی تسلیم کیا جارہا ہے۔ ایک طرف ریاست میں27سالہ اقتدار کے باوجود بی جے پی کے پاس عوام کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر موضوع موجود نہیں ہے، وہیں دوسری طرف حال ہی میں پیش آنے والے موربی بریج حادثہ نے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کردیاہے۔ حزب اختلاف کانگریس میں قیادت کی تبدیلی کے بعد گجرات اسمبلی الیکشن کی شکل میں نئے قومی صدر ملکارجن کھڑگے کو پہلے چیلنج کا سامنا درپیش ہے لیکن انہوں نے بھی ابھی تک الیکشن کے تعلق سے اپنے پتے نہیںکھولے ہیں۔ انتخابات کے اعلان کے بعد انہوں نے ریاست میں کانگریس کے اقتدار میں آنے کی صورت میں500روپے میں ایل پی جی سلنڈر کی فراہمی کا اعلان کیا ہے، تاہم یہ اعلان ریاست کے رائے دہندگان کو راغب کرنے کے لیے ناکافی محسوس ہورہا ہے۔ دوسری طرف گجرات اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان خواہ تاخیر سے ہوا ہو لیکن بی جے پی اس الیکشن کے لیے کافی قبل سے مصروف کار تھی۔ ماضی قریب میں وزیراعظم مودی کے گجرات دورے اور ریاست میں بڑے منصوبوں کا اعلان اس کے ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر سے گجرات منتقل ہونے والے بڑے صنعتی منصوبوں کو بھی گجرات الیکشن کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ27سالہ اقتدار کے بعد اب عوام کو صرف وعدوں کی سوغات پر نہیں ٹالا جاسکے گا۔ اس صورتحال میں ریاست میں پورے شدومد کے ساتھ یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑ دیا گیا اور یہی موضوع ریاستی الیکشن کے لیے بی جے پی کا سب سے بڑا ہتھیار بن سکتا ہے۔ اس سے قبل بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی کافیصلہ بھی گجرات اسمبلی الیکشن کے تناظر میں ہی دیکھا جارہا تھا لیکن یہ فیصلہ الٹا بی جے پی کے گلے پڑتا نظر آنے لگا اور اس کے خلاف انصاف پسند حلقوں کے ساتھ خود بی جے پی سے بھی آوازیں اٹھنے لگیں۔
کانگریس کی بات کی جائے تو ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی نے ابھی تک گجرات اسمبلی الیکشن کو درکار اہمیت نہیں دی ہے۔ جس وقت بی جے پی اسمبلی الیکشن کیلئے زمین سازی میں مصروف تھی، اس وقت کانگریس کے لیے سب سے بڑا چیلنج راجستھان میں پارٹی کے بکھراؤ کو ٹالنے کے ساتھ اقتدار کو برقرار رکھنا تھا۔ اسی دوران راہل گاندھی ملک گیر بھارت جوڑو یاترا پر نکلے ہوئے تھے جس میں گجرات کو نظر انداز کردیا گیا۔ اس کے بعد پارٹی میں ہونے والے صدارتی الیکشن نے گجرات الیکشن کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ اب نومنتخب صدر ملکارجن کھڑگے اپنی سب سے پہلی انتخابی آزمائش میں سرخرو ہونے کیلئے کس طریقہ کار پر عمل پیرا ہوں گے، وہ ابھی پردۂ راز میں ہے۔ کھڑگے کے اب تک کے طریقہ سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ وہ ریاستی سرکار کی ناکامیاں پیش کرنے کے بجائے اپنے وعدے عوام کے سامنے پیش کرنے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ بات اگر وعدوں تک محدود رہی تو بی جے پی کے پاس کانگریس کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوش کن وعدے موجود ہیں۔
اسمبلی الیکشن کے تیسرے فریق کی شکل میں اروند کجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی بھی ریاست میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اروند کجریوال نے گجرات کی سیاست میں انٹری کے ساتھ ہی بی جے پی کے سب سے مضبوط اور آزمودہ انتخابی ہتھیارہندوتوکو کند کرتے ہوئے اپنے آپ کو بی جے پی لیڈران سے بڑا ہندوتووادی بنا کر پیش کیا ہے۔ اروند کجریوال بخوبی واقف ہیں کہ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں راہل گاندھی کی جانب سے نرم ہندوتو اختیار کرنے کی حکمت عملی ناکام رہی تھی۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے پاس دہلی اور پنجاب کی شکل میں گجرات کے رائے دہندگان کے سامنے پیش کرنے کیلئے ایک بہترین گورننس ماڈل بھی موجود ہے۔ تاہم گجرات کے رائے دہندگان کے مجموعی مزاج کو راغب کرنے کیلئے دہلی اور پنجاب ماڈل شاید ناکافی ہوں۔ اس صورتحال میں عام آدمی پارٹی کے لیے گجرات میں پنجاب جیسے انتخابی نتائج کی توقع قبل از وقت ہوگی۔
مختصراً کہا جائے تو ملکارجن کھڑگے کی قیادت میں کانگریس گجرات اسمبلی الیکشن کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہے۔ بی جے پی اس الیکشن کے لیے بہت پہلے سے تیار ہے لیکن وہ ابھی تک انتخابی موضوع کے تعین میں الجھی ہوئی ہے۔ ہندوتو کا موضوع اروند کجریوال نے کند کردیا۔ گجرات ماڈل کا موضوع دوسری ریاستوں کے لیے خوش کن ضرور ہوسکتا ہے لیکن خود گجرات میں یہ موضوع موربی بریج کی لاشوں کے ساتھ دریا میں غرق ہوگیا ہے۔ اب کامن سول کوڈ کا موضوع موجود ہے جس پر خود بی جے پی کو بھی یقین نہیں ہے۔ رہی عام آدمی پارٹی تو وہ صرف اپنی موجودگی درج کرانے کیلئے انتخابی میدان میں موجود ہے۔ تاہم انتخابات میں ابھی کم و بیش2ماہ کاطویل عرصہ باقی ہے جو کسی بھی سیاسی الٹ پھیر کے لیے کافی ہے۔
[email protected]
گجرات اسمبلی انتخابات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS