ڈاکٹر سُرندرا سنگھ بھٹّی(تعمیرؔچنڈیگڑھی ) کی شاعری

0

تحریر :ڈاکٹر جوہرؔ قد ّوسی[سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج،جنوبی کشمیر]

انسان کے محسوسات و مشاہدات،قلبی واردات،لطیف احساسات اور جذبات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے۔ شاعری (Poetry) کا مادہ ’’شعر‘‘ ہے، جس کے معنی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے، لیکن حسّاس لوگوں کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ شاعری کا تعلق بھی حسّاس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے، لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا جدا جدا ہوتا ہے۔ ان ہی حساس لوگوں میں ایک شخصیت کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے،جن کا نام ڈاکٹر ایس-ایس-بھٹّی ہے اورجو ادبی دنیا میں اپنے قلمی نام تعمیرؔ چنڈیگڑھی سے شہرت رکھتے ہیں۔

تعمیرؔچندی گڑھی اپنے افکار و نظریات سے خوابِ غفلت اور نیم بیحوشی کے عالم میں پڑے ہوئے انسانوں کوبیدارکرنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا پورانام سُرندرا سنگھ بھٹّی ہے۔تعمیرؔؔ تخلص فرماتے ہیں اور چنڈی گڑھ سے وطنی نسبت کے سبب ’’تعمیرؔچنڈیگڑھی ‘‘کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ان کی پیدا ئش ۲۴؍جون ۱۹۳۸ء کو امرتسر میں ہوئی۔ ان کے والد محترم کا نام سردار بلونت سنگھ بھٹّی ہے،جن کی شہرت ایک باکمال فنکار، موسیقار، آرکیٹیکٹ اور بُت تراش کے طور پر ہے اور جن کے فیض سے اُن کے فرزندڈاکٹر تعمیرؔ فنون لطیفہ کی طرف نہ صرف مائل ہوئے،بلکہ ان فنون میں اپنے والد کی طرح کمال حاصل کیا،جس کا ایک ثبوت اُن کی اُردو شاعری ہے۔

ڈاکٹر تعمیرؔ بنیادی طور پرفنِ تعمیر کے ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر ہیں۔اُن کو اپنے شعبے کا مردِ میدان اور استاذ الاساتذہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اس شعبے میں اُن کے بے شمارشاگردپوری دنیا کے مختلف خطّوں میں اپنے نام اور کام کے سبب شہرت رکھتے ہیں۔فنِ تعمیر کے مختلف موضوعات سے متعلق اُن کی متعدد تصانیف شائع ہوچکی ہیں،جو عالمی سطح پر دادتحسین حاصل کرچکی ہیں۔شاعری اُن کی گھٹّی میں پڑی ہے۔شاید اِسی لیے اُن کے ایک درجن کے قریب  شعری مجموعے وجود میں آچکے ہیں،جن میں سے کچھ تشنۂ طباعت ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فنِ تعمیر جیسے غیر ادبی شعبے میں اپنی عمر کا بیشتر حصّہ گزارنے  کے باوجود اُن کی ادبی سرگرمیوں میں کبھی جمود نہیں آیا۔ اپنی گوناگوں اعلیٰ ذمہ داریوں کی وجہ سے اُن کی ادبی سرگرمیوں میں کمی ضرورآئی، البتہ کلی طور پر وہ شعر و ادب سے کبھی دور نہیں ہوئے۔

تعمیرؔ کی ادبی زندگی کا آغازعنفوان شباب ہی سے ہوا ۔اُن کا رحجان شاعری کی طرف تھا،جو آگے چل کر اُن کی شاندارغزلیہ شاعری کا سبب بن گیا۔اُن کےآغازِ شعر گوئی میں اگرچہ قدامت پسندی، تصنع اورتکلف سے لبریز ماحول پایا جاتا تھا،لیکن تعمیرؔ نے اپنے لیے ایک الگ راہ نکالی۔ ان کی شعری کائنات میں داخل ہونے کے لیے ان کے وسیع تر تصورِ شعر سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔اُن کی شاعری نہ تو کسی علمیت اور زعم سے بوجھل ہے اور نہ ہی بوجھل کرتی ہے۔ بہت آہستگی سے ایسے دل میں اترتی ہے جیسے کوئی راز اور کبھی فرحت اور کبھی کچھ دیر کو کسی فراموش یاد کا دُکھ بن جاتی ہے۔جدید فکرو روایتی اندازکا امتزاج، مقامی رنگ، منظر کشی کا حسین انداز، خوبصو رت الفاظ کا برمحل استعمال، اپنے تجربات، مشاہدات اور احساسات کو فکر کے رنگ میں رنگ کر اپنے طریقے سے بیان کرنا تعمیرؔچنڈیگڑھی کے کلام کی امتیازی خصوصیت ہے،جس کا مظاہرہ اُن کے کلام میں جگہ جگہ ہوتاہے۔

تعمیرؔچنڈیگڑھی ایک لحاظ سے ایک گوشہ نشیں شاعر ہیں۔ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ کسی قسم کی شاعری ہو، بہر حال شاعری تنہائی کی متقاضی ہوتی ہے۔  اکثر انہیں مشاعروں سے الگ دیکھاگیا ہے،اس کے باوجود وہ ایک باشعور اور باصلاحیت شاعر ہیں،جن کے اشعار کی خاصیت ان کا آسان اور سلیس زبان میں ہونا ہے۔یہ چند شعر ملاحظہ فرمائیں ؎

کِس حُسنِ بے نیاز کی دِل کو تھی جستجو

جس جستجو میں زندگی در زندگی گئی

******

مُردہ دِلوں نے زیست ہوس کو سمجھ لیا

تہذیبِ دورِ حال سے زندہ دِلی گئی

******

فسون و سحر ہے قلب و نظر پر حُسن کا ایسا

کہ پیغام محبت غمزۂ قاتل لگے مجھ کو

******

تنہائیوں میں یاد تری آئی کیا صنم

ظلمت کدۂ زیست چراغاں ہُوا کبھی

تعمیرؔ نے اپنی شاعری میں کلاسیکی روایت کی پاس داری بھی کی ہے اور ترقی پسندی اور جدیدیت کے رجحانات و اثرات کو بھی قبول کیا ہے۔ کلاسیکی، ترقی پسندی اور جدیدیت کی آمیزش سے ان کی شاعری کاایک منفرد رنگ و آہنگ وجود میں آیاہے۔ ان کے یہاں تخلیقی توانائی کا وفور بھی ہے اور فکری تازگی بھی۔ ان کے یہاں جمود و تعطل نہیں، بلکہ ایک تحرک و تموج ہے۔ ان کا زاویۂ نظر بہت وسیع ہے۔ ان کے کلام میں تفکر و تعقل، طنز و مزاح، حسن و عشق کی داستاں، عصری مسائل و موضوعات کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کے رموز و اسرار کی جلوہ گری بھی قاری کو نظر آتی ہے۔

تعمیرؔ کے یہاں عمدہ تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کا بھی ہنر مندانہ استعمال ہوا ہے۔ اُن کی شاعری کا ایک خوش گوار پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں آسان اور عام فہم الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ بھاری بھرکم تراکیب اورعربی فارسی کے مشکل الفاظ کے استعمال سے حتی الامکان احتراز کیا ہے۔ ان کی بیش تر غزلیں سہلِ ممتنع کے دائرے میں آتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی غزلیہ شاعری کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ انھوں نے ہندی الفاظ کو اس فن کارانہ اور ہنر مندانہ انداز سے اپنی غزلوں میں استعمال کیا ہے کہ ان کی غزلوں کا حسن دوبالا ہوگیا ہے۔ ان کی شاعری اپنے اسلوب و اندازکی دل کشی و رعنائی، فکری بلندی، فنی پختگی اور خیالات کی ندرت و جدت کی وجہ سے معاصر شعری منظر نامے میںایک منفرد مقام کی حامل ہے۔ ان کی شاعری میں بھر پور عصری حسیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے نظم و غزل دونوں صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے اور دونوں اصناف میں قابل قدر تخلیقات موجود ہیں، لیکن طبعی طور پر ان کا میلان غزلوں کی طرف زیادہ ہے۔ یعنی زلفِ غزل کی اسیری انھیں زیادہ راس آئی ہے۔ ان کے شعری مجموعے کے مطالعے کے بعد میں آپ بھی اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اُن کی شاعری کا اصل جوہر ان کی غزلوں ہی میں نمایاں ہوتا ہے۔

اب ان کی غزلوں کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور لطف اٹھائیں:؎

سیاست،رنگ و نسل، ذات و مذہب کی بنیاد پر تعصب اور تنگ نظری اور انسانیت کی ناقدری پر ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ؛کس قدر سچا شعر ہے:؎

شانِ انسانیت ہوتی ہے بُلند انساں سے

ورنہ کیا فرق رہے جانور اور اِنساں میں

اس عہد میں چہار سو افتراق و انتشار،خوف و ہراس اور اندیشہ و تشویش کا جو ماحول ہے،اس کے تناظر میں ان کا یہ شعر دیکھیں:؎

ہے دورِ تلخ و شوخ میں تشویش و انتشار

پھولے پھلے گا اس میں کوئی مردِ انکسار

آج عالمی سطح پر انسانی زندگی اخلاق و کردار سے عاری ہے۔اس نکتے کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے  :؎

وہ بھلا لائقِِ انسانیت کیسے ہوگی

زِندگی کا اگر اخلاق پہ آدھار نہیں

اِسی موضوع سے ملتا جلتایہ شعران کی باریک بینی کی دلیل ہے:؎

عرش پیما سہی اِنسان کے اوزارِ جدید

رفعتِ عرش سے اخلاق گِرا لگتا ہے

سرمایہ دارانہ نظام نے محتاجوں اور مفلوک الحال لوگوں کا ستیاناس کردیا ہے۔اہلِ زر کی سفاکی کا نقشہ اِس شعر میں کھینچا ہے:؎

ایمان کو بیچ کر ہی مقدّر خریدنا

ہے اہلِ زر کا کھیل غریبوں کو لوٹنا

شاعر آج کے اس پرفتن اور پرآشوب دور میں انسانیت،پیارو محبت اور کامیاب زندگی کے سراغ کا پیغام عام کرنے اور دل کی بستیاں آباد رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آفاقی صداقت کے حامل ان کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :؎

فردوس و جنّت و ارم اُس کو تو دے خدا

ضربِ پیام حق اگر دل پر غلام لے

******

درشن بھی دے اسے کبھی اے حُسنِ بے نیاز

دل کی زبان نام ترا صبح و شام لے

******

ناراضگی کا کچھ بھی سبب ہو صنم، مگر

تہذیب پر ہے لازمی میرا سلام لے

******

وہ ہے رضائے خالقِ دنیا سے آشنا

دشمن سے بھی کبھی نہ جو شخص انتقام لے

یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا،لیکن تعمیرؔ صاحب کی شاعری کی خوبیوں کا بیان ختم نہیں ہوگا۔اگلے صفحات میں کلام کا مطالعہ کرتے ہوئےقارئین کرام اِن خوبیوں سے خودبخود لطف اندوز ہوں گے اور ڈاکٹر تعمیرؔ کے افکارِ تازہ اور اسلوبِ بیان کی داد دیے بغیر نہیں رہیں گے۔

اُمید ہے کہ اِس بھاگ دوڑ کی زندگی میں،جہاں انسان کو پیار و محبت کا لٹریچر پڑھنے کے لیے بھی فرصت نہیں، تعمیرؔ کی شاعری کو خاطرخواہ پذیرائی حاصل ہوگی۔ ***

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS