حجاب پر ججوں میں اختلاف رائے کے باعث نہیں آیا سپریم کورٹ کا فیصلہ

0

ایک جج نے کرناٹک ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا،دوسرے جج نے فیصلے کو مسترد کردیاvاب معاملے کی سماعت بڑی بنچ کرے گی
نئی دہلی (ایجنسیاں) : سپریم کورٹ کرناٹک حجاب تنازع معاملہ پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں دے پائی ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے دونوں ججوں کی رائے مختلف تھی۔ جس کے بعد معاملہ بڑی بنچ کو سونپ دیا گیا ہے۔ اب حجاب کیس کی سماعت3 رکنی بنچ کرے گی۔ جہاں جسٹس ہیمنت گپتا نے پابندی کو برقرار رکھا اور فیصلہ دیا کہ حجاب ایک ضروری مذہبی عمل نہیں ہے، وہیں جسٹس سدھانشو دھولیہ نے پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبات کی تعلیم سب سے اہم ہے۔ سپریم کورٹ میں بنچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس گپتا (جواتوار کو ریٹائرہونے والے ہیں )نے کہا کہ ہمارے مختلف خیالات کی وجہ سے ہم معاملہ چیف جسٹس کو بھیج رہے ہیں تاکہ وہ بڑی بنچ تشکیل دے سکیں۔ جب انہوں نے اس درخواست کے خلاف اپنا فیصلہ دیا، جسٹس دھولیہ کی رائے مختلف تھی۔جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر 26 اپیلوں کو خارج کر دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ حجاب اسلام کا لازمی عمل نہیں ہے اور ریاست میں تعلیمی اداروں میں سر پر اسکارف پہننے پر پابندی کی اجازت دی گئی ہے۔ اپنی رائے میں اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس سدھانشو دھولیہ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا اور کہا کہ ضروری مذہبی عمل کا پورا تصور تنازع کے لیے ضروری نہیں ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی 10 دن تک سماعت کی۔ جس کے بعد 22 ستمبر 2022 کو فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ تب سے حجاب کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔بنچ کے چیئرمین جسٹس ہیمنت گپتا نے بھی کہا کہ وہ اب یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج رہے ہیں اور انہیں اس معاملے میں ایک مناسب بنچ تشکیل دینا چاہئے۔ موصولہ خبروں کے مطابق جسٹس گپتا نے نے کہا کہ ان کے خیال میں ان تمام سوالوں کا جواب درخواسست گزاروں کے خلاف ہے اس لئے وہ اس کے خلاف اپیل خارج کرتے ہیں۔ یعنی ان کی نظر میں کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ صحیح ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 19، 21 ، 25 کے تحت طلباکو کپڑوں کے انتخاب کا حق ہونا چاہئے؟ آرٹیکل 25 کی حد کیا ہے؟ ذاتی آزادی اور رازداری کے حق کی تشریح کیسے کی جائے؟
حجاب پر ججوں میں…………….
جسٹس دھولیہ نے اپنے سینئر جج کے برعکس رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حجاب پہننا ہے یا نہیںپہننا یہ مسلم لڑکیوں کی پسند کا معاملہ ہے اور اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کرناٹک حکومت کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبات کی تعلیم ان کے لیے اہم ہے۔ حجاب پر پابندی جیسے مسائل ان کی پڑھائی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ واضح ر ہے کہ حجاب پر پابندی کے خلاف اپیل کرنے والے فریق کی جانب سے یہ بھی دلیل دی گئی کہ یہ خواتین کے حقوق سے جڑا معاملہ ہے، اسے قرآن یا اسلام سے نہیں جوڑا جانا چاہیے، بچیوں کی تعلیم پر توجہ دی جائے۔ جسٹس دھولیہ نے کہا کہ فیصلہ لیتے وقت انہوں نے خاص طورسے دیہی علاقوں میں رہنے والی بچیوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک بڑا سوال تھا۔ کیا ہم ان کی زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں؟جسٹس دھولیہ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ انہوں نے بنیادی طور پر لازمی مذہبی عمل کے تصور پر زور دیا، جو تنازع کی بنیاد نہیں ہے۔ جسٹس دھولیہ نے کہاکہ حجاب معاملہ پر کرناٹک ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا۔ یہ آخرکارپسند اور آرٹیکل 14 اور 19 کا معاملہ ہے۔جسٹس سدھانشو دھولیہ نے کہا کہ انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف داخل درخواستوں کو قبول کر لیا ہے۔سپریم کورٹ میں دلائل کے دوران درخواست گزاروں کے لیے پیش ہونے والے متعدد وکیلوں نے اصرار کیا کہ مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر کلاس روم میں جانے سے روکنے سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ وہ کلاسوں میں جانا بند کر سکتی ہیں۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے مختلف پہلوو¿ں پر بحث کی، جس میں ریاستی حکومت کے 5 فروری 2022 کے حکم پر اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرنے والے لباس پہننے پر پابندی تھی۔کچھ وکلانے یہ بھی دلیل دی کہ اس معاملے کو 5ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا جائے۔ دوسری طرف ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے دلیل دی کہ کرناٹک حکومت کا حکم مذہبی غیر جانبداری پر مبنی ہے۔اس سال یکم جنوری کو 6 طالبات نے کہا کہ انہیں ا±ڈپی کے ایک گورنمنٹ پی یو کالج میں حجاب پہن کر کلاس روم میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے روک دیا گیا اور داخلہ سے منع کیے جانے پر وہ کالج کے باہر احتجاج کررہی تھیں۔ طلبانے پریس کانفرنس کی، جہاں ان کا کہنا تھا کہ اجازت مانگی گئی تھی لیکن کالج حکام نے انہیں حجاب کے ساتھ کلاس روم میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔جسٹس ہیمنت گپتا کے برخلاف بنچ میں ان کے ساتھی جسٹس سدھانشو دھولیہ کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے کیونکہ وہ بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد پڑھنے آتی ہیں اور حجاب پر پابندی کی وجہ سے اسکول اور کالج میں ڈراپ آو¿ٹ بڑھ گیا ہے اس لئے ان کی نظر میں ہائی کورٹ کو مذہبی ضرورت کے سوال پر نہیں جانا چاہئے تھا۔ اسے ذاتی انتخاب کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی رائے جسٹس ہیمنت گپتا سے مختلف ہے اور وہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہیں۔
کرناٹک ہائی کورٹ کافیصلہ:کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے معاملے میں 11 دن کی طویل سماعت کے بعد اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اسلام میں حجاب لازمی نہیں ہے۔ یہ اسلامی روایت کا حصہ نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں یونیفارم پہننا لازمی قرار دینا ٹھیک ہے۔ طلبا اس سے انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہائی کورٹ نے درخواست کو خارج کر دیا تھا۔ یہی نہیں عدالت نے حکومت کو احکامات جاری کرنے کا حق بھی دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومت کو مینڈیٹ جاری کرنے کا حق ہے۔کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتوراج اوستھی کی صدارت والی مکمل بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی تھی۔ بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اسلام میں خواتین کے ذریعہ حجاب پہننے کو ضروری نہیں بتایا گیا ہے۔ عدالت نے مزید کہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ نافذ کرنے کا مشورہ یا حکم دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS