بین الاقوامیمالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) نے ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کوخبردار کیا ہے کہ کسادبازاری کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اورسپلائی چینز سکڑرہی ہیں لہٰذا معاشی محاذ پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ادھر ہندوستانی معیشت کی شرح نمو کے سلسلے میں عالمی بینک نے اپنی پیش گوئی پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے مزید ایک فیصد کم کردیا ہے۔عالمی بینک نے پہلے اندازہ لگایاتھا کہ رواں مالی سال میں ہندوستانی معیشت کی حقیقی شرح نمو7.5فیصد رہے گی لیکن اب اس سے رجوع کرتے ہوئے حقیقی شرح نمو کے6.5فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ہندوستان پر کساد بازاری کی تلوارلٹک رہی ہے۔ عالمی بینک نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس یوکرین جنگ اور عالمی مالیاتی سختی کا اثر اقتصادی ترقی پر پڑے گا اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں نجی سرمایہ کاری میں کمی آئے گی نیز عالمی سطح پر طلب میں بھی کمی ہونے سے ملکی برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ان حالات سے ہندوستان کو بھی مفر نہیں ہے۔
دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کے طور پر ابھرے ہندوستان کیلئے یہ خبربظاہر چونکادینے والی ہے لیکن معیشت کے ماہرین اس کاخدشہ پہلے سے ہی ظاہر کرتے آرہے ہیں۔گزشتہ ہفتہ قبل ریزروبینک آف انڈیا(آر بی آئی) نے بھی اپنی پیش قیاسی میںایک فیصد کمی کردی تھی اور معیشت کی بہتری کیلئے شرح سودمیں اضافہ کا فیصلہ کیاتھا۔آر بی آئی کے اس قدم سے حالات میں کوئی جنبش نہیں ہوئی بلکہ زرمبادلہ کی قیمت مزید بڑھ گئی، ایک ڈالر 82.23 روپے تک جاپہنچا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پوری دنیا کا مالیاتی نظام اور سرمایہ کی بنیاد پر کھڑی معیشت کے قدم لڑکھڑارہے ہیں۔ پہلے تو دو سال تک کورونا وبا کے اثرات نے معیشت کومنہدم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی، اس کے بعد روس یوکرین جنگ نے اپنے اثرات ڈالے اور دنیا بھر کی معیشت خطرے کی زد میںآگئی۔ توانائی کی قیمتوںمیں مسلسل اضافہ دیگر بنیادی اخراجات بھی بڑھا رہا ہے۔ ہر صنعت اور ہر جنس میں افراط زر سرایت کرچکا ہے اور مسلسل اپنی جڑیں مضبوط کررہا ہے۔دوسری طرف اس مالیاتی غیریقینی صورتحال سے نمٹنے کیلئے دنیا بھر میں سخت مالیاتی پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں۔ عالمی تجارت مسلسل سست ہو رہی ہے، بازارکا شیرازہ بکھر رہا ہے اور سپلائی چینز برباد ہو رہی ہیں۔
ایک طرح سے دیکھاجائے تو معیشت کے محاذ پر دنیا کے تمام ممالک ایک ہی کشتی پر سوار ہیں لیکن اس کے باوجود ہندوستان کی صورتحال بظاہر اتنی خطرناک نظر نہیںآرہی ہے لیکن تشویشناک ضرور ہے۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان میں زرمبادلہ کے ذخائر ہماری ضروریات کی خریداری کا بار اٹھاسکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک؟
آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستانی بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو گئی ہے۔ گھریلو سرمایہ کار بھی غیر یقینی کے شکارہیں اور منڈیوں میں سرمایہ کاری کیلئے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔دوسری جانب ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر بھی خطرناک حد تک گر رہی ہے۔ مہنگائی کا دبائو شدت اختیار کر رہا ہے، اجناس کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں اور یہ براہ راست مہنگائی کا باعث بنی ہے۔ ہندوستان کا صنعتی پیداوار کا اشاریہ جولائی میں 2.4 فیصد تک آپہنچا ہے۔ اگست میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کے بنیادی شعبے توانائی، فولاد اور کھاد میں پیداوار کی شرح نمو 3.3 فیصد رہی جو پچھلے9مہینوں میں سب سے کم ہے۔ برآمدات میں بھی مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔ ستمبر مہینہ میں انجینئرنگ کے سامان کی برآمدات میں 17 فیصد اورپارچہ جات کی برآمدات میں 31.5 فیصد کمی درج کی گئی۔ادھربڑھتی شرح سود کے اثرات عام آدمی پر پڑرہے ہیں۔بے قابو افراط زر کو کنٹرول کرنے کیلئے آربی آئی شرح سود بڑھا رہاہے اور نتیجتاً کساد بازاری جنم لے رہی ہے۔اپریل میں جی ایس ٹی کی وصولی 1.68 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچنے کے بعد، اس کے بعد کے چار مہینوں میں وصولی1.5 لاکھ کروڑ روپے کا ہدف حاصل نہیں کرسکی۔مودی حکومت کی معاشی پالیسیاں بھی کچھ ایسی رہی ہیں کہ ہندوستان کی معیشت میں وہ نتائج نہیں نکلے جن کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔لاک ڈائون کھلنے کے بعد شاندارمعاشی ترقی کا مژدہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ صورتحال وبا کے اثرات کا عارضی مظہر ہے لیکن ان کا تسلسل حکومتی دعوے کو غلط ثابت کررہا ہے۔اب معیشت کی بحالی کی امیدوں کی جگہ کساد بازاری کی تشویش نے لے لی ہے۔ان حالات میں حکومت، آر بی آئی اور دیگر ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے انتباہ کو سنجیدگی سے لیں اور مالی بحران، مہنگائی اور کسادبازاری سے نمٹنے کے فوری اقدامات کریں۔
[email protected]
آئی ایم ایف کا انتباہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS