پروفیسر عتیق احمدفاروقی
آج دنیا کے زیادہ تر حصو ں میں حجاب نے ایک مسئلے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ برطانیہ ،فرانس،امریکہ ،نیوزی لینڈ،ایران، افغانستان اورہندوستان میں حجاب سے متعلق واقعات اخباروں کی سرخیاں بن رہے ہیں۔ایران میں رقص کرتی ہوئی، گانے گاتی ہوئی، نعرے لگاتی ہوئی، سرسے حجاب اتارکر سڑکوں پر جلاتی ہوئی خواتین اور لڑکیوں کا غیرمعمولی منظر سب نے دیکھا۔دوسری طرف ہندوستان میں لڑکیاں اسکول کے باہر حجاب پہنے ہوئے احتجاج کرتی ہوئی کلاس کے باہر بیٹھی ہوئی داخلہ کا انتظار کررہی تھیں۔یہ نظارہ بھی غیرمعمولی تھا۔غیر ملکی خبررساں ادارے اے-ایف-پی کے مطابق مہسااینی ایران کی ایک خاتون کو اخلاقی پولیس نے حجاب نہ پہننے کے سبب گرفتار کرلیاتھاجس کی پولیس حراست میں موت ہوگئی۔ اس سلسلے میں دوطرح کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ مہسااینی کی موت پولیس حراست میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ۔ دوسری خبر یہ ہے کہ اس کی موت پولیس کے تشدد سے ہوئی ۔ بہر حال سچ جو بھی ہو اس واقعہ سے پورے ملک میں احتجاج ومظاہرے کا سلسلہ شروع ہوچکاہے اورحکومت بے رحمی سے اس تحریک کو کچل رہی ہے۔ یہاں تک کہ حقوق انسانی تنظیموں نے بھی تشویش کا اظہار کیاہے ۔ ہندوستان میں کرناٹک کے ایک اسکول کا وہ واقعہ سبھی کو یاد ہے جب حجاب پہنے ہوئے ایک طالبہ نعرۂ تکبیر بلندکرتے ہو ئے اسکول احاطہ میں داخل ہو رہی ہے اوراس کے سامنے ہندتوا تنظیم سے تعلق رکھنے والے بھگوادھاری طلباء غصہ کی حالت میں کھڑے اس کو دیکھ رہے تھے ۔ پتہ چلاکہ ایک طرف حجاب کے حق میں احتجاج ہورہاہے تودوسری طرف حجاب کے خلاف مظاہرہ ہورہاہے ۔ سوشل میڈیا کے مبصرین نے دونوں کے تضاد کو محسوس کیا۔ ایران میں حجاب کو اتارنے کی حمایت میں مظاہرہ ہورہاہے اورہندوستان میں حجاب پہننے کیلئے احتجاج ہورہاہے۔ علمی نظریہ سے ان دونوں چیزوں میں کوئی خاص تضاد نہیں ہے۔ دونوں ممالک میں بنیادی نکتہ ایک خاتون کا منتخب کرنے کا اختیار ہے۔ یعنی کسی خاتون کو حجاب پہننے یا نہ پہننے کی پوری آزادی ہونی چاہیے۔ منتخب کرنے کی آزادی جمہوریت کی جان ہے۔ اس میں کوئی جنسی تفریق بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اگرکوئی خاتون حجاب پہننے میں اپنی بھلائی سمجھتی ہے تو وہ پہنے۔ اگرکوئی لڑکی حجاب نہ پہننے میں آرام محسوس کرتی ہے تو وہ نہ پہنے۔ ہاں اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ ایسا لباس نہ پہنے جس سے جسم کی نمائش ہو کیونکہ اس سے مردوں کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ اب وہ مرد جوشریف ہیں ، معاشرہ میں ایک حیثیت رکھتے ہیں، مہذب ہیں وہ تو اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھتے ہیں لیکن وہ افراد جو جاہل اورمجرمانہ ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں وہ زنااورقتل کی واردات کربیٹھتے ہیںا وراخباروں کی سرخیاںبنتے ہیں۔ حجاب معاملات میں حکومت کو دخل نہیں دینا چاہیے۔ دراصل حجاب کا تعلق ایک مذہب اورایک نظام فکر سے ہے۔
ایسے وقت میں جب کوئی مذہب اکثریت کی طاقت کا خطرہ جھیل رہاہو، ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمان جو متعدد شعبوں میں مثلاً تعلیم،صحت،ملازمتوں وغیرہ میں بیحد پسماندہ ہیں، ان کی خواتین کیلئے حجاب ثقافتی شناخت کی علامت ہے۔ دراصل آرایس ایس چیف بھاگوت کی امام کونسل کے چیئرمین سے ملاقات اوراُن کا مدرسے کا دورہ مسلمانوں کی ’ مین اسٹریم سے‘ علاحدگی کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ مسلمانوں میں کتنا اعتماد پیدا کرسکتے ہیں ۔جب تک وہ مسلمانوں کو اعتماد میں نہیں لیںگے تب تک اس طرح کی مشق سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسے سیاسی چال کے سوا کچھ نہیں سمجھاجائے گااورمسلمان اعتماد میں تبھی آئیں گے جب آرایس ایس اپنے بنیادی نظریہ میں تبدیلی لائے جو کہ ناممکن ہے۔
حجاب سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہاتھا کہ حجاب اسلامی نظریے سے لازمی نہیں ہے۔ لہٰذا اسکولوں میں یونیفارم کے ساتھ حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ابھی پتہ نہیں کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر عدالتِ عظمیٰ کا کیارد عمل ہوگالیکن ایک بات واضح ہے کہ تعلیم کا حق اورلڑکیوں کو یونیفارم سمیت حجاب پہننے کی اجازت دینے کے بیچ انتخاب کرنا کوئی مشکل عمل نہیں ہے۔ کیا جو لڑکیاں حجاب پہنناچاہتی ہیں ان کی دلچسپی تعلیم حاصل کرنے میں نہیں ہے ؟بالکل ہے۔ میں ان لڑکیوں کو جانتاہوں جنہوں نے حجاب پہن کر تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیاہے اوراپنے خاندان کا نام روشن کیاہے۔ تعلیم کا حق اورحجاب پہننے یانہ پہننے کا حق دونوں میں کوئی تضادنہیں ہے۔ دونوں کا نفاذ ممکن ہے ۔مطالبہ حجاب پہننے یا نہ پہننے کا ہے، برقعہ پہن کر گھر بیٹھنے کا نہیں ہے۔ موٹے طور پر لڑکیوں کو اظہار خیال ، تنہائی اورخود مختاری کے بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ ہندوستان یاایران میں بہت سے لوگ جو اس خود مختاری کی مخالفت کررہے ہیں۔ حکومت بے مثال احتجاجی کی تحریک کو کچل رہی ہے۔ مستند ذرائع کے مطابق اب تک قریب 76 افراد مارے جاچکے ہیں۔
ہندوستان میں بھگوا شال اوڑھے ہوئے مرد حجاب پہنے ہوئے عورتوں اورلڑکیوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ یہ بھی ایک سرقبیلی ریاست ہے جواس بات کی توثیق کرتی ہے کہ اس کے پاس بناحجاب کے یونیفارم کو تھوپنے کا اختیار ہے بھلے ہی اس قدم سے مسلم لڑکیوں کو کلاس روم میں داخل ہونے کے حق سے محروم کردیاجائے۔ ایک تعلیمی ادارے کاکام جامع ہوناچاہیے جس میں سبھی کی شمولیت ہو۔سبھی کیلئے ،جوتعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں اس کے دروازے کھلے ہونے چاہئیں۔ بند نہیں ہونے چاہئیں۔
[email protected]
ملک وبیرون ملک میںحجاب پر سیاست
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS