فیصل حبیب
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد 9ربیع الاوّل 53 قبل ہجری مطابق 20 اپریل 571 ء بروز پیر شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپؐ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے تھے اور عرب کے مشہور قبیلے قریش سے آپ کا تعلق تھا۔
حضور ؐ اپنے والدین کے اکلوتے بچے تھے، آپؐ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد محترم عبداللہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ آنحضرت ؐ کے دادا عبدالمطلب نے خود بھی یتیمی کا زمانہ دیکھا تھا، اپنے 24سال کے نوجوان فرزند عبداللہ کی اس یادگار کے پیدا ہونے کی خبر سنتے ہی گھر میں آئے اور بچے کو خانہ کعبہ میں لے گئے اور دعا مانگ کر واپس لائے۔ ساتویں دن قربانی کی اور تمام قریش کو دعوت دی۔دادا نے ’محمد‘ نام رکھا، لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ نے اپنے خاندان کے سب مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نام کیوں رکھا؟ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا پوتا دنیا بھر کی ستائش وتعریف کے قابل بنے۔
آنحضرتؐ یتیم پیدا ہوئے تھے، اس طرح جب آپؐ 6برس کے ہوئے تو والدہ حضرت آمنہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے آپؐ کی پرورش کی، لیکن 2سال بعد وہ بھی اس دنیا سے چل بسے۔ اس طرح آنحضرتؐ8 سال کی عمر ہی میں پہلے باپ اور ماں اور پھر دادا جیسے پیارے عزیزوں کی محبت سے محروم ہوگئے۔ آخر میں آپؐ کے چچا ابوطالب نے آپؐ کی پرورش کی ذمہ داری لی اور آپؐ ان ہی کی سرپرستی میں جوان ہوئے۔اُس زمانے میں عرب میں چونکہ پڑھنے اور لکھنے کا رواج نہیں تھا، اس لئے آنحضرتؐ نے بھی کچھ نہیں پڑھا۔ قریش کا سب سے بڑا پیشہ تجارت اور کاروبار تھا، اس لئے جب آپؐ بڑے ہوئے تو اپنے چچا کے ساتھ تجارتی سفروں پر جانے لگے اور اس سلسلے میں شام، یمن اورغیرممالک کا سفر بھی کئے۔
رسول پاکؐ شروع ہی سے ہر قسم کی بری باتوں سے بچتے رہے، نہ شراب پی اور نہ جوا کھیلا۔بت پرستی بھی نہیں کی، جس کا عرب میں عام رواج تھا، ہمیشہ سچ بولتے تھے، جس کی وجہ سے لوگ آپؐ کو صادق یعنی سچا کہہ کر پکارتے تھے۔ ایمانداری کا یہ حال تھا کہ مکہ کے لوگ آپؐ کے پاس روپے، پیسے، زیور وغیرہ بطور امانت رکھتے تھے۔ اس طرح آپؐ امین کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔
آپؐ کی ایمانداری کو دیکھ کر اس وقت کی مشہور خاتون حضرت خدیجہ الکبریؓ نے آپؐ کو اپنے مال کی تجارت کے غرض سے ملک شام کی طرف بھیجا۔ جب آپؐ سامان فروخت کرکے واپس آئے تو حضرت خدیجہؓ پر آپؐ کی ایمانداری کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے شادی کا پیغام دے دیا۔ اس وقت آپؐ کی عمر 25سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر40سال تھی، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے اپنے چچا سے مشورے کے بعد حضرت خدیجہؓ سے شادی کرلی۔
جب شہر مکہ اور عرب کے لوگ شراب نوشی، لوٹ مار، قتل وغارت گری، جوا اور طرح طرح کے بے حیائی و بے شرمی کے کام میں ملوث تھے، تب آنحضرتؐ ان تمام برائیوں سے بچتے تھے اور اپنا وقت اچھے کاموں میں صرف کرتے تھے، شادی کے بعد آپؐ مکہ کے قریب ایک پہاڑ پر چلے جاتے تھے اور ایک غار جس کا نام ’حرا‘ ہے، وہاں کئی کئی دن تک رہ کر اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ آخر ایک دن اللہ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپؐ کے پاس بھیجا، جس وقت آپؐ غار حرا میں عبادت کررہے تھے۔ یہ نبوت ملنے کا وقت تھا، اس وقت آپؐ کی عمر 40سال تھی۔ جب خدا نے اپنا پیغام بندوں تک پہنچانے کیلئے آپؐ کا انتخاب کیا تو آپؐ نے سب سے پہلے اس کام کی شروعات اپنے گھر والوں سے کی۔ آپؐ کی بیوی حضرت خدیجہؓ، چچا زاد بھائی حضرت علی ابن ابی طالبؓ، آپ کے دوست حضرت ابوبکرؓ صدیق اور آپ کے غلام حضرت زیدؓ کو آپؐ کی صداقت پر اتنا بھروسہ تھا کہ فوراً اسلام لے آئے۔ آنحضرتؐ اسی طرح خاموشی سے 3 سال تک تبلیغ کرتے رہے اور اس مدت میں تقریباً 40 لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔
3سال تک خاموشی سے تبلیغ کرنے کے بعد آنحضرتؐ نے خدا کے حکم سے علی الاعلان تبلیغ شروع کردی۔ آپؐ نے مکہ کے تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ اگر تم مجھے امین اور صادق سمجھتے ہو تو میری بات مانو، ایک اللہ پر ایمان لے آؤ اور بت پرستی چھوڑ دو، لیکن بت پرستی تو عربوں کے رگوں میں شامل تھی، ان کو رسولؐ کی یہ بات ناگوار گزری اور آپؐ کی بات ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اس طرح انہو ںنے اللہ کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس لئے وہ اسلام نہیں لائے اور کافر کہلائے۔ ان لوگوں نے آپؐ کو ستانا اور پریشان کرنا شروع کردیا۔اس طرح آپؐ نے اپنا تبلیغی مشن جاری رکھتے ہوئے طائف کا سفر کیا، جو مکہ سے 40میل دور ایک پہاڑی مقام ہے، طائف والے مکہ والوں سے بھی سنگ دل نکلے۔ انہوں نے آپؐ کا مذاق اڑایا، پتھر مار مار کر شہر سے نکال دیا۔ آنحضرت ؐ نے 23 سال تک اسلام کی تبلیغ کی، 13 سال مکہ میں اور 10سال مدینہ میں۔ مکہ میں آپؐ کو قدم قدم پر تکلیفوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، ان تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بھی آپؐ نے باطل کے آگے سر نہیں جھکایا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد جب مصیبتوں کا زمانہ ختم ہوگیا اور وہ وقت بھی آگیا، جب آپؐ پورے عرب کے حکمراں بن گئے تو بھی آپؐ کی زندگی میں کوئی بدلاؤ اور فرق نہیں آیا۔ اب اگر آپؐ چاہتے تو بادشاہ کی طرح زندگی گزار سکتے تھے، لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا۔ آپؐ کا سارا وقت یا تواللہ کی عبادت میں صرف ہوتا یا تو لوگوں کی فلاح وبہبود کے کاموں میں۔ رسول اللہؐ کی زندگی قرآن مجید کا عملی نمونہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی زندگی کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے ’اسوۂ حسنہ‘ قرار دیا ہے۔ رسولؐ نے کبھی کسی کو کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہیں دیا، جس کو آپ ؐخود نہ کرتے ہوں، پہلے آپؐ خود عمل کرتے تھے، اس کے بعد دوسروں کو عمل کرنے کی ہدایت دیتے تھے۔ آپؐ کی زندگی سادگی کی زندگی تھی۔ تمام بدعات وخرافات سے الگ اور پاک تھی۔ اس لئے ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم آپؐ کی زندگی کو اپنا نمونہ بنائیں اور ان تمام خرافات سے دور رہیں، جن کا ثبوت آپؐ کی زندگی میں نہیں ملتا ہے۔ اس طرح آپؐ آخری وقت تک خدا کی دین کی دعوت دیتے رہے اور 12 ربیع الاوّل بروز پیر 632 ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
[email protected]
رسول اللہ ؐ کی حیات پوری کائنات کیلئے اسوہحسنہ ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS