پروفیسر اخترالواسع
ادھر کچھ دنوں سے کچھ ریاستی سرکاروں نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور مسلمانوں کو خوف وہراس کے عالم میں ڈالے رکھیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اتر پریش سرکار کے ذریعے مدارس کا سروے بھی ہے۔ مدارس کے زعماء بالخصوص حضرت مولانا ارشد مدنی اور مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا ہے کہ اس میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ سروے میں جو اطلاعات سرکار چاہتی ہے، وہ اسے فراہم کر دی جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مؤقف بالکل فطری بھی ہے اور منطقی بھی، کیونکہ آپ کے پاس جب چھپانے کو کچھ نہیں ہے تو پھر ڈر کاہے کا لیکن راقم الحروف شروع سے ایک بات کہتا رہا ہے کہ اسے بھی سرکار کی اس نیتی سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن سرکار کی نیت کے بارے میں وہ ایک طرح سے شش و پنج کا شکار ہے، کیونکہ اگر سروے ہونا ہی ہے تو صرف مدارس کا ہی کیوں ہو؟ دوسرے اداروں کا کیوں نہیں؟ پھر جو مدرسے آپ سے امداد نہیں لیتے ہیں، آپ کے رحم و کرم پر نہیں ہیں، آپ کی طرف دست طمع دراز نہیں کرتے ہیں، ان سے کسی طرح کی جواب دہی کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟
انگریزوں نے جب اس ملک میں سیاسی بساط کو الٹا تو صرف حکومت ہی پر قبضہ نہیں کیا بلکہ اپنے طریقۂ تعلیم اور طریقۂ علاج دونوں کو مسلط کرنے کے لیے ہندوستانیوں کے قدیم نظام تعلیم اور علاج معالجہ کے پرانے طریقوں کو ایک طرح سے بے دخل کرنا چاہا۔ یہی وہ وقت تھا جب ہمارے علماء نے، جو جنگ آزادی کے مجاہد بھی تھے، بجا طور پر یہ سوچا کہ وہ ملک کو سیاسی اقتدار کی بے دخلی سے تو نہیں روک پائے، کم از کم اپنی آنے والی نسلوں کے دین و ایمان کو بچانے کا سامان تو کرلیں۔ اسی سوچ کے نتیجے میں 30 مئی 1866 کو دیوبند کے قصبے میں چھتہ والے مسجد میں انار کے درخت کے نیچے ایک استاد اور ایک شاگرد سے وہ سعی محمود سامنے آئی جسے دنیا آج ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استاد ملا محمود تھے اور طالب علم محمود حسن، جو بعد میں اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود حسن کے نام سے جانے گئے۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان علماء نے بوریہ نشینی اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی میں امیدیں قلیل لیکن مقاصد ہمیشہ جلیل رکھے۔ اپنے گھروں میں چاہے اجالا کم کیا ہو لیکن ہندوستانی مسلم سماج کے غریب بلکہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے لوگوں کے بچوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور کسی قدر خواندہ بناکر ان کے مستقبل کو روشن کیا۔ انہوں نے یہ تعلیم اس طرح فراہم کی کہ کھانا، پینا، اوڑھنا، بچھونا، لباس اور سر پر چھت مع نصاب عام طور پر مفت فراہم کیا۔ تحریک آزادی کے دوران اپنے نوجوان طالب علموں میں بیرونی تسلط کے خلاف جذبات بیدار کیے اور ساتھ ہی ساتھ قومی اتحاد کی تعلیم دی۔ اسی لیے جب تحریک پاکستان کے قائد محمد علی جناح نے یہ کہا کہ ’قومیں مذہب سے بنتی ہیں‘ تو اس وقت یہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ہی تھے جنہوں نے ببانگ دہل اس کی تردید کی اور کہا کہ ’قومیں مذہب سے نہیں، وطن سے بنتی ہیں۔‘ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ آج انہیں مدارس پر شک کی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں، ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ یہ سلسلہ آج کا نہیں ہے بلکہ بہت پرانا ہے۔ آزادی کے بعد سب سے پہلا چھاپہ دارالعلوم دیوبند ہی پر پڑا تھا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً مدارس کو لے کر طرح طرح کی مخالفانہ آوازیں بلند ہوتی رہیں لیکن اس سوئے اتفاق ہی کہیے کہ جب شری ایل-کے-اڈوانی نائب وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے تمام تحقیقات کرانے کے بعد پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا تھا کہ مدارس میں کوئی مشتبہ چیز نہیں پائی گئی اور ان کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں، وہ صحیح نہیں ہیں لیکن ادھر ایک بار پھر اترپردیش، آسام ، کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں کوئی نہ کوئی ایسا کام کیا جاتا ہے جس سے کہ مسلمانوں کی شبیہ متاثر ہو، مدارس پر شک کیا جائے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اس ملک کی عظمت کو بنائے رکھنے کے لیے اتنے ہی فکرمند رہتے ہیں جتنا کہ کوئی بھی دوسرا ہندوستانی۔ مسلمانوں کے نزدیک ہندوستان صرف مادر وطن ہی نہیں بلکہ ان کا پدری وطن بھی ہے، کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق جب حضرت آدمؑ جنت سے دنیا میںبھیجے گئے تھے تو وہ ہندوستان ہی میں آئے تھے۔ دوسرے یہی وہ ملک ہے جہاں سے بقول اقبالؔ میر عرب (پیغمبر اسلام ﷺ) کو ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں اور آج بھی بلا کسی اختصاص کے جب مسلمان اپنے کسی پیارے کو مرنے کے بعد دفن کرنے جاتے ہیں اور تین مٹھی مٹی اس کی قبر پر ڈالتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: 1- ہم اسی مٹی سے آئے تھے۔ 2- ہم اسی مٹی میں جائیں گے۔ 3- اور اسی مٹی سے اٹھائے جائیں گے۔ اسی لیے تو مولانا الطاف حسین حالیؔنے کہا تھا کہ:
تیری اک مشت خاک کے بدلے
لوں نہ ہرگز اگر بہشت ملے
لیکن مٹھی بھر سرپھروں کو کون سمجھائے، حکومتوں کو کس طرح بتائیں کہ سرکاریں اور مٹھی بھر جنونیوں جو گنگا جمنی تہذیب اور مذہبی ہم آہنگی کا خیال کیے بغیر ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنانے کی فکر کرتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو نہیں اس دیش کے سیکولر جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے اور پھر یہ بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی جدید تعلیم کے حامی ہیں اور مدارس کے فاضلین پوری طرح جدید تعلیم حاصل کریں، اس سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، جامعہ ہمدرد نئی دہلی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد اور انتہا یہ کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی نے مدارس کے فارغین کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں، وہ اس سے استفادہ بھی کر رہے ہیں، قومی زندگی میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ ہمیں جس طرح قومی تعمیر کے لیے ڈاکٹر، انجینئر، سماجی اور انسانی علوم کے ماہرین، سائنس کے میدان میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے والے چاہئیں اسی طرح مسلمانوں کو اپنی مذہبی ضرورتوں کے لیے امام، مؤذن، قاضی اور مفتی بھی چاہئیں اور سرکاروں کو اس میں ان کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے، نہ کہ روکاوٹیں ڈالنی چاہیے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف تو کچھ مدارس کے لیے بعض حکومتوں نے ریاستی مدرسہ بورڈ بنا رکھے ہیں اور دوسری طرف وہ مدرسے جو ان سے کچھ نہیں مانگتے، ان کے سروے کرائے جا رہے ہیں۔ یہ سروے کیوں کرائے جا رہے ہیں؟ اس کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کی وضاحت کوئی نہیں کر رہا ہے اور اس سے غلط فہمیوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور مسلمانوں کو ورغلانے اور انہیں خوف دلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔n
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیزہیں)