بھارت جوڑو یاترا اور میرا موقف

0

یوگیندر یادو
تاریخ کے اس نازک دور میں ہمیں کسی کے ساتھ بغض نہیں رکھنا چاہیے۔ میں پال سیملسن کی طرح ہر ایک سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں جب حالات بدلیں تو ہمیں اپنا تجزیہ بھی بدلنا چاہیے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آ پ نے ایسا نہیں کہا تھا کہ کانگریس کو مر جانا چاہیے؟ آج لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کیا آج آپ جب کانگریس کے ساتھ چل رہے ہیں تو اس کا کیا جواز ہے؟ آپ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا کے ساتھ کیوں چل رہے ہیں؟
پچھلے تین ہفتے سے میں اس سوال کا سامنا کررہا ہوں۔ میرے ناقدین میرا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ میڈیا کے لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ان کے مشکل سوال کو نظرانداز کردوں گا۔ اگرچہ یہ سوال کسی حد تک درست لگتا ہے مگر اس سوال کا جواب بالکل سیدھا آنا چاہیے۔ یہ کوئی شہ مات کا کھیل نہیں ہے۔ جیسا کہ وہ تصور کرتے ہیں اور نہ ہی میرے موقف میں کوئی بڑی تبدیلی یا کوئی یوٹرن آیا ہے۔
اس کی وجہ بالکل سیدھی ہے۔ زیادہ تر مبصرین نے میرے پورے تبصرے کو پڑھنے کی یا سننے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ ان کوتو صرف یہ یاد ہے کہ میں نے کہا تھا کہ کانگریس کو ختم ہونا چاہیے تھا اور آج وہ دیکھ رہے ہیں کہ میں راہل گاندھی کے ساتھ ان کی بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوں۔ ان کو یہ لگتا ہے کہ اس کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں بچتی ہے اور بس اسی نقطے پر استدال ختم ہوجاتا ہے۔ گویا کہ یہ کوئی ریاضی کا سوال ہو۔
میرے کہنے کا مقصد کیا تھا؟
ان تین الفاظ کے بعد بھی میرے جملے میں 41اور الفاظ تھے جو میں نے 19مئی 2019کے اپنے ٹوئٹ میں کہے تھے۔ میں نے کہا تھا ’ کانگریس کو ختم ہوجانا چاہیے۔ اگر وہ الیکشن میں بی جے پی کو ختم کرنے اور ہندوستان کو بچانے میں ناکام ہوتی ہے تو اس پارٹی کے لیے ہندوستان کی تاریخ میں کوئی مثبت رول نہیں بچتا ہے، آج کے حالات میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو اس کے متبادل کے سامنے آنے میں کھڑی ہے۔
دو دن بعد میں نے اپنے اس ٹوئٹ کے بارے میں 1123الفاظ پر مشتمل ایک آرٹیکل میں بتایا جو کہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا تھا۔ میں نے بتایا کہ یہاں پر موت کے کیا معنی ہیں؟ متبادل سیاست اس وقت تک کھڑی نہیں ہوسکتی جب تک ہم وہ کام نہ شروع کردیں جو ایک زمانے میں کانگریس نے کیا تھا۔ آج جب ایسا لگتاہے کہ کانگریس کا وجود ہی ختم ہورہا ہے ۔ میرے خیال میں اس وقت موت کے معنی کو اسی انداز میں سمجھنا چاہیے۔ میں نے یہ بات واضح کی تھی کہ کانگریس کی مخالفت کوئی نہ تبدیل ہونے والا موقف نہیں ہے ۔ کانگریس کی مخالفت محض ایک قلیل مدتی حکمت عملی تھی نا کہ کوئی نظریاتی اساس تھی۔ نہ ہی یہ کانگریس کی قیادت پر حملہ تھا۔ راہل گاندھی بہت سے ایسے سیاست دانوں سے زیادہ مخلص ہیں جن سے میں ملا ہوں اور وہ کئی لوگوں سے زیادہ ذہین ہیں۔ میرے خیال میں میرے اوپر تبصرہ کرنے والے لوگوں نے ان نکات پر غور نہیں کیا۔
میرے ناقدوں کا استدال بالکل سیدھا تھا۔ ’ میرا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی قیادت میں جو بی جے پی آج کھڑی ہے وہ ہماری بنیادی آئینی اقدار جمہوریت اور تہذیبی رنگا رنگی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔۔۔کانگریس چونکہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے تو اس لیے اس کے اوپر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ہماری جمہوریت کو لاحق خطرے کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔۔۔کیا کانگریس نے 5سال میں اپنی تاریخی ذمہ داری کو نبھایا اور وہ کیا اس پر عائد بہتر مستقبل کی تعمیر میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکے گی؟ میرا جواب باکل واضح تھا کہ نہیں۔ کانگریس اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی ہے ۔ لہٰذا کانگریس پر میرا یہ الزام تھا کہ وہ بنیادی توقعات پورا کرنے میں ناکام ہے جو اس کو بی جے پی کا سامنا کرنے اور ہندوستان کو اس وجود کو بچانے کے لیے کرنا چاہیے۔ یہی وہ بات تھی جس کی میں توقع کررہا ہوں۔ اس بھارت جوڑو یاترا کو میری دی جانے والی حمایت غیر مشروط نہیں ہے۔ میں نے اپنے جن دوستوں ، رضاکاروں، دانشوروں کے ساتھ بھارت جوڑو یاترا کی حمایت میں جو بیان جاری کیا ہے اس میں کہا ہے کہ میں اس بھارت جوڑو یاترا کی اس لیے حمایت کررہا ہوں کیونکہ یہ ہندوستان کے آئین اور اقدار ، پر امن جمہوری کے لیے مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے نکالی جارہی ہے۔ اس بیان میں بالکل واضح کیا گیا ہے کہ’ میں بھارت جوڑو یاترا کو اس لیے حمایت دے رہا ہوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ آئین کے اقدار کو بچانے کے لیے ہم اپنا موقف واضح کردیں ۔ ہم کسی پارٹی یا اس کے لیڈر کے ساتھ اظہار یکجہتی نہیں کررہے ہیں بلکہ ہمارا مقصد ان ہی اقدار کا تحفظ ہے۔
بدلا کیا ہے؟
لہٰذا میرا بنیادی مقصد تبدیل نہیں ہوا ہے۔ میری شروع سے ہی یہ رائے ہے کہ ہم کو ایسی سیاست کی تلاش کرنی چاہیے جو کہ آئینی اقدار کا دفاع کرتی ہو اور ایسے حالات میں دفاع کرتی ہو جب ہمارے سامنے بی جے پی اور آر ایس ایس حملہ آور پوزیشن میںہیں۔ پھر میں نے کانگریس کی طرف دیکھا اور آج بھی میری تلاش اس پارٹی پر ختم ہوگئی جوکہ ہندوستان کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے اور جس کی چھاپ پورے ملک پر پڑی ہوئی ہے۔
میرے موقف میں تبدیلی آئی ہے ۔ اس وقت میں نے کانگریس کو صرف اس لیے رد کردیا تھا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ اصل مرض کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہوگا۔اس وقت مجھے نظرآیاتھا کہ کانگریس بالکل ناکام ہوچکی ہے۔ بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس تاریخی ذمہ داری ادا کرنے میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ تب اور اب میں ایسی کیا تبدیلی پیش آگئی۔
کانگریس یا میں ؟
2019کے لوک سبھا الیکشن میں ناکامی کے بعد آج میرا موقف بدلا ہوا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہندوستان کی حالیہ صورت حال اور ماضی قریب کے حالات کو سمجھنے میں میرا موقف بدلا نہیں ہے۔ میں اپنا موقف کیوں تبدیل کروں ۔ فی الحال اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ میں اس وقت یعنی 2019میں لوک سبھا الیکشن میں حالات کو دیکھ کر مایوس تھا اور غصے میں تھا۔ میں اس وقت بی جے پی مخالف خیمے کے ہر شخص اور بشمول خود پر اس صورت حال کے لیے الزام لگا رہاتھا۔ لیکن اس وقت سوال یہ اٹھ رہا تھا جو کہ ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اس کو سب سے زیادہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور اتفاقاً ّْٓٓایسا ہوا بھی۔ مجھے اس بات پر قطعاً افسوس نہیں ہے کہ میں نے اس وقت کرپشن کے خلاف تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی اور نہ ہی اس بات پر مجھے افسوس تھا کہ ہم نے اس وقت اس تحریک کو ایک سیاسی جماعت میں تبدیل کردیا تھا۔ (میں نے اس وقت لکھا تھا کہ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ ہم نے اپنی پارٹی کو ایسے ناکارہ لوگو ںکے ہاتھ میں سونپ دیا تھا۔)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ تین سال میں کانگریس میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ کیا میں اس بات پر یقین کرتا ہوں کہ ہماری جمہوریت اور اقدار کو لاحق خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا یہ پارٹی ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس کا سیدھا اور آسان جواب ہوگا کہ مجھے نہیں معلوم۔ دوسروں کی طرح میں ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ سوال میں نہ صرف یہ کہ کانگریس کے لیڈر سے پوچھ رہا ہوں بلکہ اس یاترا میں شامل لوگوں سے بھی پوچھ رہا ہوں۔ میں اس سوال کا جواب ہر ایک سے پوچھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ کانگریس کے لیڈرخاص طور پر راہل گاندھی سیکولرزم ، سماجی انصاف اور اقتصادی برابری کے امور پر بالکل واضح موقف رکھتے ہیں۔ ان کے موقف میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
میں نے یہ دیکھا ہے کہ کانگریس نے دیگر سیاسی جماعتوں ، تحریکوں سے وابستہ افراد اورتنظیموں کو یاترا میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کانگریس کی قیادت بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ صرف انتخابات میں اور سیاست میں بلکہ نظریاتی طور پر بھی تیار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیایہ ممکن ہے، یہ ہمارے دور کا سب سے پیچیدہ معمہ ہے۔ سوال کانگریس پارٹی کے لیے بھی ہے۔ یہ سوال ہمارے پورے ہندوستان کے لیے ہے۔ مگر اس وقت اس سوال کے فوری جواب کی امید کرنا جلد بازی ہوگی۔
گزشتہ تین سال میں اگر کچھ بدلا ہے تو وہ مجموعی طور پر ہندوستان بدلا ہے۔ ہندوستان بہت بڑے پیمانے سے بدلا ہے۔ آج ہم ایک نازک مقام پر کھڑے ہیں۔ جہاں ہمارا آئین،جدوجہد آزادی کے دور کی ملی جلی وراثت اور ہماری ثقافتی وراثت دائو پر لگی ہوئی ہیں، یہ صرف حکومت یا جمہوریت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ تمام خطرے کی زد میں ہیں۔ تاریخ کے اس دوراہے پر آپ کسی کے ساتھ بغض یا جھگڑا نہ کریں آپ اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملائیں جو اس آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ آپ بال سیمولیسن کی طرح ہر ایک کو بتائیں کہ حالات کب بدلیں گے ہم اپنا نقطۂ نظر بھی بدلیں گے۔
آپ کا کہنا ہے؟
میں نے کانگریس کو ایک زمانے میں متبادل کے سامنے آنے کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا تھا۔ میرا کہنا ہے کہ بی جے پی مخالفت نہ کہ غیر کانگریسی ماحول ایک متبادل پیدا کرسکتا ہے۔ یہ امید گزشتہ تین سال میں نہیں پیدا ہوئی ہے۔ ہم تمام لوگ جو متبادل کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں، ایک سیاسی حربہ کی اختراع کے لیے جو سیاسی طور پر بھی ہو اور اخلاقی طور پر بھی۔ اب تک یہ ایک سیاسی متبادل اور اخلاقی متبادل پیدا نہیں کرپایا ہے۔ کچھ علاقائی پارٹیاں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آئی ہیں۔ مگر یہ سیاسی پارٹیاں قومی سطح پر متبادل پیدا نہیں کرسکتی ہیں۔ عوامی تحریکیں اپنی توانائی اور جرأت کے باوجود بی جے پی کی انتخابی مشین کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ آئندہ دو سال کے لیے کانگریس اور دیگر مین اسٹریم پارٹیاں ہمارے جمہوری نظام کو بچانے کا ذریعہ ہوسکتی ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جن لوگو ں کو یہ یا دہے کہ ’ کانگریس کو ختم ہوجانا چاہیے۔‘ان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ میں نے اپنے آرٹیکل کے اختتام پر کیا کہا تھا۔ میں نے جائزہ لیا تھا کہ کس طرح کانگریس کے اندر او ر کانگریس کے باہر (مزاحمت کے خلاف لڑنے کی) توانائی کے امکانات کیا ہیں جو ایک نئے متبادل کے سامنے آنے میں رول ادا کرسکتا ہے۔
موت کی سیاہ علامت ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ یا نئے دور کی آمد کا عندیہ دیتی ہے ۔ کیا بھارت جوڑو یاترا حیات نو کا موقع ثابت ہوگی۔
مضمون نگار سوراج انڈیا سوراج ابھیان کے بنیاد گذار اور سماجی رضاکار ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS