نعیم الدین فیضی برکاتی
جسدِ ملت میںفرقہ پرستی اور تفرقہ بازی کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک اثرات کا کماحقہ احساس وادراک ضروری ہے، بلکہ اس کے تدارک اور ازالے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے گرد و پیش میں تیزی سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں، ان کی نزاکت اور سنگینی اس امر کی متقاضی ہیںکہ ہم نوشتہ دیوار پڑھیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض وعناد اور اختلاف و انتشار کا قلع قمع کر کے باہمی محبت ومودت، اخوت و یگانگت اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکن سعی کریں کہ اسی میں ہماری بقا اور فلاح و نجات مضمر ہے۔
مسلمان اپنے تشخصات کے ساتھ اگر ایک مرکز پر باہم متحد ہونا چاہیں تو ان کے اشتراک کی بنیاد صرف اور صرف حضور رحمت عالم ؐ کی غیر مشروط غلامی و محبت، مخلصانہ اطاعت و وفاداری اور آپ کی سنت وسیرت کی مکمل پیروی اور اتباع ہے۔ محض عقیدہ تو حید کی بنیاد پر مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق ممکن نہیں۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے پرستار تو یہودی اور دیگر الہامی مذاہب کے پیروکار بھی ہیں۔ توحید کے دعویدار تو بہت لوگ ہیں مگر جو نسبت ہمیں اور سارے لوگوں کو دو الگ امتوں میں تقسیم کرر ہی ہے وہ فقط نسبت نبوی ؐ ہے۔ اور یہی حقیقی توحید کا عملی تشخص ہے جو ہم کو عیسائیوں اور یہودیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ صرف یہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس پر شرق وغرب کے مسلمانوں کو باہم متحد و منظم کیا جا سکتا ہے۔ارشاد نبوی بھی اس بات کی طرف رہنمائی کر رہا ہے:
جس نے حضور ؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے حضور کی نافرمانی کی یقینا اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور نبی پاک ؐ لوگوں(مومن وکافر)کے درمیان وجہ امتیاز ہیں۔ (صحیح البخاری)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اختلاف و انتشار سے منع کر تے ہوئے وحدت کے فلسفہ کو یوںبیان فرماتا ہے:
اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ اور اپنے اوپر اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے الفت ومحبت ڈال دی اور تم ایک دوسرے کے بھائی بن گئے، اور تم دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اور اللہ اسی طرح تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پا جاؤ۔
اس کی تفسیر میں بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ کی رسی خود نبی کریم ؐ ہیں ۔ جیسے کنواں میں گرا ہوا آدمی رسی پکڑ کر باہر آجاتا ہے ایسے ہی بھٹکے اور متفرق لوگ نبی معظم ؐ کی نسبت والی رسی کے ذریعہ ایک اور متحدہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اتحاد واتفاق کا مرکز نبی پاک سے امت کا تعلق ہے۔ اور وہی اتفاق مؤثر بھی ہے جو اللہ و رسول کی اطاعت پر کیا جائے۔ ان کا رستہ چھوڑ کر اتحاد کرنا ،اتحاد نہیں بلکہ بے کار کوشش کرنا ہے اور اتفاق کے اصولوں سے بغاوت بھی۔
اسلامی معاشرے کو صحیح خطوط پر منظم کر نے کی ذمہ داری صرف ایک فرد کی نہیں ہے بلکہ تمام امت پر ڈالی گئی ہے۔ حضور نبی رحمت ؐ کی بعثت مبارکہ تمام نسلِ انسانی کے لیے ہے۔ اس لیے اجتماعیت کا تصور اسلام کی فطرت کا جزو لا ینفک ہے۔ اجتماعیت اسلام کے رگ وریشہ میں اس طرح سمائی ہوئی ہے کہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد، ہر جگہ اس کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ حضور ؐ کی سیرت طیبہ بھی اسی مقصد کی غماز اور آئینہ دارہے۔ آپ ؐ فرماتے ہیں:
مسلمانوں کی باہمی محبت اور رحمت ومودت کی مثال ایسی ہے جیسے ایک ہی جسم ہو، جس میں ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو ساراجسم بے خواب و بے آرام ہوجاتا ہے۔(مسلم شریف)اس حدیث شریف میںاتحادکا کتنا شاندار درس و ہدایت اور طریقہ کار موجود ہے کہ جس طرح ایک جسم کے مختلف اعضاء اپنی جداگانہ حیثیت اور انفرادیت کو بر قرار رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے درپے آزار نہیں ہوتے، بلکہ پورے جسم کے لیے تقویت کاباعث بنتے ہیں۔ بالکل اسی طرح حضور ؐ کے ارشاد کے مطابق تمام امت ایک جسم ہے اور افراد اسکے اعضاء ۔جسم کا ایک عضو بھی تکلیف اور درد میںمبتلا ہو تو بقیہ اعضاچین اور آرام سے نہیں رہ سکتے۔ درد اگرچہ جسم کے ایک حصہ میں ہو تا ہے مگر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے۔ یہی رشتہ وتعلق ایک مسلمان فرد کاملت اسلامیہ سے ہونا چاہیے جو آنکھ کا پورے جسم سے ہو تا ہے۔ یہی اجتماعی درد کا وہ لازوال رشتہ ہے جو ملت اسلامیہ کے افراد کی کثرت کووحدت میں بدل دیتا ہے۔ جیسے جسم کا کوئی حصہ دوسرے سے برسر پیکار نہیں ہوتا بلکہ تمام اعضاجسم کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے ہمہ وقت متحد اور مستعد رہتے ہیں۔ بلکہ ہر ایک کی حفاظت کی ضمانت دوسرے عضو کی حفاظت میں مضمر ہوتی ہے،مگر افسوس !مسلمانوں کے مختلف فرقے اور طبقے جو ملت کے جسم کے الگ الگ عضوہیں۔ ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو کرنہ صرف ملت کی اجتماعی سلامتی، ترقی اور تحفظ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ بلکہ گہرائی سے دیکھاجائے تو اپنے وجود کو بھی تباہ وبرباد کر رہے ہیں۔ مختلف طبقوں اور فرقوں کی مثال ان ندی و نالوں جیسی ہے جو ایک ہی دریا سے فیضیاب ہو رہے ہیں، اسی دریا کی روانی سے ان کا بہاؤ جاری وساری ہے۔ اگر دریا ہی خشک ہو گیا تو اپنا وجود کب برقرار رہے گا۔
اجتماعیت کو چھوڑ کر جدا جدا فرقوںمیں بٹ جانا اور اپنے اپنے تشخصات میں گم ہو جانایہ ایسے انتشار کو جنم دیتا ہے جس سے ملت کی اجتماعی قوت پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔اور آخر میں فرقہ بندی اور تفرقہ پروری کی یہی زندگی ایسی موت کی طرف لے جاتی ہے جو قرآن کی اصطلاح میں کفر کی موت ہے۔ اسی فلسفے کی وضاحت حضورؐ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
اجتماعی قوت کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے جو کوئی اس سے جدا ہوگا جہنم میں جا گرے گا۔(مشکوۃ)
آج بد قستی سے امت کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ کچھ کو چھوڑ کر اکثر لوگ اسی تفرقہ پروری کو بڑھاوا دینے میں لگے ہوئے ہیں اور اسی میں رات ودن صرف کررہے ہیں۔ فرقہ فرقہ کھیلتے کھیلتے ان کی مجبوری ہو گئی ہے کہ ان کا دل اب تعمیری کاموں میں نہیں لگتا۔
اگر خدا نخواستہ آپ کے اس تخریب کاری سے ملت کو اجتماعی طور پر کو ئی نقصان پہنچ گیا تو آپ کو سلامتی کون دے گا۔ ہمیں ایک بار پھر سے قرآن و حدیث سے فلسفہ اتحادو اتفاق کو بنظر عمیق مطالعہ کرنا چاہیے ۔ تاکہ ہم ان کی روشنی میں سیرت رسول ؐکی ورق گردانی کرکے اتحاد کے سنہرے اور تابندہ نقوش کا مشاہدہ کرکے اور آپسی اختلاف وانتشار کو ختم کرکے از سر نو اپنی شیرازہ بندی کی تدبیر کرسکیں کہ یہی عافیت اور سلامتی کا راستہ ہے اور اجتماعی ترقی کا ضامن بھی۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر یہ بات یقینی بنا لیجیے کہ موجودہ پستی اور تنزلی سے کہیں بڑھ کر تباہی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ یہ کوئی زبانی نظریہ نہیں بلکہ قرآنی اعلان اور تاریخی شواہدات کی بات ہے کہ باہمی اختلاف و نزاع اور تفرقہ پروری کے نتیجے میں قوموں کا وقار مجروح اور رعب ودبدبہ ختم ہوجاتا ہے اور دشمنوں کی نظر میں ان کی حیثیت بالکل گرجاتی ہے۔اللہ رب العزت اس امت کو اتحا د کی دولت نصیب فرمائے۔آمین۔