ماں کی گود بچہ کی پہلی درسگاہ

0

شمس الدین مغربی ،حیدرآباد

ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے، بچے کی پیدائش سے ہی اس کی پرورش ماں کے ذمے آ جاتی ہے۔ اخلاق کی جو تر بیت ماں کی گود میں ہوتی ہے، اسی تربیت پر بچے کی سیرت کے بنے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اس تربیت پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے ۔ جب بچہ اسکول جانے لگتا ہے تو والدین کا اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسے اسکول میں ڈالیں، جہاں پر بچوں کا مستقبل روشن ہو اور وہ مستقبل میں باعزت اور قابل شہری بن سکیں۔ اس لیے ماں باپ کو چاہیے کہ وہ بہتر تعلیم اور تربیت فراہم کرنے والے اسکولس ہی میں اپنے بچوں کو شریک کرائیں ۔ وہی اسکول میں اپنے بچوں کو داخلہ دلائیں جہاں کا انتظامیہ اپنے فرائض کے تئیں ذمہ دار اور جوابدہ ہو کیوں کہ بچوں کے مستقبل کی تابنا کی کا انحصار ان کے اسکول سے شروع ہو کر کالج پرختم ہوتا ہے، پھر وہ وہاں سے اپنے عملی میدان کا آغاز کرتے ہیں ۔
اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ والدین کی ایک اوراہم ذمہ داری بچوں کو مذہبی تعلیم سے روشناس کرانا ہے، اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا کہ ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ لہذا والدین کا فرض ہے کہ بچوں کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کر یں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ اولاد کی اچھی تربیت کا فریضہ نہ صرف اسلام عائد کرتا ہے بلکہ ملک وملت کی طرف سے بھی اس بات کا تقاضا کیا جاتا ہے، اس میں پلنے بڑھنے والے شہری اپنے وطن کا روشن مستقبل ہوں اور ٹی وی سے اپنے بچوں کو دور ہی رکھیں کیوں کہ آج کل کے معاشرہ کے بگاڑ کا بڑا سبب یہی ٹی وی ہے۔ ٹی وی کے اکثر و بیشتر پروگرامس اخلاقی اقدارکو پامال کر رہے ہیں ۔ آج کل ٹی وی پر جس قسم کے پروگرامس اور سیریس ٹیلی کاسٹ کیے جار ہے ہیں ، وہ نہ تو بڑوں کے لیے مناسب ہے اور نہ ہی چھوٹوں کے لیے موزوں ۔ اگر ہم اپنے بچوں کو دنیا و آخرت میں سرخرو اور کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھر میں ٹی وی نہ رکھیں اور اگر گھر میں ٹی وی ہوتو اس پر سخت نگرانی رکھنا چاہیے اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اولاد کی دینی اور مروجہ تعلیم کا انتظام کر یں ۔اسے علم اور انسانیت کے زیور سے آراستہ کر یں۔ اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں اور اس کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنے میں اس کی مددکریں ۔اسے سائنس وٹیکنالوجی کے علوم سے آراستہ کریں۔ اس سے نہ صرف وہ معاشرے کا ایک مثبت فرد بن کے اٹھے گا بلکہ اس کے لیے حصول معاش میں بھی آسانیاں پیدا ہوںگی اور یہی اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بنے گی۔ والدین کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں سے یکساں اور عدل وانصاف والا سلوک کر یں ۔
اسلام میں لڑکے لڑکی یا چھوٹے ، بڑے کی کوئی تمیز نہیں ہے ، اولادمیں ترجیحی سلوک رکھنا یاکسی کوکوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں بلکہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے ۔ اگر والدین اپنی اولا د کو پر اعتماد اور بہترین سیرت و کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی گود سے بہترین درس گاہ فراہم کرنی ہوگی ۔اس میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔ اگر ہم ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی پرورش کر یں تو ضرور ان کا مستقبل درخشاں ہوگا۔ آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو پانچ وقت کی نمازوں کا پابندی سے اہتمام کرتے ہوئے دین پر چلنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS