مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے

0

مدارس اسلامیہ سرخیوں میں ہیں۔ ایک کے بعد ایک ریاستوں میں مدرسوں کے سروے پر زور دیا جا رہا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مدرسوں سے اس دلچسپی کی اصل وجہ کیا ہے جبکہ مسلمانوںکے 5 فیصد سے بھی کم بچے مدارس میں پڑھتے ہیں بلکہ مدارس اسلامیہ کو صرف مسلمانوں تک ہی محدود کرنا مناسب نہیں، کیونکہ ملک کے کئی مدرسوں میں غیرمسلم بچوں کو بھی اسی طرح زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے جیسے مسلم بچوں کو اور یہ سلسلہ کوئی آج سے نہیں چل رہا ہے۔ ستی پرتھا ختم کرانے میں اہم رول ادا کرنے والے راجہ رام موہن رائے نے پہلے مغربی بنگال کے مدرسہ عالیہ اور پھر موجودہ بہار کے پھلواری شریف کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مدرسوں کے دروازے صرف مسلم طلبا کے لیے ہی نہیں، غیر مسلم طلبا کے لیے بھی کھلے رہے ہیں۔ اس کے باوجود مدرسوں کو مسلم طلبا تک جوڑکر دکھانے، وہاں دی جانے والی تعلیم کو مشکوک بناکر پیش کرنے اور وہاں کے نظام پر شبہات پیدا کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ مدرسہ چلانے والوں نے بدلتے حالات کے تقاضوں پر توجہ کیوں نہیں دی، یہ سمجھنے سے بیشتر مدرسوں کے منتظمین قاصر کیوں رہے کہ مدرسے میں مسلمانوں کے چند فیصد بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس کے باوجود یہی مدرسے توجہ کا مرکز کیوں رہتے ہیں، انہی کی فکر زیادہ کیوں کی جاتی ہے، انہی کے نظام میں اصلاح کی باتیں کیوں کی جاتی ہیں، مدرسوں کے نظام میں کس طرح کے اصلاح کی توقع کی جاتی ہے، اس اصلاح کا اصل مقصد کیا ہے۔ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر عصری اداروں سے عصری علوم حاصل کرنے والے مگر دینی جذبہ و حمیت کا احساس رکھنے والے لوگوں نے جب کبھی بدلتے حالات کے تقاضوں کی مناسبت سے مدرسوں کے نظام میں اصلاح کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی، اہل مدارس یا مدارس سے فارغین نے یہ کہہ کر ان کی بات مسترد کر دی کہ مدارس کے نظام میں مداخلت ناقابل برداشت ہے، انہیں اگر مدارس کا اتنا ہی خیال ہے تو خود تعلیمی ادارے قائم کریں جبکہ عصری کے ماہرین کی مدد سے مدارس اسلامیہ کے دائرۂ اثر کو اور وسعت دی جا سکتی تھی، اسی طرح مدارس کے لوگوں سے رابطے میں آنے پر عصری علوم سے وابستہ لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی کہ مذہبی لحاظ سے انہیں اپنے اندر کن باتوں کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ دنیا کے ساتھ ان کی آخرت بھی سنور جائے۔ یہ صرف آج کے حالات کا ہی تقاضا نہیں بلکہ آزادی کے بعد سے ہی حالات ایسے پیدا ہوگئے تھے کہ ان پر غور و فکر کے لیے سرجوڑ کر بیٹھا جاتا لیکن دیرآید درست آید کے تحت مدارس اسلامیہ کے لوگ عصری علوم کے ماہرین کی اور عصری علوم میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے لوگ مدارس اسلامیہ کے وابستگان کی اہمیت سمجھیں، ایک دوسرے سے استفادہ کریں۔ پانچ وقت کا امام بنانے کے لیے ہی مدارس نہیں ہیں، ان کا کام بہت وسیع ہے اور ان کے کام کی وسعت کا اگراندازہ کرنا ہے تو 8 ویں صدی سے 13 ویں صدی کے وہ مسلمان اس کی مثال ہیں جنہوں نے مدارس میں تعلیم حاصل کر کے ہی سائنسی علوم میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ صدیوں تک جس ابن سینا کو یوروپ کے میڈیکل کالجوں میں پڑھایا گیا ہے، پہلے انہوں نے قرآن و حدیث کی ہی تعلیم حاصل کی تھی اور صرف 10 سال کی عمر میں حافظ قرآن بنے تھے، پھر دیگر علوم کی طرف رخ کیا تھا، البتہ اس وقت علم ’دینی‘ اور ’دنیاوی‘ کے خانوں میں نہیں بانٹا گیا تھا، اس وقت کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ دنیا بھی اللہ پاک کی ہے، دین بھی اللہ پاک کا ہی ہے۔
مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے ، ’ہم عصری تعلیم کے خلاف نہیں لیکن بچوں کو پہلے مذہبی تعلیم دینا ضروری ہے۔‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدارس کے ذمہ داران عصری علوم کے خلاف نہیں ہیں مگر انہیں اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ عصری علوم کے خلاف ہوں۔ ملک کے وہ لوگ جنہیں مدارس سے شکایت ہے، انہیں یہ بات نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ ’رائٹ آف چلڈرن ٹو فری اینڈ کمپلسری ایکٹ‘ 2010 سے نافذ ہوا اور 2011 کی مردم شماری کے مطابق، اس ملک میں 73 فیصد شرح خواندگی تھی جبکہ مدارس بہت پہلے سے بچوں کو فری ایجوکیشن دے رہے ہیں۔ یہ مدارس اگر نہیں ہوتے تواس ملک میں ناخواندگی کا تناسب دگرگوںہوتا۔ مدارس نے صرف تعلیم کی ترسیل کا ہی کام نہیں کیا ہے، غریب طلبا کی پرورش کا بھی کام کیا ہے، ان کی بہتر بودوباش کا بھی خیال رکھا ہے۔ ’مڈ ڈے میل‘ 1985 میں شروع کیا گیا تھا مگر اس سے دہائیوں پہلے سے مدارس غریب بچوں کے لیے کھانے، ناشتے کے ساتھ کپڑے لتے کا بھی انتظام کر رہے تھے۔ اس کے باوجود اگر صرف مدارس کو ہی نشانے پر لیا جاتا ہے تودلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس موقع کا استعمال مدارس کے نظام میں ان اصلاحات کے لیے کرنا چاہیے جو ضروری ہیں۔ مثلاً: مدارس کے بچے اگر انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے اچھی طرح واقف ہوںگے تبھی وہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوںکی اصلاح کر سکیں گے، یہ بتا سکیں گے کہ مدرسوں میں پڑھنے والوںکے پاس ذہانت کی کمی نہیں، البتہ انہیں سمجھنے میں اکثر بھول کی جاتی ہے۔ یہ ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے کہ مدارس صرف دین کے قلعے نہیں بلکہ علوم کا مرکز ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS