پکوڑے سے جھال موڑھی تک

0

محمد فاروق اعظمی

مغربی بنگال کی9.87کروڑ کی مجموعی آبادی میںبے روزگاری کی شرح 20فیصد کے آس پاس ہے۔ریاست میں نوجوانوں کی آبادی 2کروڑکے قریب ہے جن میں سے 70فیصدتعلیم یافتہ نوجوان ہیں، انہیں وزیراعلیٰ ممتابنرجی چائے بسکٹ، گھوگھنی، تیلے بھاجا اور جھال موڑھی بیچنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔یہ درست ہے کہ کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ہے محنت میں ہی عظمت ہے اور لوگ چھوٹے کام سے ہی شروع کرکے بڑا کام کرتے ہیں لیکن وزیراعلیٰ ممتابنرجی جس طرح مغربی بنگال کے تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دینے کی بجائے چائے، بسکٹ بیچنے کی ترغیب اور مشورہ دے رہی ہیں، اس سے ’پکوڑاروزگار‘ کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔
2کروڑ سالانہ روزگار کاوعدہ کے بعد جس طرح وزیراعظم اوران کے کابینی رفقا نے پکوڑا تلنے کو روزگار قرار دیا، ٹھیک اسی طرح وزیراعلیٰ ممتابنرجی مغربی بنگال کے بے روزگار نوجوانوں کو ’ چائے بسکٹ، گھوگھنی، تیلے بھاجا اور جھال موڑھی ‘ بیچنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ 15 ستمبر 2022 کو مغربی مدنی پور کے کھڑگپور میںایک پروگرام کے دوران وزیر اعلیٰ ممتابنرجی نے مغربی بنگال کے بے روزگارنوجوانوں کو مشورہ دیا کہ اگر آپ کے پاس پیسے اور روزگار نہیں ہیں تو آپ کسی سے ایک ہزار روپے لے کر اس سے ایک کیتلی اور کچھ مٹی کے برتن(بھانڑ) خرید لیں، کچھ بسکٹ بھی ساتھ رکھ لیں،اس میں تھوڑا تھوڑا کرکے اضافہ کریں،پہلے ہفتے میں بسکٹ، پھر دوسرے ہفتے میںاپنی ماں سے کہیں کہ وہ تھوڑی سی گھوگھنی بنا دے، اس کے بعد کچھ تیلے بھاجا(بھجیا)بھی لیںاور پھر ایک کرسی اور ایک ٹیبل لے کر بیٹھ جائیں اور کاروبار شروع کردیں، آپ دیکھیں گے کہ آپ کے پاس لوگوں کا ایسا ہجوم آئے گا کہ آپ محنت کرتے کرتے تھک جائیں گے لیکن فروخت نہیں رکے گی۔
بے روزگار نوجوانوں کو وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا یہ مشورہ راس آئے نہ آئے لیکن اس سے وزیراعظم نریندر مودی اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کے مابین قدر مشترک کا پتہ ضرور لگ رہاہے۔ویسے بھی دونوں لیڈروں کی سیاست کا اندازکم وبیش ایک جیسا ہے یا یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ قومی سطح کے ان دونوں لیڈروںمیں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ جس طرح وزیراعظم کو ’اپوزیشن‘ پسندنہیںہے اور وہ ہندوستان کو ’ اپوزیشن مکت ‘ بناناچاہتے ہیں ٹھیک اسی طرح مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کارویہ بھی ’اپوزیشن ‘ مخالف ہے۔ اس معاملے میںتو ممتا بنرجی چند قدم آگے ہی ہیں، سی پی آئی ایم کو دیوار سے لگانے کے بعد بنگال کو ’ کانگریس مکت ‘بھی کرچکی ہیں۔ آر ایس ایس سے قربت کے معاملے میں بھی دو نوں لیڈران ایک ہی صفحہ پر کھڑے ہوئے ہیں۔جس طرح وزیراعظم کی سنگھ سے وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںہے ٹھیک اسی طرح ممتابنرجی کی آرا یس ایس سے قربت بھی پرانی ہے۔ آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی بی جے پی کی حکومت میں مرکزی کابینہ حصہ رہ چکیں وزیراعلیٰ ممتابنرجی کئی باراٹل بہاری واجپئی اور لال کرشن اڈوانی کاقصیدہ پڑھ چکی ہیں۔ سنگھ سے اپنی اس قربت اور وابستگی کے برملا اعلان و اظہار کا وہ حوصلہ بھی رکھتی ہیں۔ چند برسوں قبل انہوں نے آر ایس ایس کو محب وطن قرار دیاتھا تو احسان شناسی کے طور پر آرا یس ایس نے بھی انہیں ’درگا‘ کے لقب سے ملقب کیا۔ ابھی یکم ستمبر 2022 کو بھی انہوں نے ریاستی سکریٹریٹ نوانو میں ہوئی ایک تقریب کے دوران آر ایس ایس کی تعریف و توصیف کا طومار باندھ دیا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ آر ایس ایس بری نہیں ہے، اس میں اچھے لوگ ہیںبس انہیں بی جے پی کی سیاست کے موجودہ اندازسے کچھ اختلاف ہے۔
ممتا اپنی قربت سے آر ایس ایس کو مستفیدبھی کرتی رہتی ہیں۔ 2011میں ترنمول کانگریس کی حکومت آنے کے بعد سے مغربی بنگال میں آر ایس ایس کی شاکھائوں کی تعداد میں طوفانی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ابھی مغربی بنگال میں آر ایس ایس کی 1900 شاکھائیں کام کررہی ہیں، 2011سے قبل ان شاکھائوں کی تعداد محض 200تھی۔ اسی طرح آرایس ایس کے اسکولوں کو بھی منظوری دینے میں ممتاحکومت فراخ دلی سے کام لیتی ہے۔ ابھی مغربی بنگال میں آر ایس ایس کے 322 اسکول کام کررہے ہیں،یہ اسکول مغربی بنگال بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن سے بھی ملحق ہیں۔آرا یس ایس ممتا بنرجی کی اس فیاضی کا باقاعدہ اعتراف بھی کرتا رہا ہے۔ اسکول چلانے والے ادارہ ’وویکا نند ودیا وکاش پریشد‘ کے تنظیمی سکریٹری تارک داس سرکار کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ان کے تمام اسکولوں کو2011کے بعد ہی الحاق(Affiliation) حاصل ہوا ہے۔ ہندو تہذیب و ثقافت کے فروغ و تشہیر میںبھی دونوں قومی لیڈران کم و بیش ایک ہی انداز میں کام کرتے ہیں۔بی جے پی کی حکومت کانوڑیوں پر پھول کی بارش کرتی ہے تو مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی ترنمول حکومت پوجا پنڈالوںپر ہرسال دولت کی بارش کرتی رہتی ہے۔ اگلے دو ہفتوںمیں شروع ہونے والی درگاپوجا 2022 کیلئے تو 241 کروڑ روپے کی بارش ہورہی ہے۔
روزگار، کاروبار، تجارت، صنعت، سرمایہ کاری اورمعیشت جیسے اہم معاملات میں بھی ممتابنرجی، وزیراعظم نریندر مودی کا ہی نقش ثانی ہیں۔جس طرح وزیراعظم نے اپنی جادوبیانی سے ایک عالم کواپنی شخصیت کا گرویدہ بناکر انہیں مسائل روزگار سے بے پروا کررکھا ہے، ٹھیک اسی طرح وزیراعلیٰ ممتابنرجی بھی مغربی بنگال کے لوگوں کو اپنی سحر آفریں شخصیت کے حصار میںلی ہوئی ہیں۔ صنعتیںتباہ ہوچکی ہیں، مغربی بنگال کی شان کہی جانے والی جوٹ صنعت ختم ہوچکی ہے۔ان جوٹ ملوں کے مزدوروں کو 1000روپے مہینہ بے کاری بھتہ دے کر ان پر احسان ڈالا جارہا ہے۔ بھاری صنعتیںدوسری ریاستوں کو منتقل ہوچکی ہیں۔ان سے خالی ہونے والی 40ہزار ایکڑ زمینوں پر بلڈرمافیا قبضہ کرکے ہائوسنگ اور شاپنگ پلازے بنارہاہے۔ہر سال ہونے والے بنگال گلوبل بزنس سمٹ کے بعد وزیراعلیٰ اعلان کرتی ہیں کہ مغربی بنگال میں ہزاروں کروڑ کی سرمایہ کاری کاآفر آیا ہے اور صنعتیں لگائی جائیں گی لیکن یہ ہزاروں کروڑ روپے کبھی زمین پر نظر نہیں آتے اور نہ صنعتیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔حکومت کا خزانہ خالی ہے، قرض پر پوراکاروبار حکومت چلایا جارہا ہے۔ریاست پر تقریباً 6 لاکھ کروڑروپے کا قرض ہے۔ آج مغربی بنگال میں ہر بچہ مقروض پیدا ہورہاہے۔ادھر مرکزی سطح پر ہندوستان 621ارب امریکی ڈالر کے قرض کا بار لیے ہوئے ہے اور ہر ہندوستانی 99ہزار روپے کا مقروض ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS