ڈاکٹر رنجنا جائیسوال
بازار پورا کھلا بھی نہیں تھا، پر للیا سبزی کی دکان لگائے بیٹھی تھی۔ اس کا مرد ولایت پیسہ کمانے جو گیا تو آج تک واپس نہیں آیا۔ولایت کے نام سے اس کا منہ نہ جانے کیوں کڑوا ہو جاتا تھا۔اب تو بازار میں کئی طرح کی سبزیاں ملنے لگی ہیں، پر للیا کی دکان میں وہی آلو اور پیاز۔۔۔دو دن سے کافی بارش بھی ہو رہی تھی۔چوراہے پر سبزی کی ایک بڑی سی دکان تھی۔ سنا تھا اس کی دکان پر دیسی سبزیوں کے علاوہ ولایتی سبزیاں بھی ملتی تھیں۔ دور دور سے لوگ اس کے یہاں سبزی خریدنے آتے تھے۔ایک پیسہ نہیں چھوڑتا تھا اور نہ ہی الگ سے دھنیا یا مرچی دیتا،پر بھیڑ ایسی کہ پوچھو مت۔۔۔جیسے مفت میں بانٹ رہا ہو۔ بڑی بڑی کاروں سے لوگ اترتے،جھولا پھینکتے اور سبزیاں خرید کر چلے جاتے۔ اس دکان کی کچھ دوری پر للیا بھی اپنی سبزیوں کی دکان لگاتی تھی۔ سبزی کے نام پر اس کی دکان میں صرف آلو اور پیاز ہی ہوتا تھا۔کبھی کبھی وہ اس بڑی سی دکان میں جھانک لیتی۔ ایسی خوبصورت خوبصورت سبزیاں کہ پوچھو مت۔ کچھ سبزیوں کے تو وہ نام بھی نہیں جانتی تھی۔ پِنکیا اس دن کتنی ہنسی تھی۔
’اماں! جانتی ہو ہری والی گوبھی کو بروکلی اور تم جو لَوبیا بناتی ہو نا، اس کو بینس کہہ رہا تھا۔ وہ گائوں کھیتوں میں پانی کے کنارے جو ککرمتتا اگتا ہے، وہ اسے پنّی میں باندھ باندھ کر بیچتا ہے۔ بڑا عجیب سا نام تھا مش۔۔۔مشروم۔ سبزیاں تو ایسے سجا کر رکھتا ہے،جیسے کپڑے کی دکان میں کپڑے۔لوگ کہتے ہیں کہ پورے شہر میں جو سبزی کہیں نہ ملے، وہ یہاں ضرور مل جاتی ہے۔ سبزیاں ایسے ایسے چن چن کر سجاتا ہے کہ لگتا ہے ابھی ابھی نہا دھوکر آئیں ہوں۔‘ پنکیا اپنی اماں سے کہہ کر کھلکھلاکر ہنس پڑی۔
’اماں! ایک بات بتائو، یہ سبزیاں کھانے میں کیسی لگتی ہوںگی؟‘
’اچھی ہی لگتی ہوںگی تب ہی تو بڑے لوگ خریدتے ہیں۔‘
’اماں مسالے کیاڈلتے ہوںگے؟‘
’مسالے! جب سبزی ولایتی ہے تو مسالے بھی ولایتی ہی ڈلتے ہوں گے۔‘
’ٹھیک کہہ رہی ہوں اماں۔۔۔ایسا ہی ہوگا۔‘
اس دن سے للیا کے دماغ میں ولایتی سبزیاں چڑھی ہوئی تھیں۔دل تو اس کا بھی کرتا تھا کہ ایک بار وہ بھی ان ولایتی سبزیوں کا ذائقہ چکھے۔ پرسوں کی ہی تو بات ہے۔ رات اندھیری ہوتی جا رہی تھی، پرپنکیا کی تو باتیں ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھیں۔ تب للیا نے ہی ناراض ہوتے ہوئے کہا، ’اب چل، زیادہ باتیں نہ کر۔ دیکھ تیرے لیے آلو کی سبزی بنائی، کتنا خوبصورت رنگ آیا ہے۔ تیری ولایتی سبزیاں بھی پانی بھرے اس کے سامنے۔‘
’کیا اماں،پھر سے وہی آلو۔۔۔کچھ نیا کاہے نہیں بناتی۔‘
پنکیا منہ پھلا کر بیٹھ گئی تھی۔ للیا بھی بیچاری کیا کرتی۔ غریبوں کی سبزی مانی جانے والی سبزی آلو پیاز میں بھی آگ لگی تھی۔کیسے کیسے کرکے دو دن کا کھانا میسر ہو پاتا تھا۔
’اماں! ایک بات کہوں،تو بھی نہ وہ مہنگی والی سبزیاں اپنی دکان پر رکھا کر۔دیکھ نہ،وہ سبزی والا ولایتی سبزیاں بیچ بیچ کر کتنا بڑا آدمی بن گیا۔‘
’بات تو تو صحیح کہہ رہی ہے پر ۔۔۔‘ولایتی کے نام پر اس کا درد ایک بار پھر ابھر آیاتھا۔ للیا سوچ میں پڑ گئی، آلو پیاز جیسی سبزیوں کو منڈی سے خریدنے کے لیے بھی اسے کتنے جتن کرنے پڑتے تھے۔ ان ولایتی سبزیوں کو خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے لائے۔ اس نے اپنے خزانے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ بھگوان کی تصویر کے پیچھے، چاول کے ڈبے میں،بستر کے نیچے۔۔۔پنکیا کتنی ہنسی تھی۔
’اماں تم بھی نا، گنتی کے چار پیسے ہیں۔ انہیں اتنا چھپا چھپا کر رکھتی ہو۔ چور بھی گھر میں گھس آئے تو تمہیں کوسے گا۔سارا وقت برباد کر دیا پر ملا کچھ نہیں۔‘
للیا ہمیشہ سوچتی کہ ہم غریبوں کے گھر چور کیوں آئے گا، پر نہ جانے دل کا خوف ہمیشہ حاوی ہو جاتا۔ للیا نے بھی آج ولایتی سبزیوں پر دائو لگا دیا تھا۔ آج وہ آلو پیاز نہیں، اپنی چھوٹی سی جمع پونجی سے ولایتی سبزیاں لے آئی تھی۔ آج اس نے علی الصباح ہی اپنی سبزی کی دکان لگا دی تھی۔ اس نے پھٹے ہوئے بورے پر ولایتی سبزیوں کو ایسے سجایا، جیسے کوئی خاتون خانہ اپنے تجربے کار ہاتھوں سے گھر کو سجا رہی ہے۔ للیا سوچ رہی تھی، اماں کتنا صحیح کہتی تھی کہ ’سجی دھجی مہریا اور لپی- پتی دہریا ہمیشہ اچھی لگتی ہے۔‘
قرینے سے سجی سبزیاں کتنی خوبصورت لگ رہی تھیں۔ للیا کے پاس اتنی پونجی تو نہیں تھی، پر اس چھوٹی سی پونجی میں وہ ولایتی سبزیوں کی چھوٹی سی ڈھیری لگاکر بیٹھی تھی۔دو پیکٹ مشروم،دو بروکلی، آدھا کلو بینس،آدھا کلو سفید ایلی فینٹ۔۔۔ دن چڑھتا جا رہا تھا، پر ابھی تک بوہنی بھی نہیں ہوئی تھی۔ گاہک ایک نظر بھر سبزیوں پر ڈالتے اور آگے بڑھ جاتے۔ للیا مایوس ہونے لگی۔ تبھی پیچھے کے محلے سے مشرائن آتی دکھائی دیں۔ بڑا لما چوڑا کنبہ تھا ان کا۔ اکثر انہیں چوراہے والی دکان سے تھیلا بھر بھر سبزی لے جاتے دیکھا تھا۔للیا کا چہرہ امید سے چمک اٹھا۔
’رام رام! بھابھی۔‘
’کیسی ہے رے للیا،بارش کچھ زیادہ پڑ گئی ہے اس بار۔۔۔‘
’او تو ہے۔۔۔‘
’ارے! تو بھی یہ سب بیچنے لگی؟‘
للیا کی آنکھیں چمک اٹھیں،بغل میں رکھے ترازو کی رسی کو صحیح کرتے ہوئے وہ بول پڑی، ’کیا تولوں بھابھی۔۔۔‘پر مشرائن ایک نظر ڈال کر آگے بڑھنے لگی۔
’کیا ہوا بھابھی۔۔۔سب تازی ہیں۔صبح ہی منڈی سے لائے ہیں۔‘
’گنتی کی چار سبزی ہیں،اپر سے پائو پائو بھر۔۔۔کیا فائدہ۔ اس سے اچھا تو چوراہے والی دکان سے لے لوں۔ ایک ہی جگہ سے سب مل جائیں گی۔۔۔ چل اب آ ہی گئی ہوں تو ایک کلو آلو تول دے۔‘
’آلو!آج آلو تو نہیں ہیں۔‘
للیا کے لہجے میں مایوسی تھی۔ مشرائن پرس جھلاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ للیا حیرت زدہ تھی۔ان پائوپائو بھر سبزیوں کے لیے اسے اپنی جمع پونجی لگانی پڑی تھی۔ سوچا تھا کچھ کمائی ہو جائے گی۔۔۔پنکیا سے وعدہ کیا تھا کہ آج کمائی ہوئی تو اس کی پسند کا کھانا بنائوں گی۔لیکن ولایتی سبزیاں ویسے ہی پڑی اسے منہ چڑھا رہی تھیں اور وہ سوچ رہی تھی کہ رات میں آلو کی سبزی پروستے وقت وہ پنکیا سے کیا کہے گی۔ ایک بار پھر ولایت نے اسے دھوکا دے دیا تھا۔n
افسانہ
ترجمہ: استوتی اگروال
Agrawal Jewellers, Sironj-464228
[email protected]