انشائیہ: سبزی فروش اور بیگم

0

فیاض انور صبا

بہن جی، تازہ تازہ سبزیاں ہیں، ابھی ابھی ڈائرکٹ کھیت سے آپ لوگوں کے لیے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ آہا! کتنی ہریالی ہے ان میں، میری ٹوکریوں میں سجی سجائی سبزیاں نہیں بلکہ یہ ایک منی باغ ہیں۔‘ سبزی فروش چھوکرا صبح سویرے نکڑ پر کھڑا آوازیں لگا رہا تھا۔یہ پھیری والا عورتوں کی نبض ٹٹولنے میں بڑا مشاق ہے۔ بڈھا نما نوجوان، خواتین کی عمر پر غور نہیں کرتا بلکہ ان کی چال ڈھال، لباس، زیبائش و آرائش حتیٰ کہ خد و خال کی مناسبت سے الگ الگ زاویے کے ذریعے انتہائی چالاکی سے ان سے مخاطب ہو کر ’من کی باتیں‘ بھانپ لیتاہے اور دل میں جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک ماہر کاروباری اور پیشہ ور جو ٹھہرا۔ حقیقت یہ ہے کہ دلجمعی سے جو بھی کام کیا جائے، اس میں کامیابی یقینا ملتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی کام ہو، کامیابی اسی کو ملتی ہے جس کا طریقہ کار صحیح ہو۔ یوں تو اس دور میں جسے ہم ماڈرن زمانہ کہہ کر بہت خوش ہوتے ہیں، یہ جان لیں کہ ناجائز، دو نمبری اور غلط سلط کام کرنے کے لیے بھی دانشمندی، منصوبہ بندی اور دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج سماج کا نوجوان طبقہ کم محنت کرکے زیادہ کمائی کے چکر میں اس ڈگر پر چل پڑا ہے جہاں اندھیرا، کھائی، مایوسی،محرومی، بدنامی، اور بالآ خر غیر قدرتی موت آخری پڑاؤ ہوا کرتی ہے۔ ایسے لوگ سماج کے ناپسندیدہ طبقوں کے آلہ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو سبز باغ دکھلا کر یعنی زر، شراب، شباب کا لالچ دے کر غیر قانونی کام کرتے کی ترغیب دلاکر ان کی زندگی کو جہنم کی راہ پر چلنے کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔
رنگینیوں میں کھو جانے، اسٹیٹس کو برقرار رکھنے خودنمائی اور بیجا اصراف کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلا گاڑھی کمائی سے یہ سب ممکن کہاں؟ ظاہر سی بات ہے، اس کے لیے الٹ پھیر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
اتوار در اصل تہوار کا ہی چھوٹا سا نام ہے۔ جو لوگ روزانہ دور دراز کام کے لیے جاتے ہیں، انہیں چھٹی کے دن یعنی اتوار کو کوئی محنت مشقت یا الجھن بھرا کام کرنے کو کہا جائے تو ہرگز حامی نہیں بھریں گے۔کم ازکم ہفتے میں ایک دن تو آرام کے لیے چاہیے تاکہ دوسرے دن تازہ دم ہوکر کام کی شروعات کر سکیں۔ اتوار کی صبح شہر کے لوگ ذرا دیر تک سوتے ہیں لیکن بیگم سویرے آٹھ جاتی ہیں۔ انہیں پتہ ہے، ٹھیک آٹھ بچے وہ چھوکرا سبزی لے کر حاضر ہو جاتا ہے۔ اس کی آواز سماعت سے ٹکرآتے ہی میرے پرس کو ڈھیلی کرتی ہوئی بغل میں تھیلا دبائے اس کی خدمت میں آداب بجا لانے نکل پڑتی ہیں۔ عجلت میں کئی بار وہ میری چارپائی سے ٹکراتی ہوئی گرنے سے بچی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ صبح کی بیڈ ٹی پلا کر جاتی ہیں۔ کبھی کبھار سبزی خریدنے میں اتنی دیر لگا دیتی ہیں کہ تشویش ہونے لگتی ہے۔ جس طرح شیطان زاہد و عامل کو دوران عبادت وسوسہ میں ڈال دیتا ہے اسی طرح بیگم کی ان حرکات پر شک کا شائبہ نظر آتا ہے۔ سوچتا ہوں، چھوکرے سے اس قدر والہانہ لگاؤ اقتضائے عمر سے آگے پھسلتے ہوئے عشق کے نیٹ ورک میں تو نہیں آرہی ہیں؟ موبائل کے نیٹ ورک کا معاملہ ایسا ہے کہ ہر کمپنی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کا نیٹ اسپیڈ سب سے بہتر ہے۔ عموماً موبائل سے باتیں کرتے وقت اگر مساوی کمپنی کے سم کارڈدونوں جانب ہوں تو کوئی دقت پیش نہیں آتی بصورت دیگر مختلف کمپنی کے ہونے کی وجہ سے نند بھاوج کی طرح ’سمپرک‘ کو راہ راست پرلانے میں کافی دقت ہوتی ہے۔ ٹاور کی لہروں کے حریفانہ اشارے باد مخالف کا کام کرتی ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، مسز ٹھکر کریلا خریدتے وقت اس چھوکرے سے عالمانہ انداز میں محوے گفتگو تھیں۔ ’میرے شوہر کو شوگر کا مرض لاحق ہے جی۔ ڈاکٹر نے ہفتے میں کم از کم دو بار کریلا کھانے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا خیال میں نہ کروںگی تو کون کرے گا؟ موا یہ مرض بڑا ڈھیٹ ہے، جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ صحت دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔‘
چھوکر ا کہنے لگا، ’بھابی، میںتو آپ جیسی وفا شعار بیوی کی بڑی قدر کرتا ہوں۔ بھیا کے لیے کسی کام کی ضرورت پیش آئے تو اس ناچیز کوجب چاہیں یاد کر لیجئے گا۔‘
مسز ٹھکر بڑی فیشن ایبل عورت ہیں۔ نفاست سے کپڑے زیب تن کرتی ہیں۔ عمر چھپانے میں ان کا جواب نہیں جبھی تو محلے کے نوجوان ان کے حکم کی تعمیل میں دیر نہیں لگاتے۔ روزی روٹی کے چکر میں پریشان شوہر نامدار کو اتنی فرصت کہاں کہ صبح سویرے اٹھ کر بازار سے سبزیاں خرید لائے۔ بیگمات ’کو مجبوراً‘ یہ کام انجام دینا پڑتا ہے۔ وقت کی بچت اورمجبوری کے سبب محلے کے سبزی فروش سے سبزیاں خریدنے میں سہولت نظر آتی ہے۔ دلارا کی ممی سبزی فروش سے میڈیکل ریپریزنٹیٹو کے انداز میں باتیں کرتی نظر آئیں۔ وہ پاس پڑوس کی عورتوں سے بھی حکیمانہ انداز میں گفتگو کرتی ہیں۔ سبزی کی خصوصیات پر سیر حاصل بحث کرنے میں ان کا مقابلہ کوئی نہیں۔
’ارے بنو کی امی، تمہاری صحت دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔ شاید خون کی کمی ہوگئی ہے۔ لو، یہ سا گ لے جاؤ۔ بنگلہ زبان میں اسی کو لے کھا ڑا ساگ کہتے ہیں۔ اس کے استعمال سے جسم میں خون پیدا ہوگا۔ کم خرچ بالا نشین کے مصداق اس سے کفایتی ٹانک بازار میں دستیاب نہیں۔ سمجھ لو، مٹی کے مول میں آپ کو دی جا رہی ہے۔ تم کیا جانو، دواخانہ والے اپنی آمدنی میں اضافے کے لیے لوکل کمپنی کے پروڈکٹ آپ کو اونچی قیمت پر زبردستی خریدنے کے لیے مجبور کر تے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے جھانسے میں نہ آکر میرا کہا من لیں۔ صرف ایک ہفتے میں اس کا اثر دیکھنے کو ملے گا۔‘
بنو کی امی حیرت سے ان کی باتیں سن رہی تھیں اور بغیر سوچے سمجھے ہاں میں ہاں ملا کر تائیدکرتی جا رہی تھیں۔ ایسا لگتاہے، یہ عورت سبزی فروش کی ایجنٹ ہو۔ ویسے آج کل بغیر دلال کے کوئی بھی کام جھٹ پٹ نہیں ہوتا۔ معاملہ پاسپورٹ بنوانے کا ہو، راشن کارڈ کا ہو،رشتے طے کرنے کا ہو، مریض کو داخل ہسپتال کرنا ہو، بجلی یاگیس کا بل بھرنے کا ہو یا پھر زندگی کا اہم کام نوکری حاصل کرنے کا ہو، ہر جگہ انہیں کا سکہ چلتا ہے۔ اب تو باقاعدہ اس کے لیے پروفیشنل ہیلپ لائن کا آفس بھی قائم ہو چکا ہے۔ وقت کی بچت اور آسانی کے لیے تھوڑی سی رقم خرچ کرنے میں مضائقہ نہیں۔ ایک دن وکیل صاحب کی بیوی مسز انیتا ورما جو خود بھی وکا لت سیکھ رہی ہیں تاکہ وقت ضرورت شوہر نامدار کو عدالت میں گھسیٹ سکیں، سبزی فروش لڑکے کا کلاس لینے لگیں، ’بھائی یہ پٹل ذرا دکھلانا۔ ارے، اوپر سے دیکھنے میں بڑا سندر لگ رہا ہے ۔‘ چھوکر ا ادب سے گرد آلود پلاسٹک کے پلیٹ میں چھ سات عدد پٹل کورکھ کر ان کی طرف کھسکا تے ہوئے کہنے لگا، ’ میڈم یہ ایکسپورٹ کوائلٹی کا مال ہے، بڑی مشکل سے ہاتھ لگا ہے۔ یہ مال آپ کو ہر کسی کے پاس نہیں مل سکتا۔ یہ میرا چیلنج ہے۔‘ گویا وہ کوئی نادر آئٹم بیچ رہا ہو۔ مسز انیتا کیس ہسٹری کی طرح پلیٹ میں رکھے پٹل کا بغور مشاہدہ کرتی ہوئی تنک کر کہنے لگیں، ’ارے، اس میں شاید اوپر سے رنگ اور کیمیکل کی آمیزش کی گئی ہے۔ سونچ لوبھیا، اگر ثابت ہو گیا تو تمہیں جیل بھجوا دوں گی۔ تم مجھے اچھی طرح پہچان رہے ہو، میں کون ہوں۔‘
عورتوں کی زبان قینچی کی طرح نہیں چلا کرتی تھی جبکہ موجودہ پر آشوب دور میں ان میں بلا کی تبدیلی آچکی ہے۔ ایک سازش کے تحت نسائی غور و فکر کو آزادی کے نام پر اس قدر بڑھاوا ملا کہ خدا کی پناہ۔ موبائل اور ٹی وی سیریلوں کا بھر پور اثر اس تبدیلی کا باعث ہے۔ دلہن شادی کے بعد سسرال میں آکر بھیگی بلی بنی رہتی ہے لیکن چند دنوں کے بعد پورے گھر کو اپنے حصار میں لے کر ذہنی خلجان میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ فیشن ایبل اور ماڈرن تربیت کا نتیجہ ہے اور کچھ نہیں۔ بڑوں کا ادب، گم گوئی اور نظریں نہ ملا نا یہ سب باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ انیتا جی کے لفظوں کا وار خالی گیا۔وہ لڑکا ان کی باتوں سے بے نیاز بڑی متانت سے کہنے لگا، ’دیکھیں میڈم، آپ میری تمام سبزیوں کا لیبارٹری ٹسٹ کر الیں۔ بھگوان کی دیا سے مال کی کوائلٹی پر ہمیشہ دھیان دیتا ہوں۔ ہم کو صرف آپ لوگوں کا آشیرواد چاہیے۔ میں مناسب قیمت پر خالص مال فروخت کرتا ہوں۔‘
لڑکے کا بیباک انداز دیکھ کر مسز انیتا سنناٹے میں آگئیں۔ ان کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ لڑکا معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے اپنا ٹھیلہ لے کر آگے کی طرف چل دیا۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS