شاید..کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

0

عزیز قریشی
ہندوستان میں آج کل ایک منظم سازش وقف بورڈ اور اس کے قانون کو بدنام کرنے کے لئے کی جا رہی ہے اور کچھ ٹی وی چینل اس پروپیگنڈے میں برابر مصروف ہیں کہ وقف قانون کے تحت ہندوستان کے وقف بورڈ کسی بھی جائیداد پر اپنا نا جائز قبضہ جما سکتے ہیں جس کے سامنے ملک کا قانون بے بس ہو جاتا ہے ۔
اس سے زیادہ شیطانی ، مکروہ ، گندہ ذہن، خباثت، جھوٹ، مکر و فریب کی بات نہیں کہی جا سکتی ۔ ۔۔کسی ایک ٹی وی چینل نے تو شاید یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جی اورنگ زیب کے بنائے گئے وقف کے ان قانونوں کو ختم کر دیں گے ۔ اس سے زیادہ جہالت، کم علمی ، تنگ نظری اور فرقہ پرستی کی بات کہنا شاید ممکن نہیں ہے ۔
وزیر اعظم مودی جی اور وزیرِ داخلہ امِت شاہ جی وقف کے قوانین کو ختم نہیں کر سکتے ۔ وقف کے قانون سینکڑوں سالوں سے اس ملک میں رائج ہیں اور وقف دراصل اپنی حق حلال اور محنت کی کمائی ہوئی جائیداد کے ایک حصے کو اپنے خاندان کو اس کی آمدنی سے محروم رکھتے ہوئے انسانیت کے فلاح و بہبود اور معاشی طور پر کمزور طبقوں کے امداد دینے کے لئے کیا جاتا ہے اور جو جائیداد یا رقم وقف کی جاتی ہے اس سے واقفین کے وارثوں کو کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ جس مقصد کے لئے وقف کیا جاتا جیسے تعلیم ، علاج و معالجہ، مذہبی عمور ، حج کرانا، اسکولوں ، تعلیمی اداروں ، بیوائوں ، مجبوروں ، مسکینوں کی جس مقصد سے بھی وقف کیا جائے وہ آمدنی صرف اسی پر خرچ ہوتی ہے ۔یہ وقف کرنے والوں کی ایک بڑی قربانی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی آمدنی کا ایک حصہ رفعِ عام اور انسانی فلاح و بہبود کے نام پر خرچ کرتے ہیں ۔
میں ان مسلمان دشمن طاقتوںاور عناصر سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ہزاروں مندروں اور غیر مسلم اداروں کو جو جائیدادیں دی گئی ہیں وہ بھی وقف کی ہی صف میں آتی ہیں کہ ہمارے فرقہ پرست ہندو بھائی جو مسلمانوں کی دشمنی کے نشے میں سر شار رہتے ہیں کیا انہیں معلوم ہے کہ لعل قلعے کے سامنے چاندنی چوک جاتے ہوئے جو مندر بنا ہے وہ اورنگ زیب کی اجازت سے بنوایا ہوا ہے ۔ اسی طرح اورنگ زیب نے اور دوسرے مسلم بادشاہوں اور حکمرانوں نے ہزاروں مندروں کو زمین اور جاگیر دی وہ سب کے سب وقف کی جائیداد ہی کہے جائیںگے ۔
بھوپال کا مشہور بھوج پور مندر بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جہاں بھوپال کے ایک نواب نے اس وقت جبکہ مندر کھنڈر بن چکا تھا پوجا پاٹھ بند ہو چکی تھی وہاں کے مہنتوں اور پجاریوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا بھوپال کے ایک مسلم نواب نے بھوج پور کے مندر کو جاگیر عنایت کی وہاں کے مہنتوں اور پجاریوں ان کے خرچے کے لئے ایک الگ جاگیر دی اور جاگیر کی سند جو فارسی میں ہے اور تانبے کے ٹکڑے پر لکھی گئی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ میں یہ جاگیر صرف بھوج پور کے مند ر کے پوجا پاٹھ اور دیکھ بھال کے لئے دے رہا ہوں اور اگر میرا کوئی وارث ولی ٔ عہد یا آفیسر یا ریاست کا دوسرا کوئی اہلکار اس میں کسی قسم کی بھی کوئی گڑ بڑی کرے تو اگر وہ مسلمان ہو تو سؤر کا گوشت کھائے ہندو ہو تو گائے کا گوشت کھائے اور عیسائی ہو تو اس پر مد ر میری کی مار پڑے ۔ یہ دستاویز آج بھی بھوپال کے نیشنل آرکائیو میں محفوظ ہیں ۔ اسی طرح مہاکال کے مندر میں جب اورنگ زیب گئے تو انہیں بتایا گیا کہ وہاں روز ایک نئی چِتا کی راکھ اور چار سیر اصلی گھی کی ضرورت پڑتی ہے جس سے وہاں آرتی کی جاتی ہے اورنگ زیب نے کہا کہ روز ایک نئی چِتا کی راخ کے لئے تو وہ کچھ نہیں کر سکتے لیکن ان کی طرف سے روز چار سیر اصلی گھی مہاکال کی پوجا کے لئے ہمیشہ دیا جاتا رہے گا۔ جس کا خرچہ وہ خودد یں گے ۔ فارسی میں لکھی ہوئی یہ تحریر اورنگ زیب کے دستخط کے ساتھ اُجین کے رکارڈ روم میں محفوظ ہے اور اسی کے مطابق آج بھی چار کلو اصلی گھی روز پوجا کے لئے مہاکال کے مندر کو دیا جاتا ہے ۔ آزادی کے بعد جب ملک تقسیم ہوا تو وقفیہ جائیدادوں پر جیسے طوفان اور بربادی آ گئی ہزاروں مسجدوں ، عید گاہوں ، درگاہوں اور قبرستانوں کی کروڑوں عربوں کی زمین غیر مسلموں کے قبضہ ٔ نا جائز میں چلی گئی ایک اندازے کے مطابق پنجاب ، ہریانہ ، ہماچل پردیش اور دلی وغیرہ کی تقریباً ایک لاکھ سے کچھ کم ایسی جائیدادیں ہیں جن پر قبضہ ٔ نا جائز ہے اور ہماری سیکولر سرکار کے چہرے پر یہ ایک کوڑ کے داغ کی طرح ہے جنہیں گنگا جل کا پوِتر پانی بھی نہیں دھو سکتا ۔ ڈی ڈی اے نے ہزاروں ایکڑ وقف کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ دہلی کا مشہور پانچ ستارہ اوبیرائے ہوٹل بھی نا جائز طور پر وقف کی زمین پر بنایا گیا ہے اور وہاں کے مالکوں نے اس وقف کے متولی کو خرید لیا تھا اور ساز باز کر کے عدالت سے مقدمہ میں جیت لیا تھا ۔ اور یہ آج عربوں کی جائیدا د ہے ، اسی طرح سارے ہندوستان میں حکومت نے یا حکومت کے نیم سرکاری اداروں نے یا دوسری سرکاری ایجنسیوں نے عربوں روپئے کی وقف کی جائیداد پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ ۱۹۷۴ء میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی اصل توجہ وقفیہ جائیداد کو اور واقفین کو انصاف دلانے اور وقفیہ جائیداد سے وقف کئے گئے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کچھ تاریخی فیصلے کئے اور تمام ریاستی حکومتوں کو احکامات جاری کئے :
(۱)جو وقفیہ جائیدادیں ریاستی حکومتوں یا مرکزی حکومت کے قبضے میں ہیں اور انہیں واپس کیا جانا ممکن ہو تو انہیں فوراً متعلقہ وقف بورڈوں کو واپس کر دینا چاہئے ۔
(۲) اگر ان پر کچھ تعمیر کر لی گئی ہے اور وقف بورڈ کو واپس کرنے میں کچھ مشکلات ہیں تو انہیں لیز پر لے لینا چاہئے اور متعلقہ وقف بورڈوں کو بازار کے ریٹ سے لیز کا پریمیم ادا کرنا چاہئے ۔
(۳) تمام وقفیہ جائیدادوں کو رینٹ کنٹرول یا ایکوموٹیشن کنٹرول چھوٹ دینا چاہئے ۔
لیکن ان احکامات پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہو پایا۔ آج بھی ہزاروں مسجدوں ، عیدگاہوں ، درگاہوںاور قبرستانوں کی ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ نا جائز ہے جو ہمارے سیکولر اور جمہوری نظام کے منھ پر ایک قرار ا طمانچہ ہے ۔وقفیہ جائیدا د سود در سود یا چکرورتی سود کے فارمولے پر غریب اور محنت کش انسانوں کا خون پی کر نہیں اکٹھا کی گئی ہے وہ تو اپنے حق حلال کی جائیداد کو اپنے وارثوں کا پیٹ کاٹ کر انسانی فلاح و بہبود کے ایک عظیم مقصد کو سامنے رکھ کے بنائی گئی ہے ۔ جس سے غریبوں، مظلوموں، ناداروں، مجبوروںاور محکوموں کی زندگی کو بہتر بنانے کا کام کیا جاتا ہے ۔ یہ مسلمانوں کے عقائد اور ایمان کا ایک حصہ ہے جو ہزاروں سال سے قائم ہے اور رہتے دنیا کی کوئی بھی طاقت ختم نہیں کر سکتی کچھ مسلم دشمن فرقہ پرست ٹیوی چینل جس طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور وقف کے خلاف ایک غیر انسانی ماحول بنا رہے ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسلامی عہد میں بنائے گئے وقفیہ نظام کو ختم نہیں کر سکتی ۔
آج کا ہندوستانی مسلمان ہر ظلم، زیادتی، نا انصافی، خونریزی اور زباں بندی کو اپنے تحمل ، وقار، ایمان ، صبر اور ہمت کے ساتھ برداشت کر رہا ہے ۔ وہ کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اس ملک کے نظم و نسخ، لا اینڈ آرڈ ر ، امن و امان ، یا عام شہری زندگی میں کوئی اثر ڈالے وہ پولس اور ایڈمنسٹریشن کے ہر ظلم کو برداشت کر رہا ہے اور اللہ کے انصاف کی طرف آنکھیں لگائے بیٹھا ہے ۔ اور اپنی طرف سے کبھی بھی کوئی کام خود ایسا نہیں کرے گا، جو ملک کے امن و مان میں خلل ڈالے لیکن مسلم دشمن فرقہ پرست طاقتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوستان کا مسلمان خواجہ سرہ نہیں ہے۔ اگرمسلم دشمن طاقتوں نے اپنے مظالم کی کوئی آخری حد مقرر نہیں کی اور مسلمانوں کی ایمان ، یقین ، اعتقاد ، عبادت ، قرآن ، پیغمبر صاحب ؐ، روایات ، مائوں بہنوں کی عزت و آبرو اور نوجوانوں کے مستقبل پر اسی طرح کے حملے جاری رکھے تو مجبور ہو کر آخری قدم مسلمان بھی اٹھائیں گے اور وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے ، جس کی ساری ذمہ داری مسلم دشمن ان ہندو فرقہ پرست عناصر کی ہوگی جو اپنے زہریلے پروپگینڈے سے ساری انسانیت کو بانٹ رہے ہیں اور اگر وہ نہیں مانے تو ہندوستان کو خاک اور خون کے ایک دریا سے گزرنا پڑے گا اور ملک بھر میں ان ہندو فرقہ پرستوں کے مظالم کے خلاف آتنک واد پھیل جائے گا جیسا کہ پاکستان میں ہوا ہے اور اس کی ساری ذمہ داری ان ہندو فرقہ پرست عناصر کی ہوگی ۔ اور ہندوستان کا مسلمان اپنے تاریخ تمدن ، ایمان ، مذہب، روایات، اخلاقی قدروں ، مائوں اور بہنوں کی عزت و عصمت کی حفاظت اور نوجوانوں کے مستقبل کے تحفظ کے لئے اپنے خون سے سر زمین ِ ہند کو لالہ زار کر دے گا ۔ اور ملک کے کونے کونے پر ہندوستان سے اپنی وفاداری جو اس کے ایمان کا ایک جزو ہے گاڑ دے گا اور ہندوستان کا پورا پورا تحفظ کرے گا۔
(مضمون نگار اترپردیش، اتراکھنڈ او ر میزورم کے گورنر رہ چکے ہیں )

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS