عرب بہاریہ کاغبار اوریوروپ

0

شاہنوازاحمد صدیقی

مغربی ایشیاکے کئی ممالک بطور خاص عرب ملکوں میں عرب بہاریہ کے کئی حقائق کوطشت ازبام کیاہے، جن سماجی رویوں پر سے پردہ اٹھا ہے، وہ یوروپ کی کشادہ قلبی اور روشن خیالی کے پروپیگنڈہ کا سچ بھی سامنے آیاہے۔
سیاسی اتھل پتھل کے شکار مغربی ایشیا سے پریشان ہوکر اور جان بچا کر بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے مغربی ممالک کا سفر کیا اور بہت سے لوگوں نے سمندر کے راستوں سے سفرکیا مگران لوگوں کو سرحدی ساحلوں پر ہی روک دیاتھا۔ یوروپی ممالک نے ان مہاجرین کو روکنے کے لیے کوششیں کیں۔ ان ممالک میں ایک سوئیڈن بھی تھا، سوئیڈن میں مہاجرین کے مسئلہ پر شدید اختلافات سامنے آئے اور کئی لیڈروں نے جم کر ان مصیبت زدہ افراد کو واپس ان کے ملکوں میں بھیجنے کی بات کہی۔ سوئیڈن کے ایک بڑے طبقہ کی رائے تھی کہ مہاجرین ان کے ملک کے سیاسی،سماجی اور اقتصادی نظام پر بوجھ بن جائیں گے اور مقامی آبادی کو پریشان کریں گے۔ حالانکہ سوئیڈن اور اسی طرح کے دیگر ملکوں کے اندر افرادی قوت کا شدید بحران ہے اور یہاں کی حکومتوں کو معمول کا کام کاج چلانے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرناپڑ رہاہے۔ اس کے باوجود مقامی آبادی مسلمانوں کو قبول کرنے کے لیے تیارنہیں۔
یوروپ کے کئی ملکوں میں مسلم اور مہاجرمخالف تحریکوں نے سیاسی نظام کو بدل دیاہے۔ ان ممالک میں ایک سوئیڈن بھی ہے، جہاں۔۔۔۔ کے انتخابات نے سماجی رویوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ سوئیڈن ڈیموکریٹس نے ہم خیال نسل پرست اور نیونازی کہی جانے والی تنظیموں اور جماعتوں کے ساتھ حکومت سازی کے لیے پیش رفت شروع کردی ہے۔ سویڈن ڈیموکریٹک پارٹی کو اب تک برا سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس جماعت کے اکثر لیڈروں کی ہمدردیاں نسل پرستوں سے ہیں مگر مسلسل کوششوں اور وسائل کی فراوانی نے آج اس جمہوریت پسند معاشرے کو ایک بدترین دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ آج سوئیڈن کی دائیں بازو کی پارٹی جس نے اپنا نام Moderate Partyرکھا ہوا ہے، دائیں بازو کے نظریات کی ایک اورپارٹی سویڈن ڈیموکریٹس، کرسچن ڈیموکریٹس اور ایک لبرل نے 349ارکان والے ایوان میں 176سیٹیں حاصل کرلی ہیں جب کہ حریف گروپ اور اب تک حکمراں بائیں بازو کی معتدل سمجھی جانے والی پارٹی کو صرف 173سیٹیں ملی ہیں۔ اس طرح سویڈن میں تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی پرعمل پیرا سیاسی محاذ اقتدار سے بے دخل ہوجائے گا۔ انتخابات جیتنے والی محاذکارویہ انتہائی جارحانہ ہے اور جرائم میں اضافہ اورقانون شکنی کی وارداتوں کو اپنے نظریہ اور مخاصمت سے دیکھتا ہے اورجرائم کی وارداتوں پرواویلا مچا کر سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی سالوں سے چلی آرہی اس حکمت عملی کی بنیاد پران پارٹیوں اور طبقات نے سماج میں اچھا خاصا عمل دخل بنالیا ہے اور حالیہ انتخابی کامیابی نے یوروپ کے کئی ملکوں میں پنپنے والی انتہاپسندی پرتوجہ مبذول کرائی ہے۔ انتہاپسند موڈریٹ پارٹی کا دوسری سب سے بڑی پارٹی کے طورپر ابھر کر سامنے آنا تشویش میں مبتلا کرتاہے۔ موڈریٹ پارٹی کا کہناہے کہ ملک میں جرائم میں اضافہ حکمراں طبقہ اورانتظامیہ کی مہاجرین کے تئیں ۔۔۔۔۔۔۔کانتیجہ ہے۔ انتخابی کامیابیوں کے بعد ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پارٹی کے لیڈر جیمی ایکسن نے اعلان کیاہے کہ وہ سویڈن میں تحفظ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے کام کریں گے۔ ان کی پالیسی پہلے سویڈن کے شہریsweden firstرہے گی۔ اس دوران کامیاب ہونے والی کچھ اور پارٹیوں نے اس انتہاپسندانہ اورتنگ نظری کے خلاف خاموشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی پورے سویڈن اور تمام شہریوں کے لیے حکمت عملی پرعمل پیراہوگی۔ اس ضمن میں اقتدار سے بے دخل ہونے والی سویڈن ڈیموکریٹ نے کہاہے کہ یہ وقت متحد ہونے کا ہے، منتشر ہونے کا نہیں ہے۔
سویڈن میں اقتدار سے بے دخل ہونے والی پارٹی سویڈن ڈیموکریٹس کی خاتون وزیراعظم ایڈرسن نے اپنی پارٹی کی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہاہے وہ ملک کی عالمی سطح پرشناخت کو لے کر فکرمند ہیں۔ جبکہ آخری نتائج بتاتے ہیں کہ انتخابات میں شکست کے باوجود سویڈن ڈیموکریٹس کوحاصل ہونے والے ووٹوں کی شرح سب سے زیادہ 20.6فیصد ہے جبکہ اقتدار میں آنے والی پارٹی موڈریٹ پارٹی کو 19.1فیصدووٹ ملے ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹس کو 30.4ووٹ ملے ہیں۔
اقتدارمیں آنے کے باوجود موڈریٹ پارٹی کو حکومت کا انتظام و انصرام چلانے میں دشواریاں آسکتی ہیں، کیونکہ دونوں پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد میں معمولی فرق ہے اور اگر جیت حاصل کرنے والے محاذ کی کوئی ایک پارٹی اتحاد پر نظرثانی کرتی ہے تو سیاسی کھیل بدل سکتا ہے۔
سویڈن کو عالمی سطح پر بھی کئی چیلنجوں کا سامناہے۔ ملک میںاشیا کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ پڑوسی بالٹک ممالک میں یوکرین پر روسی حملہ کے بعد اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔ سویڈن ناٹو ممالک میں شمولیت کاخواہش مندہے جبکہ روس نے اس کے دعوؤں پراعتراض داخل کررکھاہے۔ ناٹو کی ممبرشپ کے معاملہ میں سویڈن اس لیے فکرمند ہے کہ اس پردفاعی ضروریات اورتوانائی کے عوامی مطالبات پورے کرنے کا دباؤ ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS