ایس سی او چوٹی کانفرنس

0

ازبکستان کے تاریخی شہر سمر قند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کی 22ویں چوٹی کانفرنس میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے اشاروں اشاروں میں پاکستان کے تعلق سے جو باتیں کہی ہیں انہیں کسی بھی لحاظ سے غلط نہیںکہاجاسکتا ہے بلکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی پالیسی اوراس کے کردار کو عالمی سطح پر اجاگر کیاجائے ۔ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد پریشان حال افغانستان کیلئے،پاکستان کے راستے امدادی سامان کی فراہمی میںپاکستان کی جانب سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں کے مدنظر وزیراعظم نے آج ہوئی اس چوٹی کانفرنس میں بجاطور پر کہا کہ ایس سی او کے رکن ممالک کو ایک دوسرے کو ٹرانزٹ کا حق دینا چاہیے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ آج پوری دنیا کو کووڈ کی وبا کے بعد معاشی بحالی کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں ایس سی او کا کردار بہت اہم ہے۔ رکن ممالک کے درمیان مزید تعاون اور باہمی اعتماد کو بڑھایا جانا چاہیے تاکہ مختلف طرح کے چیلنجوںکا مقابلہ کیا جاسکے۔
شنگھائی تعاون تنظیم یوریشیا کے9ممالک چین، ہندوستان، پاکستان، قزاقستان، کرغزستان، روس، تاجکستان، ازبکستان اور ایران پر مشتمل ہے ۔اس تنظیم کا مقصد سیاسی، اقتصادی اور عسکری معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے ۔عالمی جی ڈی پی میں ان 9 ممالک کی حصہ داری مجموعی طور پر30فیصد ہے اور دنیا کی تقریباً 40 فیصد آبادی ان ہی ممالک میں رہتی ہے، ایسے میں ان رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کی فضاکمزور ہونے کی صور ت میںدنیا کی آدھی آبادی کونہ صرف مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑے گابلکہ خطہ میںترقی کی رفتار بھی سست ہوگی اور مختلف طرح کے مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوں گے ۔
2015میں ایس سی او کی رکنیت حاصل کرنے والا ہندوستان ہراجلاس میں اس بات پر زور دیتا رہاہے کہ وسطی ایشیا میں مالی اور تجارتی بہائو میں رکاوٹ کی وجہ سے خطہ کی ترقی اورشرح نمو میں کمی آئے گی اور رکن ممالک کو اس کے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ سال ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہونے والے اجلاس میں بھی ہندوستان نے ان ہی امور کی جانب توجہ دلائی تھی خاص کر افغانستان کے حوالے سے تشویش کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مالی اور تجارتی بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے افغان عوام کے معاشی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر افغانستان میں ترقیاتی کام ہوتے ہیں تو اس سے منشیات، غیر قانونی اسلحہ اور انسانی اسمگلنگ کا بے قابو بہاؤ روکا جاسکتا ہے ۔ان تشویشات کے ازالہ کیلئے ہندوستان اپنی سطح سے کام بھی کررہا ہے لیکن پاکستان اس میں بڑی رکاوٹ بناہوا ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی یہ 22ویں چوٹی کانفرنس ایک ایسا پلیٹ فارم تھی جس کاہندوستان نے صحیح استعمال کیا۔تمام رکن ممالک کے سربراہان مملکت کی موجودگی میں اس اہم مسئلہ کا ذکرکرتے ہوئے پاکستان کے رویہ پر بالواسطہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرکے ہندوستان نے بتادیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی افادیت کیلئے لازم ہے کہ رکن ممالک میں باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ ہو اور وہ انسانی بنیادوںپرکام کرتے ہوئے خطہ کی ترقی میںاپنا تعاون ڈالیں ۔
اب دیکھنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک اس کاز کوکتنی اہمیت دیتے ہیں ۔ ویسے بھی دوسری جنگ عظیم کے ہولناک نتائج جھیل چکی دنیا نے پرامن بقائے باہمی کیلئے کئی تنظیمیں بنائیں اور آپسی تعاون کے ساتھ ترقی اور استحکام کے راستہ پر سفر جاری رکھنے کیلئے خود کو وعدوں اور معاہدوں کا پابند کیا لیکن تیز رفتار ترقی کے ساتھ ان وعدوں اور معاہدوںکی پاسداری میں کمی آتی گئی ۔ترقی اور طاقت میںا ضافہ کے ساتھ ساتھ علاقائیت اور قومیت کے جذبے بھی بے لگام ہوئے اورپھر پرامن بقائے باہمی کا مقدس عہدکہیں تاریکیوں میں کھوگیا ۔ آج بھی درجنوں علاقائی اور عالمی تنظیمیں و ادارے موجود ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا تباہی اور بربادی کے دہانے پر ہے۔ جنگیں، ماحولیاتی تباہی، بھوک، بے روزگاری، لاعلاجی، جہالت، ہلاکت، قتل وغارت گری اور قدرتی آفات معمول بن چکے ہیں۔دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیںبچا ہے جہاں ظلم و جبر، بربریت اورا نسانیت کی الم ناک تذلیل نہ ہورہی ہو۔ معاشی انتشارکا ساراملبہ غریب اور محنت کش عوام پر ڈال کر چند مخصوص ہاتھ ترقی اور استحکام کے ثمرات کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف نہ ہوں۔
شنگھائی تعاون تنظیم بہرحال ایک علاقائی تنظیم اور 9رکن ممالک کا اقتصادی اور سیکورٹی بلاک ہے ۔اگر دنیا کے اس بلاک میں امن و استحکام،ترقی اور خوشحالی کی کوئی کوشش ہوتی ہے تو اسے مستحسن نظروں سے دیکھاجانا چاہیے ۔جس طرح ہندوستان اس کوشش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاہے، اسی طرح دوسرے ممالک خاص کر پاکستان کو بھی اپنے غیر ضروری تحفظات کے دائرہ سے باہر آکر ایس سی او کے منشور کی پاسداری کرنی چاہیے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS