کیا مفت مراعات کا وعدہ غیر جمہوری ہے؟

0

ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ مفت مراعات کے اعلانات اور وعدوں پر زبردست سیاسی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ شمالی ہندوستان میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کے ذریعہ بجلی ، پانی اور عورتوں کی ڈی ٹی سی کی بسوں میں مفت سفر کے بعد کئی پارٹیوں نے مختلف ریاستوں میں اس طرح کے اعلانات کرکے عوتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، دہلی میں عام آدمی پارٹی کے اعلانات کا کافی اثر دیکھا گیا اور راجدھانی کے لوگ جو بجلی پانی کے بحران اور ان سہولیات کی قلت سے بے حد پریشان تھے اور گھنٹوں بجلی کی کٹوتی اور گندے پانی کی سپلائی سے پریشان تھے ان کے لیے یہ اعلانات بہت اہمیت کی حامل تھی۔
دہلی میں عام آدمی پارٹی کے دور اقتدار میں بجلی کی سپلائی بہتر ہوئی بلکہ یہ سہولیات سستی شرحوں پر بھی ملیں ، اس سے قبل کی حکومتیں اور ادارے نہ صرف ان کا خدمات کو زیادہ قیمتوں پر فراہم کر رہے تھے بلکہ زیادہ قیمت ادا کرنے کے باوجود بھی ان ان کو بجلی اور پانی وافر مقدار اور ضرورت کے مطابق نہیں مل رہا تھا۔ عام آدمی پارٹی نے ان ہی مراعات کی بنیاد پر کئی ریاستوں میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی اور پنجاب اور گوا وغیرہ جیسی چھوٹی ریاستوں میں پارٹی ایک طاقتور سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ اس سال پنچاب میں ہونے والے اسمبلی اس بات نے دو قدم آگے جا کر عام آدمی پارٹی پارٹی نے روزگاروں اور عورتوں کے لیے زیادہ پر کشش مراعات کا اعلان کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ یہی اعلانات داخلی خلفشار کی شکار کانگریس سرکار کے زوال میں اہم رول ادا کرنے والے ثابت ہوئے۔
پچھلے چھ سات سال کے دوران راجدھانی دہلی میں اس طرح کے اعلانات اور انتخابی دعدوں سے سیاسی گلیاروں میں ہل چل محسوس کی گئی مگر جنوبی ہندوستان میں اس طرح کے اعلانات عام بات تھی۔ اگرچہ آج یہ مسئلہ دوبارہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے مگر اس سے قبل بھی 2013 میں اس بابت سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے۔ تمل ناڈو کی سرکار کا موقف اس معاملہ پر مرکزی سرکار کے موقف سے بالکل جداگانہ ہے۔ تمل ناڈو میں ایک طویل عرصہ سے گیہوں چاول ٹیلی ویژن ساڑھی اور اسی طرح دیگر مراعات مفت دینے کے اعلانات ہو رہے ہیں ، وہاں ڈی ایم کے اور اے آئی ڈی ایم جیسی اہم علاقائی سیاسی جماعتوں میں مراعات کے معاملہ میں کافی مقابلہ آرائی دیکھنے کوملتی رہی ہے۔ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے اعلانات کرتی رہی ہیںمگر الیکشن جیتی رہی ہیں۔
سپریم کورٹ میں اس معاملہ پر حالیہ سماعت کے دوران بھی ڈی ایم کے کار رویہ مرکز کے رویہ کے عین بر خلاف رہا ہے۔
ڈی ایم کے کے قانون دان اور راجیہ سبھا کے ممبر پی ولسن نے مرکزی سرکار کے ذریعہ استعمال کی جانے والی مراعات یا سہولیات کی مفت کی ریوڑیوں (Freebees) پر اعتراض درج کرایا ہے۔ سپریم کورٹ میںداخل اپنے حلف نامہ میں انہوں نے کہا ہے کہ سرکاروں کو عوام کے لیے وقار کے ساتھ بنیادی سہولیات غذا، کپڑا، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ وغیرہ مہیا کرانا چاہیے۔ ڈی ایم کے کا کہنا ہے سہولیات فراہم کرانا حکومتوں کا فرض ہے اور عوام (ووٹران) کا حق ہے۔ یہ مفت کی ریوڑھیاں نہیں بلکہ فلاحی اسکیموں کا نفاذ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین میں ریاست کے رہنما اصولوں Directive Principles State Policyکے تحت ان مراعات کا تذکرہ ہے۔
ہندوستان کا سماجی ڈھانچہ بالکل جداگانہ نوعیت کا ہے اور سیاسی پارٹیوں کو اسی کے مطابق اپنی پالیسیاں وضع کرنی پڑتی ہیں، اس سمت میںصنفی مساوات کا معاملہ کا فی اہمیت کا حامل ہے، ہندوستان میں لڑکیوں پر لڑکوں کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ لڑکیوں کو اقتصادی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ کئی ریاستوں اور طبقات میں اس عدم مساوات کو حوصلہ شکنی کے لیے سرکاریں لڑکیوں کی پیدائش پر خصوصی مراعات کا اعلان کرتی رہی ہیں۔ تمل ناڈو میں لڑکی کی پیدائش پر اسی کے نام پر 50 ہزار روپے فنڈ ڈپوزٹ کیا جاتا ہے اور جب وہ اٹھارہ سال کی ہو جاتی ہے تو اس کو توڑ دیا جاتا ہے۔ جس سے والد ہی کو اس لڑکی کے فیصلے میں مدد ملتی ہے۔ جب خاندان میں دو لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں تو سرکار اس رقم کو آدھا آدھا دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے اور دونوں کے نام میں پچیس پچیس ہزار روپے الگ اگل اکائونٹ میں منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ بی جے پی آج ریوڑی کلچر ختم کرنے کی بات کر رہی ہے مگر خود اسی پارٹی نے ہندوستانی کمیٹیوں کے کارپوریٹ ٹیکس میں تخفیف کرکے 22 فیصد کرنے کا انتخابی وعدہ کیا تھا۔ بی جے پی نے ٹیکس دہندگان کو خاص طور پر نوکری پیشہ افراد کو ٹیکس میں رعایت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ سیاسی پارٹیاں دہندگان کو انہیں طرف لانے کے لیے اسی طرح کے اعلانات کرتی ہیں اور الیکشن کمیشن کو اس معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں اور عوام کے درمیان کا معاملہ اور سیاسی پارٹیاں ان ہی انتخابی نکات وار وعدوں کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS