ع ع’’قابل توجہ‘‘ع ع

0

حمنہ کبیر (وارانسی)
موبائل فون نے جہاں ہمیں کئی سہولیات دے رکھی ہیں وہیں ہم سے کتابوں جیسی بہترین نعمت تقریباً چھین چکی ہے۔ نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کے رجحان میں جس طرح کمی آئی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ نوجوانوں میں مطالعہ کا شوق تو ابھی باقی ہے لیکن بچوں میں یہ شوق تقریباً ختم ہی ہو چکا ہے۔کتابوں کے شوقین کسی نا کسی طرح مطالعہ کے لئے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ بچپن میں کئی معیاری رسالوں اور کتابوں تک ہماری رسائی تھی، جن میں سبق آموز کہانیاں اور ہمارے پیارے نبیوں کے حقیقی واقعات ہوتے تھے۔ انہں پڑھتے رہنے سے ذہن میں مثبت سوچ آتی تھی، حوصلہ افزائی ہوتی تھی اور صحیح غلط کی پہچان کا سلیقہ بھی آتا تھا۔ بڑوں کی تربیت اپنی جگہ لیکن بچپن سے ہی ان سبق آموز کہانیوں کو پڑھتے رہنے سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے کہ جھوٹ بولنا، چوری کرنا، پڑھائی سے بھاگنا ، بڑوں سے بے ادبی کرنا، دھوکہ دینا وغیرہ بہت غلط اور گناہ کی بات ہے۔ چوری چھپے کرنے پر بھی یہ غلط باتیں ایک دن سامنے آہی جاتی ہیں اور سب کے سامنے رسوائی بھی خوب ہوتی ہے۔ ساتھ ہی بچوں کے رسائل میں شامل ان کہانیوں اور قصوں سے خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی ملا کہ کس طرح فلاں کردار نے اپنی محنت سے امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا نام روشن کیا۔ ان رسائل کے مطالعہ سے پڑھنے میں روانی بھی آئی۔ لیکن اب بچوں کے ہاتھوں میں موبائل ہے جو ان کے ذہن کی نشو نما ،مزاج اور تعلیم پر بری طرح اثرانداز ہوچکا ہے۔ مطالعہ کا جیسے جیسے شوق کم ہوتا جارہا ہے افسوس ویسے ویسے ہی بچوں کے معیاری رسائل بھی بند ہوتے جا رہے ہیں۔لیکن ابھی بھی بچوں کے لئے کئی میگزین آتی ہیں جن میں رنگ برنگی تصاویر کے ساتھ دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح کے رسالے بچوں کی توجہ کھینچنے میں کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے ہاتھوں سے موبائل ہٹا کر انہیں کتاب پکڑانے کی اشد ضرورت ہے۔ آپ کی تربیت اپنی جگہ لیکن اگر وہ کہانیوں سے سیکھ رہے ہیں تو ان کے دل و دماغ پر یہ کہانیاں نقش ہو جائیں گی، غلط اور صحیح کا فرق معلوم ہوگا اور ساتھ ہی اردو کی بھی خدمت ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں والدین بھی کوتاہی کرتے ہیں۔انہیں اس بات کی بہت شکایت رہتی ہے کہ بچہ سارا دن موبائل میں وقت ضائع کرتا ہے، ضدی اور چڑچڑا ہوگیا ہے۔ لیکن والدین اس کا حل نہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔کچھ دیر کے لئے ان سے موبائل زبردستی لینا حل نہیں اس سے بچوں کے اندر والدین کے تئیں منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ موبائل پر وڈیو گیمز کھیلنے والے بچوں نے اپنا حشر اور بھی برا کر رکھا ہے۔ جس عمر میں انہیں دیگر بچوں کے ساتھ پڑھنا اور کھیلنا چاہئے وہ گیم کھیلنے کے لئے تنہائی ڈھونڈنے لگے ہیں۔ ویڈیو گیمز کھیلنے والے اکثر بچے بدتمیز اور چڑچڑی پن کا شکار ہوتے ہیں۔ کورس کی کتابیں پڑھتے ہوئے، کھانا کھاتے ہوئے، دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بھی ان کا ذہن وڈیو گیم کے کسی لیول میں اٹکا رہتا ہے۔ یہ چیز ان کے ذہن کی نشو نما کے لئے بہت مضر ہے۔ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے ذہن کو موبائل سے ہٹا کر ان کو کتابوں یا دیگر مثبت دلچسپیوں کی طرف راغب کریں۔ اس سلسلے میں بچوں کے رسائل بہترین ثابت ہوں گے۔ ان میں بچوں کی دلچسپی کے لئے پہیلیاں، مقابلے ، اور پینٹنگ جیسے دیگر کالم بھی ہوتے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کو معیاری رسائل تحفے میں بھی دے سکتے ہیں۔ اس سے انہیں کتابوں کی اہمیت بھی سمجھ میں آنے لگے گی اور انہیں پڑھنے کی دلچسپی بھی پیدا ہوگی۔اچھی کتابوں کے مطالعہ سے بچوں کو سیکھنے سمجھنے کا موقع تو ملے گا ہی ساتھ ہی ان کا ذہن بھی کھلے گا جو موبائل کی وجہ سے بند ہوتا جا رہا ہے۔ مطالعہ کا اپنا شوق بچوں میں منتقل کریں۔ آپ بھی اس تعلق سے کوشش کرسکتے ہیں بلکہ ہماری ذمہ داری بھی ہے کہ مطالعہ کے شوق کو نئی نسل میں باقی رکھا جائے، کہیں ایسا نا ہو کہ کتابوں اور مطالعہ کا شوق رکھنے والی یہ ہماری آخری نسل ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS