یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ شام صبحِ امن سے دور کیو ں ہے ؟ کیا گیارہ برس کسی ملک میں امن بحال کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتے؟ انسانوں کی فلاح و بہبود کے نام پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق کے خلاف اس لیے جنگ کی تھی کہ اس کے پاس عام تباہی کے ہتھیار ہیں، یہ بات الگ ہے کہ بعد میں جنگ کا یہ جواز غلط ثابت ہوا تھا، تو پھر شام میں انسانوں کی ہلاکتوں کو دیکھنے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے باضابطہ فوجی کارروائی کیوں نہیں کی؟ اس کا ایک جملے میں کوئی حتمی جواب دینا مشکل ہے، البتہ ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ عام طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک انسانیت پسندی اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ اسی جگہ کرتے ہیں جہاں انہیں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ جب تک صدام حسین ان کے دوست بنے رہے، ان کا قصور انہیں نظر نہیں آتا تھا۔ صدام ان کے خلاف ہوئے تو عراق میں انہیں عام تباہی کے ہتھیار بھی نظر آگئے، جنگ چھیڑنے اور صدام کو تختۂ دار پر چڑھانے میں بھی انہوں نے تاخیر نہیں کی۔ اسی طرح آج انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ شام تباہ ہو چکا ہے، بڑی تعداد میں شام کے لوگ مارے جا چکے ہیں اور ابھی بھی مارے جا رہے ہیں، وہ امن کے لیے ترس رہے ہیں اور امن کی خاطر ہی ان میں سے بہتوں نے مختلف ملکوں میں پناہ لے رکھی ہے بلکہ نظر یہ آتا ہے کہ کہاں ایرانی نواز ملیشیا کا ٹھکانہ ہے، اس کے خلاف کب اور کیسے کارروائی کرنی ہے۔ کوئی امن پسند شخص یہ نہیں کہتا کہ کسی ملیشیا کے خلاف کارروائی نہ کی جائے، البتہ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور اسی لیے اس سے یہ امید ضرور رکھی جاتی ہے کہ وہ ہر اس ملیشیا اور گروپ کے خلاف کارروائی کرے جو شام میں امن کی بحالی میں رکاوٹ ہیں مگر امریکہ نے اس سلسلے میں اب تک مایوس ہی کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ شام میں امریکہ کی کارروائی اپنے اور اپنے اتحادیوں کے مفاد کے تحفظ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ 25 اگست کو شام کے علاقے دیر الزور میں العمر آئل فیلڈ میں امریکی اڈے کے قریب دھماکوں کی آوازیں آنے کی خبریں آئی تھیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ نے ایرانی ملیشیا کے4 ممبروں کو مار ڈالا ہے اور ان کے میزائل پلیٹ فارموں کو تباہ کردیا ہے۔ خبر یہ آئی کہ یہ حملے ان میزائل حملوں کا جواب تھے جو ٹھیک ایک دن پہلے 24 اگست کو شمال مشرقی شام میں کونیکو اور گرین ولیج کے اڈوں پر کیے گئے تھے، ان میں نشانہ بین الاقوامی اتحادی افواج بنی تھیں۔ 25 اگست کے حملوں کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ’امریکیوں کی حفاظت کے لیے شام میں ایران نواز ملیشیا کو نشانہ بنایا گیا۔‘ مطلب یہ کہ اگرامریکہ چاہے تو شام میں بھی فوجی کارروائی کرنے میں اسے دشواری پیش نہیں آئے گی، پھر وہ شام میں امن بحال کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟کیا وہ کوشش اس لیے نہیں کرتا، کیونکہ شام جتنا تباہ ہوگا اس خطے میں ایران کے اثرات اتنے ہی کم ہو جائیں گے، حزب اللہ جیسی تنظیمیں کمزور ہو جائیں گی، اسرائیل اور طاقتور ہو جائے گا اور ضرورت پڑنے پر ترکی سے نمٹنے میں بھی آسانی ہوگی؟ ترک صدر رجب طیب اردگان اسی لیے شام میں کردوں کو مسلح کرنے کے خلاف رہے ہیں اور اسی لیے ترکی شامی کردوں کے خلاف کارروائی کرتا رہا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر شام کے کردوں کو فری چھوڑ دیا گیا تو ترک علیحدگی پسند کرد اور مضبوط ہو جائیں گے، پھر ان سے نمٹنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ایران کے بھی اپنا دائرہ اثر قائم رکھنے کے لیے شام میں مسلح گروپوںکی مدد کی خبریں آتی رہی ہیں۔ ایران سے روس کے اچھے تعلقات ہیں، یہ تعلقات شام میں اس کے ایک اہم رول ادا کرنے کی وجہ سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بشار الاسد کے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے مستحکم تعلقات ہیں، شام کے معاملات میں روس کے ایک اہم رول ادا کرنے کی یہ بھی وجہ ہے۔ ادھر امریکہ کے اسرائیل اور سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہیں، یہ تینوں ملک ایران کے خلاف ہیں، اس لیے ان کا بھی شام میں رول ہے یعنی شام دنیا کے طاقتور ملکوں کی ہی نہیں، علاقائی طاقتوں کی بھی پراکسی وار کا میدان سا نظر آتا ہے۔ اسی لیے شام کے امن پسند لوگوں کی آواز ابھر نہیں پاتی اور اسی لیے اس بات کا اندیشہ تو ہے کہ شام کے حالات مزید خراب ہوں گے مگر اس امید کے، کہ تشدد کا سلسلہ جلد ہی ختم ہوگا، صبح امن کا سورج طلوع ہوگا، بر آنے کے لیے کوئی اطمینان بخش بات نظر نہیں آتی۔
[email protected]
صبح امن سے دور کیو ںہے شام؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS