نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے مولاناجلال الدین عمری

0

نیاز احمد سجاد ندوی
کل نفس ذائقۃ الموت یہ نظام برحق ہے کہ جو بھی اس دار فانی میں آیا ہے ایک نہ ایک دن جانا ہے لیکن کچھ لوگوں کے گزر جانے سے جس سے چند افراد نہیں بلکہ پورا ملک اور پوری ملت یتیم ہو جاتی ہے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ مؤرخہ 26 اگست رات ساڑھے آٹھ بجے الشفا ہاسپٹل اوکھلا۔ دہلی سے یہ دل دوز خبر ملی کہ مفکر قوم و ملت مولانا سید جلال الدین عمری اب اس دار فانی سے دار البقاء کی طرف 88 سال کی عمر میں کوچ کر گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا مرحوم کی پیدائش صوبہ تمل ناڈو کے ایک گاؤں پتکرم میں 1935 میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم گاؤں سے مکمل کرکے جامعہ دار السلام عمرآباد سے 1954 میں فضیلت کی ڈگری حاصل کی اور مدراس یونیورسٹی سے منشی فاضل کی ڈگری حاصل کرکے علی گڑھ سے انگریزی میں گریجویشن کیا۔ علی گڑھ سے فراغت کے بعد وہ مستقل طور پر جماعت اسلامی ہند سے منسلک ہو گئے اس دوران وہ کئی عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے اپنے مشن کا آغاز شمالی ہندوستان سے کیا اور مختلف جگہوں پر اپنی خدمات انجام دیں۔ کبھی رامپور کو اپنا مسکن بنایا تو کبھی علی گڑھ کو اپنا مرکز بنایا اور کبھی دہلی کو۔غرض کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کے نشیب و فراز شمالی ہندوستان کی نذر کر دیئے۔
مولانا کا شمار ہند و پاک کے ممتاز اکابرین میں ہوتا تھا مولانا کی رحلت ملت اسلامیہ اور ملک ہندوستان کے لئے عظیم خسارہ ہے۔ مرحوم کو ملک کی متنوع دینی ،ملی ، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں شرکت اور اس کی رہنمائی کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے کئی اداروں کے رکن رکین رہے ہیں اور 2007 سے 2019 تک جماعت کی امارت کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی اور اس کے بعد جماعت کی شریعہ کونسل کے چیئرمین بنا ئے گئے اور اخیر عمر تک اس کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔
مولانا سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ بہت ہی خندہ پیشانی سے پیش آتے تواضع و انکساری ان کا جزء لا ینفک تھا۔ ان کی یاد داشت بہت پختہ تھی، اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب چند برس پہلے وہ کویت تشریف لائے تھے حالانکہ بالمشافہ ملاقات کئے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا تھا لیکن شکلا انہوں نے پہچان لیا ہاں نام کے لئے کہا کہ ذہن میں نہیں ہے اور ایک جملہ انہوں نے مختصر سی ملاقات کے دوران کہا تھا وہ آج بھی اسی طرح جنجھوڑتا رہتا ہے کہ لگتا ہے کہ انہوں نے ابھی کہا ہو۔ وہ جملہ جملہ نہیں بلکہ ایک مشن اور مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے، وہ جملہ یہ تھا
’اپنا مقام پہچانو اور والدین کی قدر کرو‘
اصل میں اپنے ملک سے باہر رہنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ یہاں کی چمک دمک سے مرعوب ہوکر اصل مقصد اور مشن سے دور نہ ہو جانا اور والدین کی رضامندی کا ہمیشہ پاس و لحاظ رکھنا۔ نوجوانوں کو کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ اس امت کے بیش بہا اور قیمتی گوہر ہیں جس کی قیمت کوئی نہیں لگا سکتا آپ اپنی قدر و منزلت کا خود اندازہ لگائیں۔
مولانا کو قوم و ملت کی ہمیشہ فکر رہتی تھی اور اپنی خطابت اور تحریروں سے امت کی آبیاری کرتے تھے۔ آپ کو طالب علمی کے زمانے سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا آپ کا مزاج محققانہ اور تحریر مفکرانہ ہوا کرتی تھی۔ آپ کی تحریروں میں جہاں فکر مودودی کا عکس نظر آتا ہے تو وہیں سید قطب کی جواں مردی اور امام غزالی کے مجاہدانہ کردار کی جھلک ملتی ہے۔ آپ سراپا نابغہ روزگار اور بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔
آپ کی تصانیف و تالیفات کا سلسلہ مختلف موضوعات پر درجنوں میں پھیلا ہوا ہے جن میں تجلیات قرآن،احکام ہجرت و جہاد، خدمت خلق کا تصور، انفاق فی سبیل اللہ، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں ، اسلام انسانی حقوق کا پاسباں، عورت اسلامی معاشرے میں قابل ذکر ہیں آپ کے متعدد فکری و علمی مضامین زیر قرطاس ہو کے ملک اور بیرون ملک شائع ہو چکے ہیں۔آپ کی شخصیت قدیم و جدید کا سنگم تھی، آپ مفکر و محقق کے ساتھ ایک سچے داعی اور مبلغ تھے۔ جرات و ایثار اور غیرت آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ آپ کا مطالعہ کافی وسیع تھا ، آپ کی تحریریں اس کی شاہد ہیں آپ کی پوری زندگی قوم و ملت کے لئے وقف تھی۔ زندگی بھر انسانیت کی خدمت کرتے رہے اور پوری امت ان کے فیوض وبرکات سے فیضیاب ہوتی رہی۔ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت کرے اور اعلی علیین میں جگہ دے اور قوم و ملت کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔
جھونکے نسیم خلد کے ہونے لگے نثار
جنت کو اس گلاب کا تھا کب سے انتظار
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS