2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے یہ بات موضوع بحث بن جایا کرتی تھی کہ کیا بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار وزیراعظم کے امید وار ہوں گے مگر جنتا دل یونائٹیڈ نے راشٹریہ جنتا دل اورکانگریس کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کی سربراہی والے این ڈی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ نتیش بہار کی سیاست میں ہی سرگرم رہنا چاہتے ہیں یعنی 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں وہ این ڈی اے اور وزیراعظم نریندر مودی کے لیے چنوتی بننا نہیں چاہتے۔ اس بار حالات مختلف ہیں۔ نتیش این ڈی اے سے رشتہ توڑ کرپھر سے راشٹریہ جنتادل اور کانگریس وغیرہ کے ساتھ آگئے ہیں، اس لیے ایک بار پھر یہ بات موضوع بحث بننے لگی ہے کہ کیا 2024 میں نتیش کمار ہی اپوزیشن کے وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اپوزیشن کے پی ایم امیدوار ہو سکتے ہیں، تیجسوی یادو نے کوئی واضح رائے تو نہیں دی، البتہ ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نتیش کمار کے پی ایم امیدوار بننے کے حق میں ہیں۔ تیجسوی نے جہاں یہ کہا کہ ’میں پورے اپوزیشن کی جانب سے بولنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ حالانکہ اگر غور کیا جائے تو نتیش جی یقینی طور پر ایک مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔‘ وہیں یہ بھی کہا کہ ’گزشتہ 50 سال سے وہ ایک سماجی اور سیاسی کارکن رہے ہیں۔ انہوں نے جے پی اور ریزرویشن تحریکوں میں حصہ لیا۔ ۔۔۔ان کے (نتیش کمار کے) پاس 37 سال سے زیادہ کا وسیع پارلیمانی اور انتظامی تجربہ ہے اور انہیں زمینی سطح پر اور اپنے ساتھیوں کے درمیان بے پناہ حمایت حاصل ہے۔‘ یعنی تیجسوی نے نتیش کمار کو پی ایم امیدوار بنانے کی ایک طرح سے بھرپور حمایت کر دی ہے اور ان کا ایسا کرنا ناقابل فہم بھی نہیں، نتیش اگر اپوزیشن کے پی ایم امیدوار بنیں گے تو تیجسوی یادو کے بہار کا وزیراعلیٰ بننے کی راہ خود بخود ہموار ہو جائے گی، خود نتیش کمار ہی ان کا نام وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کر دیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، البتہ لوک سبھا انتخابات میں ابھی بھی ڈیڑھ سال سے زیادہ کا وقت ہے اور یہ بات دعوے سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس وقت حالات اسی طرح کے رہیں گے جیسے ابھی ہیں۔ کہنا یہ بھی مشکل ہے کہ اس وقت نتیش بہار کی سیاست تک ہی خود کو محدود رکھناچاہیں گے یا مرکزی سیاست کی طرف رخ کرنا چاہیں گے۔
اس میں دورائے نہیں ہے کہ مہاراشٹر کے جھٹکے کے بعد بہار میں نتیش کمار کو ساتھ لے کر حکومت بنا لینا اپوزیشن کی بڑی کامیابی ہے۔ تیجسوی یادو کی یہ بات فہم سے بالاتر نہیںہے کہ ’جنتا دل یونائیٹڈ، آر جے ڈی، کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے متحد ہونے کے بعد عظیم اتحاد کا اقتدار میں آنا اپوزیشن اتحاد کے لیے اچھا اشارہ ہے۔‘ اگر بہار کی بات کی جائے تو 2020 کے اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی کو 23.11 فیصد، بی جے پی کو 19.46 فیصد، جے ڈی یو کو 15.39 فیصد، کانگریس کو 9.48 فیصد، سی پی آئی (ایم ایل ایل) کو 3.16 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 24.4 فیصد، آر جے ڈی کو 18.4فیصد، جے ڈی یو کو 16.8 فیصد، کانگریس کو 6.7 فیصدووٹ ملے تھے یعنی 2015 کے مقابلے 2020 میں بی جے پی کو تقریباً 5 فیصد ووٹ کم ملے تھے۔ بی جے پی کی یہی حالت 2014کے لوک سبھا انتخابات کے مقابلے 2019کے لوک سبھا انتخابات میں رہی تھی۔ 2019 میں اسے 23.58 فیصد ووٹ تو ملے تھے مگر 5.82 فیصد ووٹ کم ملے تھے۔ 2024 میں بھی عظیم اتحاد اگر قائم رہا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ نئے حالات کیا ہوں گے جبکہ بہار میں لوک سبھا کی 40 سیٹیں ہیں۔ بہار کی سیاست کا اثر اترپردیش پر بھی پڑنے کا امکان رہتا ہے۔ وہاں تو 80 سیٹیں ہیں، 2019 اور 2014 دونوں ہی بار اس ریاست کا مرکز میں این ڈی اے حکومت بنانے میںاہم رول رہا ہے، کیونکہ 2019 میں بی جے پی کو اترپردیش سے 71 اور 2019 میں 62 سیٹیں ملی تھیں۔ وقتاً فوقتاً مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال اور مہاراشٹر کے قدآور لیڈر شردپوار کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اگلے لوک سبھا انتخابات کے لیے وزیراعظم کے امیدوار ہو سکتے ہیں، اس لیے اپوزیشن پارٹیوں کے لیے نتیش کمارکے نام پر اتفاق کرنا بہت آسان نہیں ہوگا مگر اتفاق ہو گیا توپھر بی جے پی کی سربراہی والے این ڈی اے کے لیے چنوتی بہت سخت ہو جائے گی، کیونکہ نتیش کمار اوبی سی سے ہیں، اس لیے ان کے پی ایم امیدوار بننے سے بہار میں ہی نہیں، دیگر ریاستوں میں بھی او بی سی ووٹ کو اپنے حق میں رکھنا بی جے پی کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ویسے فی الوقت دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ کیا اپوزیشن پارٹیاں نتیش کمار کو وزیراعظم کا امیدوار بناتی ہیں؟
[email protected]
نتیش کمار ہوں گے پی ایم امیدوار؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS