عبید اللہ ناصر
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
افتخار عارف کا یہ شعر ہندوستانی مسلمانوں کے تاثرات کی بالکل صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ ملک کی تقسیم کے وقت ہمارے بزرگوں نے ہندوستان میں رکنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کو ٹھکرا دیا تھا۔ انھیں مشترکہ ہندوستانی قومیت پر پورا بھروسہ تھا انھیں بھروسہ تھا کہ ہم یہاں صدیوں سے اپنے برادران وطن کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور آئندہ بھی رہ سکتے ہیں۔ یہ جو طوفان آج اٹھا ہے وہ جلد ہی سرد پڑ جائے گا۔ بٹوارہ دو بھائیوں کے بیچ بھی ہو جاتا ہے وہ ہو گیا ۔ ان کے اس اعتماد کو بابائے قوم مہاتما گاندھی جدید ہندوستان کے معمار جواہر لعل نہرو کے علاوہ مسلم اکابرین نے جنہوں نے شروع سے ہی دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند کے مطالبہ کی مخالفت کی تھی مزید مستحکم کیا۔ ترک وطن کے لئے تیار مسلم مسافروں کے ہجوم کو مولانا آزاد نے دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے جس جذباتی انداز میں مخاطب کیا وہ آج تاریخ کا حصہ ہے ان کی اس تقریر کے بعد پورا ہجوم ترک وطن کافیصلہ ترک کر کے اپنے اپنے گھروں کو واپس چلا گیا۔ مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، اکابرین دیو بند اور دوسرے مسلم رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اس وقت کی ہندوستانی قیادت نے بھی مسلمانوں کے مشترکہ ہندوستانی قومیت پر اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آئین ہند میں انھیں برابری کا درجہ دے کر ان کے حقوق اور اختیارات پر قانون کی مہر بھی لگا دی ۔ شاید بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ دستور ساز اسمبلی نے اقلیتوں کے حقوق کو آئینی گارنٹی دینے کے لئے جو ذیلی کمیٹی بنائی تھی اس کے صدر سردار پٹیل تھے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ آزادی کے بعد سے 2014 تک ہندوستانی مسلمانوں پر افتاد تو بہت سی پڑی تھیں، فسادات کا لامتناہی سلسلہ چلا، جان و مال عزت آبرو سے کھلواڑ بھی ہوا ہندوستان میں رکنے کے فیصلہ کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی لیکن آئین، جمہوریت، عدالتوں اور قانون پر سے ان کا اعتماد متزلزل نہیں ہوا اور اس اعتماد کو بنائے رکھنے میں ہندوستان کی قیادت عدلیہ، میڈیا وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا لیکن سب سے اہم کردار تھا یہاں کے اکثریتی فرقہ کے افراد کا جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں پوری طاقت سے مسلمانوں کا ساتھ دیا اور ان کے حق کے لئے سینہ سپر ہوئے۔یہ ہندوستان میں ہی ممکن تھا کہ ایک وزیر اعظم مسلمانوں کی مسجد بچانے کے لئے اپنی حکومت قربان کر دے اور ایک وزیر اعلیٰ اپنے ہی ہم مذہبوں پر گولی چلوا دے، لیکن 2014 کے بعد ہندوستان یکسر بدل گیا۔ نریندر مودی نے اپنے دور حکومت میں گجرات کو آر ایس ایس کے نظریات کی حکومت کی تجربہ گاہ بنا دیا۔ گجرات کے 2002 کے قتل عام سے لے کر گجرات میں اپنے قیام تک وہ پوری ایمانداری سے آر ایس ایس کے نظریات کو گجرات میں نافذ کرتے رہے اور اسے گجرات ماڈل کے نام پر خوب اچھالا بھی، اس ماڈل نے انھیں وزیر اعظم کی کرسی پر پہنچا دیا تو انہوں نے اسے پورے ملک میں نافذ کرنا شروع کر دیا اور اس کی خوب لہلہاتی ہوئی سیاسی فصل کاٹ رہے ہیں۔ آج وہ ہندوستان کے مقبول لیڈر ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں تب پورا ملک تالی اور تھالی پیٹنے لگتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ عوام نوٹ بندی کی تباہ کاری بھول گئے۔ تاجر طبقہ جی ایس ٹی سے لائی اپنی بربادی بھول گیا۔ مزدور طبقہ لاک ڈاؤن کی ساری پریشانیاں بھول گیا۔ ہندوستانی عوام کورونا سے تقریباً 50 لاکھ افرادکی موت بھول گئے۔ چین ہزارو مربع میل اندر گھس آیا ہے، اپنی بستیاں بھی بسا لی ہیں مگر عوام کو کوئی فکر نہیں۔ بیروزگاری 50سال کا ریکارڈ توڑ رہی ہے مگر نوجوان خوش ہے۔ آوارہ جانور فصلیں تباہ کر دیتے ہیں مگر کسان خوش ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی سرکاریں میاں کو ٹائٹ کئے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر چل رہے ہیں۔ ان پر معمولی معمولی باتوں پر سنگین دفعات کے مقدمہ درج کر کے جیلوں میں سڑایا جاتا ہے۔ وہ اپنی تکلیفوں سے پریشان ہو یا نہ ہو مسلمانوں کی تکلیفوں سے خوش ہو کر بی جے پی کو بھر بھرا کے ووٹ دے دیتا ہے۔
گجرات میں ہوئے مسلم کش فساد میں یوں تو بربریت کی ایک سے ایک داستانیں سامنے آئی تھیں لیکن ان میں بھی سب سے ہیبت ناک تھی بلقیس بانو کی داستان ۔ پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کی آبرو ریزی کی گئی اور اس کے سامنے ہی اس کے خاندان کے 7 لوگوں کو قتل کر دیا گیا جس میں اس کی 3 سال کی بیٹی بھی شامل تھی۔ نریندر مودی کی زیر قیادت اس وقت کی گجرات حکومت نے فسادیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن انصاف کے لئے لڑنے والوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ تیستا سیتلواڑ، مکل سنہا ایڈووکیٹ پٹھان جیسے سورماؤں نے ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا۔ مرکز میں حکومت تبدیل ہو چکی تھی۔ منموہن سنگھ کی سرکار بن چکی تھی گجرات کے کئی معاملات کی تفتیش سی بی آئی کو سونپ دی گئی تھی، ان میں بلقیس بانو کا معاملہ بھی تھا۔ سپریم کورٹ کا رویہ بھی بہت سخت تھا۔ گجرات حکومت کے رویہ سے ناراض ہو کر اس نے مقدمہ ممبئی ہائی کورٹ منتقل کر دیا تھا۔بلقیس کے 12 مجرموں کو عمر قید کی سزا ہوئی اور تاریخ میں سب سے زیادہ 50 لاکھ کا معا وضہ ایک مکان دینے کا حکم سپریم کورٹ نے دیا۔ 2005 میں سبھی 12 مجرمین کو جیل بھیج دیا گیا۔بلقیس بانو کو معا وضہ کی رقم مل چکی تھی مگر مکان نہیں مل سکا تھا۔ بہر حال اس کی زندگی دھیرے دھیرے معمول پر آنے لگی تھی، زخم مندمل ہونے لگے تھے لیکن عین یوم آزادی کو جب پورا ملک آزادی کی 75ویں سالگرہ منا رہا تھا، پورے ملک میں جشن کا ماحول تھا، وزیر اعظم کی اپیل کے مطابق گھر گھر ترنگا لہرایا جا رہا تھا۔ لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی خواتین کی عزت و احترام کا درس دے رہے تھے۔ ٹھیک اسی وقت گجرات حکومت نے بلقیس بانو کے مجرموں کی سزا معاف کر کے انھیں رہا کر دیا تھا ۔ پورے ملک کے انصاف پسند عناصر حکومت گجرات کے اس فیصلہ سے انگشت بدنداں ہو گئے۔ سوشل میڈیا میں اس کے خلاف آوازیں اٹھیں، اخباروں نے اداریہ بھی لکھے لیکن حکومت کی بے حسی پر کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا بلکہ بے شرمی سے اس کا بچاؤ بھی کیا جا رہا ہے۔ سزا معاف کرنے والے پینل میں شامل بی جے پی کے ممبر اسمبلی کے سی راؤل نے کہا کہ یہ سب ’سنسکاری برہمن‘تھے، جیل میں ان کا چال چلن اچھا تھا اس لئے ان کی سزا میں تخفیف کر دی گئی۔ ظاہر ہے سنسکا ری برہمن ہونا بہت بڑا سرٹیفکیٹ ہے جس کے بعد وہ ہر جرم کرنے کو آزاد ہیں اور غلطی سے جیل بھیج دئے گئے تھے جسے اب سدھار دیا گیا ہے۔ ویسے بھی خواتین آبروریزی کے معاملہ میں بی جے پی کی سرکاروں کا رویہ ہمیشہ ہی خواتین کا مخالف رہا ہے۔ جموں کی ننھی سی بچی آصفہ جس کی عمربمشکل 7-8برس کی تھی اسے اغوا کر کے ایک مندر میں رکھا گیا جہاں مندر کے پجاری اور علاقہ کے خصوصی پولیس افسر ( ایس پی او ) سمیت کئی درندوں نے کئی دنوں تک اس معصوم کا جسم نوچا اور جب وہ مرنے والی تھی تو پجاری نے اس کی حالت کی اطلاع ایس پی او کو دی تو اس درندہ نے کہا کہ ابھی اسے مرنے نہ دو آخری ریپ میں کرنا چاہتا ہوں اور جب یہ لوگ گرفتار ہوئے تو بی جے پی، آر ایس ایس اور اس پریوار کی کئی تنظیموں نے ان کی گرفتاری کے خلاف ترنگا یاترا نکالی، جے شری رام کے نعرے لگائے مزید شرمناک بات یہ ہے کہ اس احتجاجی جلوس میں بی جے پی کے تین ریاستی وزرا بھی شامل ہوئے تھے اور محبوبہ مفتی انھیں اپنی کابینہ سے برخاست نہیں کر پائی تھیں۔ اپنی جس حکومت کو بچانے کیلئے انہوں نے یہ شرمناک حرکت کی تھی، چند مہینوں بعد ہی وہ بی جے پی والوں نے ہی گرا دی تھی۔اس کے علاوہ ہاتھرس میں ایک دلت بچی کے ساتھ کیا ہوا؟ اناؤ میں بی جے پی کے ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر نے جو کیا بی جے پی کی یوگی سرکار انھیں آخری لمحات تک بچاتی رہی ۔بی جے پی کے سینئر لیڈر سابق مرکزی وزیر داخلہ اور نام نہاد مذہبی شخصیت سوامی چنمیانند پر ریپ کا الزام لگانے والی لڑکی خود جیل پہنچا دی گئی اور سوامی جی آزاد گھوم رہے ہیں ۔یہ سب شرمناک ریکارڈ بی جے پی سرکار کے کھاتوں میں ہیں۔ بلقیس کا شرمناک ریکارڈ اور اس میں شامل ہو گیا ہے مگر وہ جو کہا جاتا ہے ناں ’نکٹے کی ناک کٹی ڈھائی بالشت اور بڑھی ‘ ویسا ہی معاملہ بی جے پی کا ہے اگر اسے سیاسی فائدہ مل رہا ہے تو وہ شرمناک سے شرمانک قدم اٹھاتے ہوے زرہ برابر بھی نہیں شرمائے گی۔ بلقیس کے مجرموں کی رہائی کو گجرات اسمبلی کے مجوزہ الیکشن سے جوڑ کر ہی دیکھا جانا چاہئے ۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]