سوت نہ کپاس، جولاہوں میں لٹھم لٹھا

0

ہندوستان پاکستان کے مابین آپسی رشتے سدھرنے کی قیاس آرائی پھر شروع ہوگئی ہے۔ 15-16ستمبر کو ازبیکستان کے سمرقند شہر میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن سربراہی اجلاس ہونے جارہا ہے اور تنظیم کے رکن ہونے کے ناطے ہندوستان اور پاکستان بھی اس میں شامل ہوں گے۔ ہندوستانی فریق کی قیادت وزیراعظم نریندر مودی کریں گے جبکہ پاکستان کی نمائندگی ان کے وزیراعظم شہباز شریف کریں گے۔ 6سال میں یہ پہلی بار ہے کہ دونوں ممالک کے وزیراعظم ایک چھت کے نیچے موجود ہوں گے۔ اس سے پہلے پی ایم مودی اوفا کانفرنس میں پاکستانی پی ایم نوازشریف سے ملے تھے۔ سمجھا جارہا ہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم پھر سے ایک چھت کے نیچے ہوں گے تو پھر سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن ملاقات کے معاملہ میں پرانا ریکارڈ بھی اب پرانا پڑگیا ہے۔ پلوامہ کے دہشت گردانہ حملہ کے بعد سے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان رسمی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ یعنی وہ واقعہ بھی اب تین سال پرانا ہوچکا ہے۔ تو کیا اس بار ملاقات ہوگی؟ پہل کون کرے گا؟ بات چیت کے ایشو کیا ہوں گے؟ سب کچھ ابھی ہوا میں ہے یعنی ابھی حالات سوت نہ کپاس، جولاہوں میں لٹھم لٹھا والے ہی ہیں۔
پھر ان قیاس آرائیوں کی بنیاد کیا ہے؟ دراصل گزشتہ ماہ ہندوستان کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر اور پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو ازبیکستان میں ہی تاشقند میں ملے تھے۔ موقع ایس سی او(SCO) میں وزرائے خارجہ کی سمٹ کا تھا۔ وہاں دونوں میں رسمی ملاقات ہوئی اور دونوں نے ہاتھ بھی ملایا۔ اس سے پہلے کئی مواقع پر ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ ایک دوسرے کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتے تھے۔ لیکن اس بار بلاول بھٹو نے اپنی طرف سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ پاکستان میں شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد بلاول گاہے بگاہے ہندوستان کے ساتھ پھر سے دوستانہ رشتے بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان بھی نیبرفرسٹ کی پالیسی کے تحت دوسرے پڑوسیوں کی طرح پاکستان سے بھی رشتے بہتر کرنے کے حق میں ہے۔ شرط یہی ہے کہ پاکستان کو ماحول بھی بنانا پڑے گا جو ہونہیں رہا ہے۔ ہندوستان کا واضح طور پر کہنا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔
وادی میں مسلسل جاری دہشت گردانہ واقعات اور ٹارگیٹ کلنگ کے درمیان جمعرات کو راجوری میں فوج کے کیمپ پر فدائین حملہ کرکے اس نے ایک بار پھر اپنی فطرت دکھائی ہے۔ ایک دن پہلے جمعرات کو ہی اقوام متحدہ میں ہندوستان کی سفیر نے جرائم پیشہ گروہوں کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل کرنے اور اقوام متحدہ کے ذریعہ بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے باوجود داؤد ابراہیم جیسے مجرموں کی سرکاری مہمان نوازی کے تعلق سے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ایسے ماحول میں وزیراعظم مودی اپنی جانب سے پاکستانی وزیراعظم سے کسی رسمی ملاقات کی پہل کریں گے، ایسا ممکن نہیں لگتا۔ بیشک یہ پیشکش پاکستان کی جانب سے ہوسکتی ہے کیوں کہ اس وقت جو اس کے حالات ہیں اس میں یہ پاکستان کے لیے ضروری بھی ہے اور اس کی مجبوری بھی ہے۔ پاکستان آج ہر محاذ پر الگ تھلگ پڑا ہوا ہے۔ اس میں کافی حد تک وہ خود قصوروار ہے اور جو کسر ہے اسے ہندوستان کی نئی اور جارحاجہ خارجہ پالیسی پوری کررہی ہے۔ پاکستان کو اب لگ رہا ہے کہ اگر وہ کسی طرح ہندوستان سے مدد لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اسے دونوں مشکلوں سے راحت مل سکتی ہے۔
مسئلہ چاہے عالمی شبیہ کا ہو یا داخلی جدوجہد کا، سرگرمیاں اقتصادی ہوں یا دہشت گردانہ، مشکل مہنگائی کی ہو یا سیاسی عدم استحکام کی، پاکستان چوطرفہ بدنظمی کا شکار ہے۔ فی الحال تو سبھی مسائل کی جڑ اس کے اقتصادی دیوالیہ پن میں نظر آرہی ہے۔ پاکستان کا قرض مسلسل بڑھ رہا ہے، زرمبادلہ کا ذخیرہ بھی کچھ دنوں کا ہی بچا ہے اور کوئی بین الاقوامی ادارہ اسے قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں اس کے اوپر سری لنکا جیسے حالات کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں ایک رپورٹ کے حوالہ سے خبریں شائع ہوئی ہیں کہ مارچ تک ملک پر کل 43لاکھ کروڑ پاکستانی روپے کا قرض چڑھ چکا ہے اور اس کا بڑا حصہ گزشتہ کچھ برسوں میں آیا ہے۔ اکیلے عمران خان کی تین سال کی مدت کار میں پاکستان پر 18لاکھ کروڑ روپے کا قرض چڑھا ہے۔ اس حساب سے عمران کے دورحکومت میں پاکستان کے عوام پر روز 1400 کروڑ روپے کا قرض چڑھا۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ قرض کی ادائیگی کے لیے پاکستان بھی سری لنکا کی طرح اپنی املاک فروخت کرنے پر غور کررہا ہے۔ اس میں سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ چین کا قرض چکانے کے لیے پاکستان اسے اپنے قبضہ کے کشمیر کا گلگت-بلتستان علاقہ پٹّے پر دے سکتا ہے۔
ایشیا میں چین کی توسیع کو روکنے میں مصروف امریکہ یہ کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ ایسے میں خدشہ ہے کہ قرض اُتارنے کے لالچ میں اگر پاکستان اس فیصلہ پر آگے بڑھا تو گلگت-بلتستان مستقبل کے یوکرین اور تائیوان بھی بن سکتے ہیں۔ ویسے بھی امریکہ کئی مواقع پر کہہ چکا ہے کہ اگر گلگت-بلتستان ہندوستان میں ہوتا اور بلوچستان آزاد ہوتا تو افغانستان میں اسے نقصان نہیں اٹھانا پڑتا۔ ایسے میں ایک مصیبت سے چھٹکارہ پانے کے لیے دوسری مصیبت کو گلے لگانا پاکستان کے لیے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہوسکتا ہے۔ پاک پروردہ تحریک طالبان (پاکستان) افغانستان میں اقتدار تبدیل ہونے کے بعد اب اس کے لیے ہی ناسور بنتی جارہی ہے اور پشتون قوم پرستی کے نام پر کھلے عام پاکستانی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنارہی ہے۔ دوسری طرف اسلامک اسٹیٹ خراسان پاکستان کی سویلین آبادی پر اسی طرح ظلم ڈھا رہا ہے، جیسی سازشیں پاکستان کشمیر میں کررہا ہے۔
ان تمام صورت حال میں پاکستان کی عالمی شبیہ تیزی سے پستی کی جانب جاچکی ہے۔ جیسے میں نے پہلے کہا کہ اس میں بڑا کریڈٹ ہندوستان کی تبدیل ہوئی اور ’جیسے کو تیسا‘ والی خارجہ پالیسی کا بھی ہے۔ پہلے ہندوستان نے پٹھان کوٹ دہشت گردانہ حملہ کے بعد سرحد پر چھپے بیٹھے دہشت گردوں کو گھس کر مارا تھا، جس کے بعد پوری دنیا میں پاکستان کی پول کھل گئی تھی۔ پھر جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370ہٹانے پر بھی عمران خان کو بین الاقوامی ’نوحہ‘ کے باوجود تسلی دینے والا کوئی کندھا نہیں ملا تھا۔ دنیا کے باقی ممالک کی کیا بات کی جائے، پاکستان کو خلیج کے مسلم ممالک نے ہی الگ تھلگ کردیا ہے۔ بالخصوص گزشتہ چار پانچ برسوں میں تو پانسہ پوری طرح ہندوستان کے حق میں پلٹ چکا ہے۔ ابھی حال میں بھی جب وزیراعظم مودی متحدہ عرب امارات کے دورہ پر گئے تھے تو وہاں کے صدر استقبال کے لیے پروٹوکول توڑ کر ایئرپورٹ پہنچے تھے، جبکہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے لیے انہوں نے اپنے وزیر قانون کو بھیج کر رسم پوری کی تھی۔
ایک عام واقعہ یہ بتانے کے لیے کافی ہوگا کہ ہندوستان اور پاکستان کے رشتوں پر جمی برف کتنی غیرمعمولی ہے۔حال ہی میں پاکستان نے ریکارڈ توڑ مہنگائی کے باوجود گزشتہ سال کے مقابلہ میں 45فیصد زیادہ قیمت ادا کرکے بین الاقوامی بازار سے تقریباً پانچ لاکھ ٹن گیہوں خریدا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہی ہم افغانستان اور سری لنکا کی ایسی مدد کرچکے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ پاکستان کے ہر نظریہ پر کشمیر کا چشمہ چڑھا ہوا ہے اور جب تک یہ چشمہ نہیں اترتا تب تک صلح کی کسی بھی پہل کے پیر کا ڈگمگانا طے ہے۔ چار ماہ قبل شہباز شریف نے جب پاکستان کا اقتدار سنبھالا تھا، تو وزیراعظم مودی نے اپنے مبارکباد کے پیغام میں ہندوستان کی ایک ہی توقع کا اظہار کیا تھا- امن اور استحکام والا ایک دہشت گردی سے آزاد خطہ جس میں لوگوں کی بھلائی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جاسکے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ چار ماہ میں وہ توقع پوری ہوتی نظر نہیں آئی ہے۔ سمرقند کا سربراہی اجلاس ختم ہونے کے بعد سرحد کے دونوں جانب کے امن پسند لوگ شاید دونوں ممالک کے حکمرانوں کے بیچ رسمی ملاقات نہیں ہونے کو لے کر بھی اسی افسوس کا اظہار کررہے ہوں گے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS