صبیح احمد
روس یوکرین جنگ کے درمیان امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورئہ تائیوان نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ کے اس حیران کن قدم پر ڈریگن کا ردعمل سب کے سامنے ہے۔ چین نے تقریباً پورے تائیوان کو اپنے محاصرہ میں لے لیا ہے۔ تائیوان کے اطراف چینی اسلحہ کا جمائو اور فوجی مشقوں کا سلسلہ اس طرح جاری ہے جیسے ’مقصد کے حصول‘ سے پہلے کبھی ختم ہی نہیں ہوگا۔ امریکہ کے اس قدم سے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ جب یوکرین میں ایک محاذ پہلے سے ہی کھلا ہے تو ایسے وقت میں دوسرا محاذ کھولنے کی کیا جلدی تھی؟ ہو سکتا ہے کہ یہ امریکہ کی ایک حکمت عملی ہو، روس کو تنہا کرنے کی۔ فی الحال روس کو چین سے ہر طرح کی مدد اور تعاون مل رہا ہے۔ جب چین خود ہی اسی طرح کے فوجی تصادم میں الجھ جائے گا تو فطری طو رپر وہ روس کو ایسا تعاون دینے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا جیسا کہ وہ ابھی دے رہا ہے۔ روس اور چین دونوں سے ایک ساتھ نمٹنا اتنا آسان نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں سے الگ الگ محاذوں پر نمٹنے کے لیے ہی نینسی پلوسی کو تائیوان کے دورے پر بھیج کر امریکہ نے دانستہ طور پر ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش کی ہو۔
بہرحال امریکہ کی حکمت عملی جوبھی ہو، لیکن چین اس کے لیے بہت ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا ہے۔ اقتصادی ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے بڑھنے والا چین اپنے معاشی، سیاسی اور علاقائی دعوؤں پر جارحانہ رخ سے ذرا بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آ رہا ہے۔ امریکہ پہلے اس ملک کو ایک عطیہ خور ملک کے طور پر دیکھتا رہا، اب اسے ایک حریف کے طور پر اور پھر بہت جلد ایک خطرہ کے طو رپر دیکھنے لگا ہے۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ تنازعات ناگزیر ہیں، لیکن یہاں تک کہ کووڈ19- وبا پر کنٹرول یا ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے جیسے مشترکہ مفادات کے ایشوز پر بھی دونوں میں تعاون کا فقدان ہے۔ دونوں ملکوں کے رخ میں سخت تلخی گزشتہ ہفتہ اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا اشتعال انگیز دورہ کیا اور چین نے اس کا فوری طور پر بھرپور جواب دیا۔ تائیوان کے فضائی اور آبی حدود میں بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کر دیں۔ اس دوران بیلسٹک میزائلوں کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ چین یہ واضح پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ تائیوان کے معاملے پر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ پلوسی کے دورے سے قبل بھی تائیوان کے معاملے پر امریکی اور چینی رہنماؤں کے مابین 2 گھنٹے تک جاری رہنے والی آن لائن بات چیت کے دوران ایک دوسرے کو سخت لہجے میں خبردار کیا گیا تھا۔ صدر بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب ژی جن پنگ کو بتایا تھاکہ امریکہ اس جزیرے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے کسی بھی یکطرفہ اقدام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور یہ کہ تائیوان کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیل نہیں آئی ہے۔ دوسری جانب صدر جن پنگ نے بھی امریکی صدر کو ’ون چائنا پالیسی‘ کی پاسداری کرنے کو کہا تھا اور انہیں متنبہ کیا تھا کہ ‘جو آگ سے کھیل رہے ہیں وہ جل جائیں گے۔‘
اب سخت ردعمل کے طور پر چین نے موسمیاتی تبدیلی، ملٹری سطح کے مذاکرات، منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام اور بین الاقوامی جرائم سے نمٹنے کی کوششوں سمیت کئی اہم شعبوں میں امریکہ کے ساتھ اپنا تعاون جاری نہ رکھنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین اور امریکہ کے دفاعی ماہرین اور افسران کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ کو منسوخ کر دیا جائے گا جبکہ غیرقانونی تارکین وطن،موسمیاتی تبدیلی اور بین الاقوامی جرائم کی تفتیش کے حوالے سے جاری تعاون کو بھی معطل کر دیا جائے گا۔ حالانکہ گزشتہ کچھ برسوں سے چین اور امریکہ نے درج بالا شعبوں کے حوالے سے خوشگوار باہمی سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ گزشتہ برس گلاسگو میں موسمیاتی سربراہ اجلاس میں چین نے کاربن اخراج کو کم کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ چین نے پلوسی اور ان کے اہل خانہ پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ چین کا الزام ہے کہ نینسی پلوسی نے چین کے ’داخلی امور میں سنگین مداخلت‘ کی ہے اور چین کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچایا ہے اور یہ کہ نینسی پلوسی نے ’ون چائنا پالیسی‘ کے اصول کو بھی پامال کیا ہے اور آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
دراصل امریکہ 1950 اور 60 کی دہائی کی سوویت مخالف سرد جنگ کی حکمت عملی کے طرز پر چین کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تب سوویت یونین کو گھیرنا اس لیے آسان تھا کہ سوویت معیشت سے مغربی معیشتیں تیل، گیس اور گندم کی ڈور سے بندھی ہوئی نہیںتھیں۔ البتہ آج کا چین کل کا سوویت یونین نہیں جسے اتنی آسانی سے اپنی شرائط پر آمادہ کیا جا سکے۔ چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری ہے جس میں سالانہ 6 ٹریلین ڈالر کا مال خریدا بیچا جاتا ہے اور اس سے کمائے گئے زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے 3 ٹریلین ڈالر ہیں۔ چین کو بین الاقوامی خام مال کی جتنی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ باقی دنیا کو چین کا تیار مال اور سرمایہ کاری درکار ہے۔ اس وقت امریکہ اور یوروپی یونین کی ہزاروں چھوٹی بڑی کمپنیاں چین میں یا تو خود مصنوعات تیار کر رہی ہیں یا پھر چینی کمپنیوں سے سستے داموں تیار کروا کے ان پر اپنا ٹھپہ لگا کر مہنگے میں فروخت کر رہی ہیں۔ چین-امریکہ تجارت کا حجم گزشتہ برس 756 ارب ڈالر سالانہ رہا۔ جو 2020 کے مقابلے 29 فیصد زائد ہے۔ اس وقت آسیان ممالک اور یوروپی یونین کے بعد سب سے زیادہ شور مچانے والا دشمن امریکہ ہی چین کا تیسرا بڑا اقتصادی ساجھیدار ہے جبکہ سب سے بڑا علاقائی حریف جاپان بھی چین کا چوتھا بڑا شراکت دار ہے۔ جہاں تک تائیوان کی بات ہے تو اس کی 42 فیصد برآمدات کا خریدار چین ہے۔ ہندوستان نے پچھلے 2 برس سے چینی تجارت کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور ارونا چل پردیش سے لداخ تک کے سرحدی محاذ پر دونوں ممالک کی فوجیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں۔ اس حالت میں بھی ہندوستان اور چین کی تجارت کا حجم گزشتہ برس 116 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ جو 2020 کے مقابلے ( 86 ارب ڈالر ) ایک تہائی زیادہ ہے۔ چین ویسے بھی 2050 تک سب سے بڑی عالمی معیشت بننے کا ہدف حاصل کرنے میں تائیوان حاصل کرنے سے زیادہ سنجیدہ ہے۔ امریکہ اور یوروپ کی چین کے سینگ توڑ دینے کی خواہش شاید ہی کبھی پوری ہو، کیونکہ کسی بھی محدود یا طویل لڑائی میں اگر چین زخمی ہوتا ہے تو دنیا کی معیشت وینٹی لیٹر پر چلی جائے گی اور اسی دنیا میں امریکہ اور یوروپ بھی آباد ہیں۔
بہرحال یہ سبھی کے مفاد میں ہے کہ کرئہ ارض پر2 طاقتور ترین ممالک ان کشیدگیوں کو کم کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالیں۔ صدر رچرڈ نکسن کے 1972 کے دورئہ چین کے بعد سے گزشتہ تقریباً آدھی صدی کے دوران امریکہ اور چین کے رہنمائوں نے ہمیشہ ٹکرائو پر مشترکہ مفادات کو ترجیح دی ہے۔ اس رشتے نے دنیا میں استحکام اور خوشحالی قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے امریکہ کو دونوں ملکوں کے درمیان رشتے استوار کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایک اقتصادی حریف کے طور پر چین کو سزا دینے والی تجارتی پالیسی پر تکیہ کرنے کے بجائے امریکہ کو تکنیکی تعلیم، سائنٹفک ریسرچ اور صنعتی ترقی میں سرمایہ کاری کرکے اقتصادی مسابقت پر زور دینا چاہیے۔ اس پرانے طریقہ کار کو بھی ترک کرنے کی ضرورت ہے کہ اقتصادی تعلقات کے ذریعہ چینی سیاست اور سماج کو دھیرے دھیرے تبدیل کیا جائے، بلکہ اس کے بجائے چین کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ امریکہ کو مضبوط رشتے قائم کرنے پر زور دینا چاہیے۔
[email protected]