قومی میراث ختم کرنے پر آمادہ پراگندہ ذہنیت

0

ایم اے کنول جعفری

ملک میں پچھلے کئی برسوں سے ایک الگ قسم کا نفرت انگیز مذہبی رجحان دیکھا جا رہا ہے۔کبھی حجاب ، کبھی کھلے میں نماز، کبھی اذان،کبھی لاؤڈاسپیکر، کبھی اسلامی جہاد،کبھی لَو جہاد اور کبھی صدیوں سے ساتھ رہتے آرہے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی چنگاری کو ہوا دے کر شعلہ بنانے کی کوششوں کو فروغ دیاجا رہا ہے۔قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے ذریعہ گزشتہ اتوار کو نئی دہلی میں آل انڈیا صوفی سجادہ نشیں کونسل کے زیر اہتمام منعقد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بین المذاہب کانفرنس سے خطاب کے دوران ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہونے کو نشان زد کرتے ہوئے تشویش کا اظہارکرنا رجحان کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ کچھ لوگوں کے ذریعہ مذہب کی بنیاد پر معاشرے میں نفرت کو فروغ دینے سے پیدا ہو رہے خطرناک میلان پر خاموش رہنے کے بجائے قومی یکجہتی کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کرنے اور ہر ممکن طریقے سے حالات کو استوار کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ ملک اور بیرون ملک پڑنے والے غلط اثرات پر قدغن لگایا جا سکے۔
عام آدمی جہاں مہنگائی،بے سروسامانی اور بے روزگاری کے مسئلے سے نبرد آزما ہے،وہیںاُسے آٹا، دال، نمک، تیل، لکڑی اور رسوئی گیس سمیت گھر کے دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے آپ سے جنگ بھی لڑنی پڑ رہی ہے۔غربت کے سائے میں زندگی گزار رہے لوگوں کے سامنے بچوں کی پرورش، تعلیم، شادی بیاہ،بیماری اور روزمرہ کا خرچ وغیرہ کئی اہم مدعے ہیں،جن کے تدارک کے لیے کھلے ذہن سے بحث اور مل جل کرکام کرنے کی ضرورت ہے،لیکن برسراقتدار جماعت سے متعلق رہنماؤں کے ذریعہ سیاسی روٹی سینکنے اور سماج کے مٹھی بھر لوگوں میںمذہبی شناخت قائم کرنے کے لیے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کا زہر گھولنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ محبت کی میراث کو پامال کر تے ہوئے کی جا رہی نفرت کی اس کھیتی کوجب تب مذہبی جنون کا کھاد اور کراہیت کاپانی مہیا کرایا جا رہا ہے،تاکہ دو دلوں کے درمیان کدورت کی دیوار کو ہر ممکن طریقے سے بلندکیا جا سکے۔اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی،پہننے کے لیے موٹے جھوٹے کپڑے اور سر چھپانے کے لیے معمولی قسم کا گھر مہیا کرانے کی جگت میںدن رات تخمینے لگانے والا عام آدمی اس وقت خود کو ٹھگا سا محسوس کرتا ہے،جب سامنے سے آ رہے جان پہچان والے شخص کے چہرے پر خوشی کی جگہ ناخوشگواری اور محبت کی جگہ نفرت کی لکیریں صاف دکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے پر آمادہ پراگندہ ذہنیت کے افراد کی آنکھوں پر لگے مذہبی چشمے سے وہی سب دکھائی دینے لگا ہے،جو اُن کا مقصد حیات بن گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے توازن برقرار رکھنے کے بجائے آنکھیں بندکرنے اور افسران کی طرف سے ایک خاص طبقے کے لوگوں کو بات بے بات نشانہ بناتے ہوئے سخت کارروائی کرنے سے یہ انتباہ ہوتا ہے کہ اگر وقت رہتے مذہبی جنون پر قدغن نہیں لگایا گیاتو مستقبل قریب میں اس کے بے حد خطرناک نتائج سامنے آئیں گے، جن سے پار پانا مشکل ہوجائے گا۔ ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرانے والے ہندوستان کے سب سے بڑے شاپنگ ہائپر مارکیٹ ’لُو لُومال‘ کو فرقہ پرستوں کے ذریعہ نشانہ بنانے کی اَندھی تقلید اس کی تازہ مثال ہے۔وہ مال 10جولائی کو جس کاافتتاح اُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا۔افتتاحی تقریب میںصوبے کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ، برجیش پاٹھک، وزیرصنعت فروغ نند گوپال گپتا نندی اوریوپی اسمبلی کے اسپیکرستیش مہاناوغیرہ کئی نامی گرامی لوگ شامل رہے۔ 22ممالک میں235 صنعتی کاروباراور متحدہ عرب امارات کی شہریت رکھنے والے ’لُولُو مال گروپ‘ کے مالک ایم اے یوسف علی جنہیں قومی یکجہتی کے لیے جانے جانے والے ملک ہندوستان کا( کیرالہ) رہائشی ہونے کا شرف حاصل ہے، نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی پُرخلوص دعوت پر اُترپردیش میں صنعت کے فروغ کے لیے سرمایہ لگانا قبول کیا۔تقریباً 2000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے 22لاکھ مربع فٹ میں عالمی سطح کا پروجیکٹ کھڑا کیا۔ کیرالہ میں لُو لُو انٹر نیشنل شاپنگ مال پہلے سے ہی کام کر رہا ہے۔ لکھنؤ کے لُولُو مال میں 300سے زیادہ قومی اور بین الاقوامی برانڈ کی اشیاء موجود ہیں۔اس کے علاوہ11 اسکرین لیٹسٹ سپر پلیکس سنیما اور 3000 گاڑیوں کی پارکنگ کی سہولت ہے۔ مال کے ذریعہ 2000 بے روزگاروں کو روزگارملا۔ان میں 80 فیصد ہندو اور باقی میں مسلمان، سکھ،عیسائی وغیرہ شامل ہیں۔ مال میںاتنی گنجائش ہے کہ ایک ساتھ 55ہزار لوگ خریداری کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کے لُولُو مال الٰہ آباد، بنارس، کانپور، میرٹھ اور غازی آباد وغیرہ میں بھی کھلنے ہیں،لیکن ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرانے اور صارفین کو دیگر مال یا بازار سے 60فیصد تک سستی چیزیں مہیا کرانے والے یہ سپر مارکیٹ اَندھ بھکتوں کو راس نہیں آرہے ہیں۔ وہ یوسف جس نے قریب 10برس قبل یو اے ای میں موت کی سزا پا چکے کیرالہ کے وی کرشنن کوایک کروڑ روپے خوں بہا دے کر پھانسی کے پھندے سے بچایا۔ مذہب خاص سے تعلق رکھنے والے اُسی یوسف اور اس کے کاروبار کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔
11جولائی سے لکھنؤ میں صارفین کے لیے کھلے لُو لُو مال سے متعلق دو ویڈیو سامنے آئیں۔ 12؍جولائی کی ویڈیو میں9لڑکے مال میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ 16جولائی کودو ہندو نوجوان مال میں موبائل فون سے ہنومان چالیسہ پڑھ رہے ہیں۔ نماز کی مخالفت میں سندر کانڈ کا وِرد کرنے کی بات کہی گئی تو اجودھیا کے جگت گرو مہنت بابا پرم ہنس نماز پڑھنے کی جگہ کا شدھی کرن کرنے کے نام پر ماحول خراب کرنے لُو لُو مال پہنچ گئے۔ مال میںنماز پڑھنے سے ہر امن پسند شہری کے ذہن میں یہ سوال اُٹھنا لازمی ہے کہ ایسی کون سی مجبوری تھی جو لڑکوں نے مال کے اندر نماز پڑھی۔ اپنے گھر یا نزدیکی مسجد میں بھی نمازادا کی جا سکتی تھی۔ زعفرانی تنظیموں کے اراکین کے ذریعہ ہنگامہ کھڑا کرنے کے بعد پولیس کارروائی میں یہ بات سامنے آئی کہ چارلڑکے دو موٹر سائیکلوں سے لُولُومال پہنچے تھے۔ پانچ نوجوان مال میں ہی موجود تھے۔ انہوں نے گراؤنڈ فلور پر نماز پڑھنے کی کوشش کی۔ سیکورٹی گارڈ کے منع کرنے کے بعد پہلی منزل پر پہنچے۔ وہاں سے ہٹائے گئے تودوسری منزل پرجاکر نمازپڑھی۔ کسی نے نماز کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔کہا گیا کہ اُن کی منشا نماز پڑھنا نہیں،بلکہ سازش کے تحت نماز کا ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈالنا بھر تھا۔ 18 سیکنڈ کی ویڈیو میں آگے بیٹھے شخص کا رُخ دیگر نمازیوںسے مختلف ہونے پر کہا گیا کہ وہ نماز کے طریقے سے واقف نہیںتھے۔ پولیس نے جہاں اس بابت سروج ناتھ یوگی، کرشن کمار پاٹھک، گورو گوسوامی اور ارشد علی کے ناموں کا خلاصہ کیا، وہیںمال میں نماز پڑھنے کے الزام میں محمد ریحان، عاطف خان، لقمان اور نعمان کو گرفتا رکرکے جیل بھیج دیا۔ ضمانت پر چھوٹ کر جیل سے باہر آئے عاطف اور ریحان کا کہناہے کہ اُنہوں نے مال میں عصر کی نماز پڑھی۔اس میں چار پانچ منٹ لگے، لیکن ویڈیو بنانے والے نے نماز ختم ہونے کے بعد بیٹھ کر دُعا مانگنے کے وقت کی ویڈیو بنائی،جس سے غلط تاثر گیا۔
22جولائی کو گورکھ پور میں سی ڈی او سنجے کمار مینا کی رہائش گاہ کے گیٹ کے باہر ایک بزرگ کے نماز پڑھنے، 23جولائی کو پریاگ راج کے ریلوے اسٹیشن کے مہمان خانے میں ایک مولانا کے 15طلبا کے ساتھ اجتماعی نماز پڑھنے، 24جولائی کو اسی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پرلوگوں کے نماز ادا کرنے اور 26جولائی کو بجنور کے شہر کرتپور میں موتی چور مندر کے گیٹ کے سامنے بزرگ کے انفرادی نماز پڑھنے جیسی کئی ویڈیو منظر عام پر آئیں۔عام مقامات پر نماز ادا کرنے پر زعفرانی تنظیموں نے زبردست اعتراض کرتے ہوئے پولیس میں مقدمات درج کرائے۔ کچھ دنوں پہلے تک راستے کے کنارے، پارکوں، روڈویز اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور اسپتالوں وغیرہ میں مسلمانوں کے نماز پڑھنے اور ہندوؤں کے پوجا پاٹھ کرنے پر وبال تو دُور کسی کواعتراض تک نہیں ہوتا تھا۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہم ایک دوسرے اور اس کی عبادت کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔واضح کردوں کہ میں نے1977 میں آئی جی ڈی بامبے کا امتحان دیا تھا۔ سینٹر ہری دوار کے قریبی قصبہ جوالاپور کا کالج تھا۔رہائش کے لیے کمرہ غیر مسلموں کے محلے میں ملا۔ میں نے عصر کے وقت سڑک کے موڑ پر لگی ٹونٹی سے پانی لے کر وضوبنایا۔ وضو سے فارغ ہواتو وہاں موجود لوگوں نے اس طرح ہاتھ منہ دھونے کی بابت سوال کیا۔ میرے بتانے پر کہ یہ وضو ہے جسے نماز سے قبل کیا جاتا ہے،وہ بہت خوش ہوئے۔ مالک نے وضو کے لیے پیتل کا بڑا لوٹا لاکر دیا، نماز کے لیے صاف کپڑے کی پیش کش کی اور کسی دیگر چیز کی ضرورت بتانے کی گزارش کی۔ اسی طرح 1985میں میرے ساتھ کے تین ہندو ٹیچروں کو رات میں میرے گھر ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔ اُنہوں نے اگلے روزصبح سویرے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق صحن میں لگے ہاتھ کے نل سے پانی لیااورمشرق کی جانب منہ کرکے کھڑے ہوکر سورج کو پانی چڑھایا۔
پہلے لوگ ایک دوسرے کو عبادت کرتے دیکھ کر خوش ہوتے تھے،لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ ہندو راشٹر بنانے کی بلند ہوتی آوازوں کے درمیان مذہب خاص کو نشانہ بنانے کے بہانے ڈھونڈنا عام ہوگیا ہے۔بے روزگاری، غربت، مہنگائی اور بدعنوانی جیسے اہم مدعے حاشیے پرچلے گئے ہیں، لیکن ’سب کچھ چنگا سی‘ کا راگ الاپنے والی فرقہ پرست طاقتیں منافرت،تشدد، عداوت اور ظلم و ستم کو فروغ دے کر لوگوں کے اذہان کو بھٹکانے میں مشغول ہیں۔قومی میراث ختم کرنے پر آمادہ پراگندہ ذہنیت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے ملک اور جمہوری نظام کو فیض ہونے والا نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS