ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
صدر کے لیے دروپدی مرمو کے انتخاب نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کی اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کا مقابلہ کرنے میں آج بھی ناکام ہیں اور2024 کے انتخابات میں بھی بی جے پی کے سامنے وہ بونا ثابت ہوں گی۔ اب نائب صدر کے انتخاب میں ترنمول کانگریس نے اپوزیشن کی امیدوار مارگریٹ الوا کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یعنی نائب صدر کے انتخاب میں بھی اپوزیشن کی امیدوار بری طرح سے ہاریں گی۔ الوا کانگریسی ہیں۔ ترنمول کانگریس کو کانگریس سے کافی اعتراضات ہیں، حالانکہ اس کی لیڈر ممتا بنرجی خود کانگریس لیڈر رہی ہیں اور اپنی پارٹی کے نام میں انہوں نے کانگریس کا نام بھی شامل کررکھا ہے۔ممتابنرجی نے صدر کے لیے یشونت سنہا کی بھی بھرپور حمایت نہیں کی، حالاں کہ سنہا انہی کی پارٹی کے رکن تھے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ممتا بنرجی دروپدی مرمو کے مقابلے میں اوڈیشہ کے ہی ایک قبائلی رہنما تلسی منڈا کو کھڑا کرنا چاہتی تھیں۔ ممتا نے یشونت سنہا کو اپنی تشہیری مہم کے لیے مغربی بنگال آنے کی بھی درخواست نہیں کی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ترنمول کانگریس کے کچھ ایم ایل اے اور ممبران پارلیمنٹ نے بی جے پی کی امیدوار مرمو کو اپنا ووٹ دے دیا۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تو کھٹائی میں پڑا ہی ہوا ہے، ان جماعتوں کے اندر بھی غیرمطمئن عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اسی کا ثبوت یہ ہے کہ مرمو کے حق میں کئی پارٹیوں کے ایم ایل ایز اور ممبران پارلیمنٹ نے اپنے ووٹ ڈال دیے۔ کچھ غیر بی جے پی پارٹیوں نے بھی مرمو کی حمایت کی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جس بی جے پی کی امیدوار مرموکو49 فیصد ووٹ حاصل ہونا کنفرم تھا، انہیں تقریباً 65 فیصد ووٹ ملے۔ دروپدی مرمو کے انتخاب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں کے پاس نہ تو کوئی ایسا لیڈر ہے اور نہ ہی ایسی پالیسی ہے، جو سب کو ایک ساتھ باندھ سکے۔
گزشتہ دنوں ملک میں دو تین بڑے ایجی ٹیشن ہوئے لیکن تمام اپوزیشن پارٹیاں بغلیں جھانکتی رہیں۔ اس کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ پارلیمنٹ کی سرگرمیوں کو ضرور ٹھپ کرسکتے ہیں اور اپنے لیڈروں کے لیے عوامی مظاہرے بھی منعقد کر سکتے ہیں، لیکن ان کی سرگرمیوں کا ملک کے عام شہریوں پر الٹا اثر پڑتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اگر وہ صدر کے لیے کوئی ممتاز اپوزیشن لیڈر کو تیار کرلیتے تو وہ بھی ہار جاتا لیکن اپوزیشن کے اتحاد کو وہ مضبوط کرسکتا تھا۔ لیکن بی جے پی کے سابق لیڈر یشونت سنہا کو اپنا امیدوار بنا کر اپوزیشن نے یہ پیغام دیا کہ اس کے پاس اہل لیڈروں کی کمی ہے۔ مارگریٹ الوا بھی اپوزیشن کی مجبوری کی علامت معلوم ہوتی ہیں۔ سونیا گاندھی کی سخت ناقد رہیں 80سالہ الوا کو نائب صدر کے عہدے کے لیے اپوزیشن نے آگے کرکے اپنے آپ کو پیچھے کرلیا ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ نائب صدر کے لیے جگدیپ دھن کھڑ کے حق میں فیصد کے لحاظ سے صدر کو ملے ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ ملیں گے یعنی اپوزیشن کی بدتر حالت اب اور بھی زیادہ سنگین ہوجائے گی۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]