کسی ملک کے لوگوں کو تعصب و امتیاز سے آزادی قانون بنا دینے یا انسانیت پر بیان بازی سے ہی نہیں مل جاتی، انہیں یہ احساس دلانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ انصاف سب کے ساتھ یکساں طور پر کیا جائے گا مگر عام طور پر ایسا ہوتا نہیں۔ امریکہ اسی لیے آج تک نسل پرستی سے آزاد نہیں ہو سکا ہے۔ وہاں کی پولیس نے ایک اور نہتے سیاہ فام شخص کو ہلاک کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی ریاست اوہائیو میں حکام کی طرف سے جاری ویڈیوز میں یہ نظر آتا ہے کہ اس فائرنگ میں 8 پولیس اہلکار ملوث ہیں جو چند دنوں پہلے شہر اکرون میں ایک غیر مسلح 25 سالہ سیاہ فام جے لینڈ واکر کو ہلاک کرنے کی وجہ بنی تھی۔ حکام کی طرف سے پہلے یہ بات کہی گئی تھی کہ جے لینڈ واکر نے ایک گولی چلائی تھی اور دوبارہ وہ فائرنگ کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ اس پر فائرنگ کر دی گئی۔ پولیس نے اس پر کل کتنی گولیاں چلائیں، اس سلسلے میں کوئی حتمی رپورٹ نہیں آئی ہے مگر ایسی رپورٹ آئی ہے کہ ’مسٹر واکر کے جسم پر 60 سے زیادہ زخم پائے گئے ہیں۔‘ امریکہ میں اس قتل کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ یہ احتجاج ایرک گارنر یا جارج فلوئیڈ کے قتل کے خلاف ہوئے بڑے احتجاجوں جیسا ہوگا، یہ کہنا مشکل ہے مگر یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ نسل پرستی سے نجات پانے میں امریکہ پوری طرح کامیاب نہیں۔ اگر وہ کامیاب ہوتا تو 1863 میں لوگوں کو غلامی سے آزادی دلانے کے 100 برس بعد 28 اگست، 1963کو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو یہ نہ کہنا پڑتا، ’میرا ایک خواب ہے‘۔ اوباما کے صدر بننے کے بعد ایسا لگا تھا کہ ان کا خواب پورا ہو گیا ہے مگر 17 جولائی، 2014 کو ایرک گارنر کے قتل نے یہ ثابت کر دیا تھا، ایک سیاہ فام شخص کے صدر بن جانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ نے نسل پرستی سے نجات حاصل کرلی ہے۔ اس کے بعد 25 مئی، 2020 کو پولیس والوں نے جارج فلوئیڈ کا قتل کیا اور اب ایک اور سیاہ فام جے لینڈ واکر کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
انسانیت کی حفاظت بڑے بیانات دینے سے نہیں کی جا سکتی، اس کے لیے عملی اقدامات کی ضروری ہوتی ہے مگر دنیا کے بیشتر ملکوں میں دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ان کے لیڈران ایک طرف تو انسانیت کی حفاظت کی باتیں کرتے ہیں، سبھی انسانوں کو جائزحقوق دینے کی باتیں کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف فرانس میں سبھی خواتین اپنی پسند کے ملبوسات کے انتخاب کے لیے آزاد نہیں، کیونکہ وہاں حجاب پر پابندی عائد ہے۔ فرانس کی طرح کچھ اور ملکوں میں بھی حجاب پر پابندی عائد ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان کی ریاست کرناٹک میں نقاب پر پابندی کی وجہ سے کئی طالبات امتحان دینے سے محروم رہ گئی ہیں۔ پورے سوئٹزر لینڈ میں لوگ اپنی پسند کی مذہبی عمارت نہیں بنا سکتے، کیونکہ مسجدوں کے میناروں پر وہاں پابندی عائد ہے۔ کئی ملکوں میں حلال گوشت ایشو ہے، اسے ایشو بنانے میں لیڈروں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی حلال گوشت موضوع بحث بن چکا ہے۔ ایسی صورت میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سبھی انسان واقعی برابر ہیں یا ان کی برابری کی صرف باتیں کی جاتی ہیں؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا انسانیت کے تحفظ اور جائز انسانی حقوق سبھی انسانوں کے لیے یکساں ہیں؟ اگر یکساں ہیں تو کچھ لوگ بڑا جرم کرکے بچ کیسے جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو سزا دلانے کے لیے چھوٹا جرم ہی کافی کیوں ہوتا ہے؟ اگر ایرک گارنر اور جارج فلوئیڈ کے قاتلوں کو عبرتناک سزائیں دے دی جاتیں، اگر امریکہ کی عدلیہ کے نظام نے یہ اشارہ دے دیا ہوتا کہ قانون کی نظر میں سیاہ فام اور سفید فام سبھی برابر ہیں اور انہیں ان کے جرم کے مطابق ہی سزا دی جائے گی تو ایک اور سیاہ فام کا قتل نہیں ہوتا مگر بات نسل پرستی ختم کرنے کی آتی ہے تو دنیا بھر کے ملکوں پر اپنی طاقت کا اظہار کرنے والا امریکہ بے بس نظر آتا ہے، اس کی بے بسی کی دراصل وجہ ہی یہی ہے کہ وہ سفید فام ملزمین کو سخت سزا دلائے بغیر ہی سیاہ فام لوگوں کو انصاف دلانا چاہتا ہے مگر یہ ممکن نہیں۔ ایرک گارنر کے بعد جیسے جارج فلوئیڈ کا سفید فام پولیس والوں کے ہاتھوں ہلاک کیا جانا حیرت کی بات نہیں اسی طرح جے لینڈ واکر کی ہلاکت بھی حیرت انگیز نہیں ہے مگر یہ صورتحال خود امریکہ کے لیے ٹھیک نہیں۔ دیر بدیر اس کے نتائج وہاں نظر آئیں گے۔ جو بائیڈن اگر واقعی امریکہ میں امن برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو جے لینڈ واکر کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے پلے کارڈس پر توجہ دینی چاہیے، مظاہرین یوں ہی ’نو جسٹس ؍ نو پیس‘ لکھ کر احتجاج نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا یہ موقف بجا ہے کہ اگر انصاف نہیں ہوگا تو امن بھی نہیں ہوگا، کیونکہ امن باتوں سے نہیں قائم رہتا، انصاف سے قائم رہتا ہے اور انصاف کرتے وقت جرم دیکھا جانا چاہیے، یہ نہیں کہ وہ کس نے کیا ہے، اس کا تعلق سماج کے کس طبقے، کس مذہب، کس نسل، کس زبان، کس ثقافت یا کس خطے سے ہے!
[email protected]
امریکہ میں ایک اور سیاہ فام کا قتل
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS