محمد فاروق اعظمی
بقول مارکس سماج کے ایک حصے پر اگر دولت و تعیش کا ارتکاز بڑھ رہا ہو تو اس کا واضح مطلب ہے کہ دوسرے حصے پر محرومی و ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس طرح طبقاتی تقسیم وجود میں آتی ہے۔ طبقاتی تقسیم کا یہ عمل روزاول سے جاری ہے۔زندگی کاکوئی شعبہ، پہلو اور زاویہ ایسا نہیں ہے جہاں اس کی کارفرمائی نہ ہو۔ ہزار ہاانقلاب اور تحریکیں بھی اس طبقاتی تقسیم کوروک نہیں پائی ہیں۔ اس کی رفتار میں کمی بیشی ضرور ہوتی رہی ہے لیکن مکمل طور پر اس کا ختم کیاجاناممکن نہیں رہا ہے۔یہ طبقاتی تقسیم اپنے جلو میں بدعنوانی، بے ضابطگی، معاشی اور معاشرتی جبر، سیاسی استحصال، محرومیوں اور ناہمواریوں کا ایسا سیل بلالے کرآتی ہے جس میں اچھے برے کی تمیز، لحاظ و شرم، غیر ت و حمیت، اخلاق و کردار،تہذیب و شائستگی جیسی بلند و روشن انسانی قدریںخس و خاشاک کی طر ح بہہ جاتی ہیں۔ جدید و مہذب معاشروںمیں تہذیب کے اس کھلے دشمن کے خلاف ایک مسلسل پیکار ہوتی رہتی ہے جس میں ادبا و شعرا ہر اول دستہ کا کردار اداکرتے ہیں۔ شعرو ادب کی تقریباً تمام اصناف اس جنگ میں تیز دھار نشتر کا درجہ رکھتی ہیں، اسی نشترکا سہارا لے کر ادبا و شعرا معاشرہ کا ننگ اجاگر کرتے ہیں اور سفید و سیاہ الگ الگ کرکے لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔لیکن جب یہی نشترایک ظرافت نگار کے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ صرف برائیوں کو اجاگر کرنے پر اکتفانہیں کرتا بلکہ ان پر باقاعدہ حملہ آور ہوتا ہے۔ معاشرے کی زوال پذیری اور نظام کے کھوکھلے پن کے خلاف بغاوت کرتا ہے او ر بے نواطبقہ کی آواز بھی بن جاتا ہے۔اس کی ہر تخلیق سماج میں طبقاتی تقسیم کے خلاف ایک تازیا نہ ہوتی ہے۔ ظرافت نگار اپنی تحریروں میں سماج کے برے پہلوئوں کی طرف واضح، سیدھے اور تیکھے اشارے کرتے ہوئے عمل جراحی انجام دیتا ہے تاکہ زندگی اور نظام زندگی میں پیدا ناسوروں کی طرف لوگ متوجہ ہوں اوراس کا سدباب کریں۔اس عمل میں وہ کوئی چیرا نہیں لگاتا ہے بلکہ میٹھے انداز میں سماجی اصلاح کی راہ ہموار کرتا ہے۔
ایسے ہی ظرافت نگاروں میں نمایاں نام رام لال بھاٹیاکا ہے جنہیں دنیا فکر تونسوی کے نام سے جانتی ہے۔فکرتونسوی بائیں بازوکے رجحان سے شدید متاثراور نظریاتی طور پر ترقی پسند مصنف تھے جن کی زیر لب تبسم بکھیرتی تحریریں اس طبقاتی تقسیم اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوام کی بلندآہنگ آواز ہیں۔ اقتصادی اور مالی مشکلات کاسامنا کرتے رہنے والے فکر تونسوی سرگرم سیاست کا حصہ تو نہیں بنے لیکن نظریاتی سیاست میں ان کی سرگرمی بڑھتی گئی اور بائیں بازو کے رجحان نے انہیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی کل وقتی رکنیت لینے پر مجبور کردیا۔عملی سیاسی سرگرمی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی یہ ممبری تین چار سال سے زیادہ نہیں چلی لیکن ان کے قلم اور سوچ پرمارکسزم آخر وقت تک مسلط رہا۔ خود اپنے بارے میں اپنا خاکہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’میں سمجھوتہ پسندی کو ترک نہیں کرسکتا لیکن محنت کش طبقے کی صحت مند اور جاندار تحریک میرا اوڑھنا بچھونا بنتی جارہی ہے ‘‘۔
فکرتونسوی نے تقریباً نصف صدی تک اپنے قارئین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں، ان کے تناؤ کو دور کیا اور سماجی اصلاحات کا ایک منفرد انداز اپنایا۔ وہ ایک ایسے مصنف تھے جن کے طنزیہ مضامین کی وجہ سے اخبارات بکتے تھے۔تقریباً 35برسوں تک انہوں نے اخبارات میں ’ پیاز کے چھلکے ‘ کے نام سے کالم لکھے۔ جس دن ’ پیاز کے چھلکے ‘ نہیں آتا لوگ الجھن میں پڑ جاتے۔ ایڈیٹر کو اکثر خطوط بھیجے جاتے تھے کہ جس دن ’پیاز کے چھلکے‘ کالم شائع نہ کیا جائے اس سے ایک دن پہلے اس کی اطلاع چھاپ دی جائے تاکہ موڈ خراب نہ ہو۔ ایڈیٹر نے چند بار ایسا ہی کیا۔ فکر تونسوی ایک دفعہ تین دن کی چھٹی پر تھے۔ اخبار میں یہ اطلاع چھپی کہ تین دن تک فکر صاحب کا کالم شائع نہیں ہوگا۔ ان تین دنوں میں اخبار کی فروخت بری طرح متاثر ہوئی۔ جو لوگ ’پیاز کے چھلکے‘ کیلئے اخبار خریدتے تھے، انہوں نے ان تین دنوں تک اخبار نہیں خریدا۔ خبروں کیلئے اخبارات مانگے اور پڑھے لیکن قارئین ’پیاز کے چھلکے‘ سے عاری اخبار پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہ تھے۔
’ پیاز کے چھلکے ‘ کے علاوہ انہوں نے بہت کچھ لکھا جن میںتقسیم وطن اور ہجرت کے حوالے سے ان کی معروف زمانہ ڈائری، چھٹادریا، فسادات پرا ن کی تحریر ساتواں شاستر اور دیگر تحریروں میں چوپٹ راجا، فکر نامہ، آدھا آدمی، چھلکے ہی چھلکے، بات میں گھات، گھر میں چور، میں، میری بیوی وارنٹ گرفتاری، ماڈرن الٰہ دین، ماؤزے تنگ، تیر نیم کش، ہم ہندوستانی، راجا راج کرے، ڈارلنگ اور گم شدہ کی تلاش وغیرہ شامل ہیں۔
ان کے علاوہ فکر تونسوی نے اردو کے مقبول ماہنامہ ’بیسویں صدی‘ کیلئے ’’ہیون سانگ دہلی میں‘‘ کے نام سے کئی قسطیں لکھی تھیں۔630صدی عیسوی میں ہندوستان آنے والے چینی سیاح ہیونگ سانگ نے اپنی سیاحت کے دوران ہندوستان میں جوکچھ دیکھا،اسے سفرنامہ کی شکل میں محفوظ کرتا رہا۔ہیون سانگ کا سفر نامہ درمیانی زمانے کی ہندوستانی زندگی کے تعارف کا آج بھی ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ فکرتونسوی نے ’’ہیون سانگ دہلی میں‘‘ کے عنوان سے جو قسطیں لکھی ہیں، ان میں انہوں نے ہیونگ سانگ کی نظر سے بیسوی صدی کی دہلی کو دیکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور دہلی کا تفصیلی منظر نامہ بیان کیا ہے۔چار دہائیوں سے زائد گزرجانے کے بعد بھی کسی صاحب قلم نے یہ تحریریں یکجا کرنے کی کوشش نہیں کی۔خدشہ تھا کہ امتدادزمانہ کے باعث اگر یہ تحریریں اور اقساط ضائع ہوجاتیں تو اردو ادب کو بڑاخسارہ کا سامنا کرنا پڑتا۔برادرمعظم ڈاکٹر امتیاز وحید صدر شعبہ اردو کلکتہ یونیورسٹی نے اس خسارہ کو محسوس کیا اور ’’ہیون سانگ دہلی میں‘‘ کو باضابطہ ترتیب دے کر اردو ادب کو ایک بڑے خسارہ سے محفو ظ رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب کو مغربی بنگال اردو اکادمی نے شائع کیا ہے۔ 200 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں نہ صرف ’’ہیون سانگ دہلی میں‘‘ کی 13قسطیں اصل متن کے ساتھ شامل ہیں بلکہ اس میں فکر تونسوی کا اپنا لکھا خاکہ ’اپناخاکہ‘ فکر تونسوی کی خودنوشت حالات زندگی ’من کہ۔۔۔‘ بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر امتیازوحید نے 40صفحات کا مبسوط مقدمہ بھی شامل کیا ہے۔یہ اردو ادب پر ڈاکٹر امتیازوحید کا احسا ن ہے کہ انہوں نے تحقیق کے آئینہ پر جمی گرد کی دبیز تہہ کو بڑی دقت نظر سے صاف کیا اور اردو اد ب کے خزانہ میں غیر معمولی اضافہ کا سبب بنے۔ ڈاکٹر امتیاز وحید اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’فکر تونسوی کی طنزیہ تحریر ’’ہیون سانگ دہلی میں‘‘ اردو کے مقبول ترین ماہنامہ ’بیسویں صدی‘ میں ستمبر 1979 تا 1980کے عرصے میں شائع ہوتی رہی۔ یہ کل تیرہ قسطو ں پر محیط ہے۔ فکر کی دیگر نگارشات کی طرح اس کا رنگ بھی ظریفانہ ہے۔طنزیات و مضحکات میں فکر کو یدطولیٰ حاصل تھا، باوجود اس کے کہ زیر نظر تحریر کی لذت باذوق ادبی و علمی حلقے میں ہنوز محسوس کی جاتی ہے اس کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی اور نہ یہ کسی تنقیدی یا تجزیاتی مضمون میں کبھی کوٹ کی گئی، بلکہ درست بات تو یہ ہے کہ اس کا مقدر بھی فکر کی دیگر نگارشات کی طرح اندھکار میں کہیں کھوگیا۔اڑتالیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اب اس پر توجہ دی جارہی ہے ‘‘۔
ڈاکٹر امتیازوحید کہتے ہیں کہ یہ تحریر بھی فکر کی اسی تطہیری مہم کا حصہ ہے جس میں حشو وزوائد سے پاک ایک صاف شفاف سماج اور معاشرت کا خواب دیکھاگیا ہے۔ اس کیلئے فکر نے ساتویں صدی کے راجہ ہریش چندر کے بھارت میں وارد معروف چینی سیاح ہیون سانگ کے مقبول کردار کو چودہ صدی بعد سیاحت دہلی کے مخصوص تناظر میں پیش کیا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ آیا دہلی وہی دہلی ہے یا امتدادزمانہ کے ہاتھوں پامال ہوچکی ہے۔ بنیادی طور پر یہ دہلی کے ظاہر و باطن کا مطالعہ ہے جو فکر کی ژرف بینی سے جلا پاتا ہے۔اس میں ساتویںصدی کی دہلی کا قالب یکسر بدلا ہوا نظرآتا ہے۔ فکر کی دہلی کی صورتحا ل یہ ہے کہ یہاں ایمان و یقین قصہ پارینہ بن چکے ہیں، بظاہر پرسکون دکھائی دینے والی دہلی کے باطن میں رشوت ستانی، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔سیاست کا بول بالا ہے، مذہب سیاست کا آلہ کار ہے۔غریب اور غربت ووٹ بینک کا استعارہ ہیں۔
چار پانچ دہائی قبل لکھی گئی فکرتونسوی کی تحریر ’ ’ہیون سانگ – دہلی میں‘‘ محسوس ہوتا ہے کہ وہ آج کے موجودہ سیاسی اور سماجی منظر نامہ میں لکھی گئی ہے۔ سیاست کے دوغلا پن اور معاشرہ کے خصی پن کو فکر تونسوی نے ظریفانہ انداز میں پیش کیا ہے اور سوشلزم کے چہرے سے بھی نقاب کشائی کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ انہوں نے ایسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کو بھی خودکشی بتایا ہے،جو سوشلزم لاناچاہتی ہو،مگر کروڑ پتیوں کے بنگلوں میں کام کرتی ہو۔’’ہیون سانگ – دہلی میں ‘‘ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں آج کی سیاست کابھی مکروہ اور خون آلود چہرہ نظرآتا ہے اور طبقاتی تقسیم کے مصروف پیکار کیلئے حوصلہ افزاپیغام بھی۔
[email protected]